مولانا محمدشمیم ندوی
مدرسہ ریاض الجنۃ، برولیا، ڈالی گنج، لکھنو
تاریخ کی دنیا میں ہزاروں لاکھوں اشخاص نمایاں ہیں، جنھوں نے آنے والوں کے لئے اپنی زندگیاں نمونے کے طورپر پیش کی ہیں،ایک طرف شاہان عالم کے شان و شوکت کے دربارہیں، تو دوسری طرف شپہ سالاروں کی جنگی قطاریں،ایک طرف حکماء اور فلاسفروں کا متین گروہ ہے،تو دوسری طرف فاتحین عالم کی پر جلال صفیں،ایک ف شعراء کی بزم رنگین،تو دوسری طرف دولت مندوں اور خزانوں کے مالکوں کی کھنکھناتی تجوریاں ہیں،ان میں ہر ایک کی زندگی آدم کے بیٹوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے،غرض دنیا کے اسٹیج پر ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں،جو بنی آدم کی عملی زندگی کے لئے سامنے ہیں،لیکن یہ بتایئے کہ ان مختلف افراد انسانی میں سے کس کی زندگی نوع انسان کی سعادت، فلاح وہدایت کی ضامن،کفیل اور اسکے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
ان لوگوں میں بڑے بڑے فاتح اور سپہ سالار ہیں،جنھوں نے اپنی تلوار کی نوک سے دنیا کے طبقے الٹ دیئے،کیا ان کی تلواریں میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی ادہام وخیالات کی فاسد بیڑیوں کو بھی کاٹ سکی،دنیا کے اسٹیج پر بڑے بڑے شاعر پیداہوئے ہیں،لیکن خیالی دنیا کے یہ شہنشاہ عملی دنیا میں یہ بالکل بیکار ثابت ہوئے،کیونکہ انکی شیرین زبانیوں کے پیچھے ان کے حسن عمل کا کوئی خوش نما نمونہ نہ تھا، علماء اور فلاسفر جنھوں نے بارہا اپنی عقل سے نظام عالم کے نقشے بدل دیئے ہیں،وہ بھی انسانیت کے نظام حیات کا کوئی عملی نقشہ پیش نہ کرسکے،کیونکہ انکی دقیقہ سنجیواور بلند خیالوں کے پیچھے بھی حسن عمل کا کوئی نمونہ نہ تھا، اس عالم فانی پر بڑے بڑے باد شاہ بھی حکمراں ہوئے ہیں،جنھوں نے کبھی چہاردانگ عالم پر حکومت کی ہے مگر ان کاعام نقشہ وہی رہا، جسکو قرآن نے ایک آیت میں ملکہ سبا کی زبان میں اداکیا”(ترجمہ، جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو خراب کرتے ہیں، اور اس بستی کے عزت والون کو ڈلیل کرتے ہیں)
غرض یہ کہ اگر ہم غور کریں توپتہ چلے گا کہ اس وقت دنیامیں جہا ں بھی نیکی کی روشنی اور اچھائی کا نور ہے وہ صرف انہیں بزرگوں کی تعلیم وہدایت کا نتیجہ ہے جن کو ہم انبیاء کرام کے نام سے جانتے ہیں،جہاں کہیں بھی نیکیوں کا سراغ ملتا ہے وہ اسی برگزیدہ جماعت کے کسی نہ کسی فرد کی دعوت اور پکار کا دائمی نتیجہ ہے، ہرنبی نے اپنی قوم کے سامنے اخلاق عالیہ اور صفات کاملہ کا ایک نہ ایک نمونہ پیش کیا ہے، کسی نے صبر،کسی نے ایثار،کسی نے قربانی،کسی نے جوش توحید،کسی نے ولولہ حق،کسی نے تسلیم،کسی نے عفت،کسی نے زہد غرض ہر ایک نے دنیاں میں انسان کی پرپیج زندگی کے راستہ میں ایک مثال قائم کردیا،جس سے صراط مستقیم کا پتہ چلے،مگر ضرورت تھی ایک ایسے رہنما،رہبر وقائد کی جو اس سرے سے لے کر اس سرے تک پوری راہ کو اپنی ہدایت اور عملی مثالوں سے روشن کردے۔
چنانچہ آج سے چودہ سوسال قبل خالق کائنات نے آپ ﷺ کو مارہ ربیع الاول کی ۲۱/تاریخ بروز دوشنبہ اس وقت مبعوث فرمایا جب پوری دنیا کفر و شرک،جہالت وسفاہیت کی تاریکیوں میں گھری ہی نہیں بلکہ ایک نازک ترین وخطر ناک صورت حال سے دوچار تھی، شرک وبت پرستی کے ہنگامہ میں حق کی آواز دب کر رہ گئی تھی، تہذیب وتمدن کاجنازہ اٹھ چکاتھا، خداپرستی کانام ونشان مٹ چکاتھا، ضلالت وگمراہیت کے دروازے کھلے ہوئے تھے، عورتوں کو مرد حقیر وذلیل سمجھتے تھے،اور انکی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں تھی، جہاں سبزہ زار نکھارتھا وہاں خاک اڑرہی تھی، انسان عقائد باطلہ کے دلدل میں پھنساہواتھا،بغض،عداوت شان وشوکت، فخر ومباحات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھارہی تھیں، حکمرانوں کے ذہن ودماغ پر خونیں جنگوں اور ہلاکت خیزیوں کا نشہ تھا،خاندانی اور شخصی عصبیت جنون کی حدتک پہونچ چکی تھیں، انسانی معاشرہ سسک رہاتھا،اورپوری انسانیت تباہی وبربادی کے عمیق غار کی طرف بڑھتی ہوئی چلی جارہی تھی۔
یہ کام اتنا سخت اور وسیع تھا کہ اس کو بڑے پیمانے پر کرنے کیلئے کسی ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جسکی قوقت بادشاہوں جیسی ہو،جس کا علم بڑے بڑے کتب خانوں پرحاوی ہو،جس کی عمر سینکڑوں برس کی ہو،اور جو صاحب شمشیر ہواور گوشہ نشیں بھی،بادشاہ کشور کشار ہو،اور گدابھی،مفلس قانع بھی ہو اور دریادل بھی، اسلئے کہ اتنے بڑے کام کے لئے چندبرسوں میں ہونے کا امکان انسانی عقل سے بالا ترتھا، لیکن خداوند تعالیٰ نے ایسی جامع صفات سے لیا جس کو ہم شہنشاہ کونین، رسول خدا،محسن انسانیت کے لقب سے یادکرتے ہیں،اور ایسی جامع ہستی جو دنیامیں کسی حکومت شاہی سے تعلق نہ رکھتی ہو،طفلی ہی میں ماں باپ جیسی شفیق اور مہربان ہستیوں کی شفقت سے محروم کردی گئی ہو،دادا اور چچاکا سایہ بھی سرپرنہ رہاہو،اعزاء نے محبت کے بجائے عداوت کو اپنا شیوہ بنالیاہو،اور مسکراہٹ کے بدلے غم کے بھرے الفاظ دئے جاتے ہوں،جس کو محبت کا جواب نفرت سے اور ہمدردی کا جواب بے دردی سے دیاجاتا ہو،جس کا خداکے سوا کوئی والی، وارث،مربی اور سرپرست نہ ہو۔
لیکن ۳۲/ برس کی تعلیم میں اپنے اخلاق وکردار،تہذیب وتمدن، اپنے قول، فعل، وعملی مثالوں کے ذریعہ دنیاپر رحمت کی گھٹا بن کر چھاگئے، غلاموں کو آزادکیا،عورتوں کو ان کے منصب پربٹھایا،عدل وانصاف کی بنیاد مستحکم کی،، اور تمام حیوانی طاقتوں، کفر، وشرک،قتل وغارت گری، ظلم وناانصافی کے خلاف ایک اعلان عام ہوا، جس سے سسکتی ہوئی مجروح انسانیت کو قرار حاصل ہوا، اسلام کے عدل وانصاف کی دھوم چہاردانگ عالم میں سنائی دینے لگی، ظلمتیں گہری کھائیوں میں جا گریں، باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوگیا، اوربت کدوں میں ہلچل مچنے کے ساتھ ہی تاج وتخت کے ظالم وارث جائے پناہ تلاش کرنے لگے، اس قلیل مدت میں آپ ﷺ نے صرف ایک اجتماعی انقلاب اور نئی جمہوریت کی بنیاد ہی نہیں ڈالی،بلکہ اس زمانہ کی سوسائٹی میں اندرونی طورپر انقلاب عظیم پیداکردیا،اورایسا روشن انقلاب کہ تاریخ بشر میں اسکی کوئی نظیر نہیں پیش کرسکتا۔
جس وقت آمنہ کے لال، عبداللہ کے بیٹے، عبدالمطلب کے پوتے کا نام محمدتجویزکیاجارہاتھا، مصور فطرت دنیاکے نقشے میں ایک نیا رنگ بھر رہاتھا،قدرت اقوام عالم کی رہنمائی عربوں کو سونپ رہی تھی،اور مؤرخ تاریخ کا نیاباب لکھ رہے تھے،آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پر کائنات کا ذرہ ذرہ شادمانی وفرحت سے جھوم رہا تھا،آسمان پر فرشتے اور زمین پر دیگر مخلوقات بے پایا ں مسرتوں میں ڈوبے ہوئے تھے، اور رحمت کے فرشتے غلامی و جہالت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مجروح انسانیت کو علم وعمل،امن و آشتی، حریت، اخوت، آپسی بھائی چارہ، اور مساوات کا درس دے رہے تھے، جو دنیا کی عمر میں ایک نرالہ دن تھا۔
رحم وکرم کا اندازہ، الطاف واشفاق کی حد،عفو ودرگذر کی انتہا عزیز واقارب،ا وردوست واحباب پر ختم نہیں ہوجاتی،بلکہ اس کا صحیح معیار دشمن اور اسکی کسوٹی اغیار ہیں،ناچاری اور بیکسی کے وقت ظلم وستم کو برداشت اور تحمل اتنا قابل اعتنااور سزاوار نہیں جتنا کی قدرت واختیار کی حالت میں عفو ودرگذر ہوتا ہے، مجبوری کے وقت انسان سب کچھ سنتا اور سہتا ہے،لیکن اگر وہی مجبورانسان مالک ومختار بن جاتا ہے، تو دشمنوں کی گذشتہ بے ادبی بھی معافی کے قابل نہیں سمجھتابلکہ اسے انتقام کے حوالہ کردیتا ہے۔
مگر فتح مکہ کے وقت حضو ر پاک ﷺ کے چچا حضرت حمزہ کے قاتل وحشی کو پناہ کہاں ملی؟ہندہ کے لئے کس کا در دولت مامن بنا؟ابوسفیان کی قبل ازاسلام شرارتیں عالم آشکارا تھیں،جب وہ گرفتار کرکے سامنے لائے گئے تو کس کی رحمت نے انھیں اپنے دامن میں نہیں چھپایا،بلکہ ا ن کے گھر کو جو پہلے دارالفساد تھادارالامن بناکردشمنوں کے لئے اسکا داخلہ ہی پروانہ نجات قراردیا،عبداللہ بن ابی کی منافقت کسے معلوم نہیں، غزوہ احد میں عین موقع پر انکا مع اپنی جماعت کے علحدہ ہوجانا کون نہیں جانتا،اور واقعہ افک میں اس کی شرکت سے کون واقف نہیں؟مگر ہے کوئی ایسی قسمت والا جسے مرنے کے بعد بھی پرہن رسول سے سعادت دارین نصیب ہوئی ہو؟ طائف والوں نے آپ ﷺ پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑے،لیکن جب فرشتے نے ان پر عذاب کی بات کی،تو منع فرمایا، اور کہا کہ ہوسکتا ہے انکی اولاد حق کو قبول کریں،اور اسکے فتح ہونے پر کہا کہ”الیوم یوم الرحمۃ“آج کا دن رحم کا دن ہے، یہ کوئی آسان بات اور معمولی کام نہ تھا، اور یہ معجزہ ہی توہے کہ ۳۲/ سال جیسی قلیل مدت میں اسلام کا ایسابار آور پودالگا دیا جس سے آج بھی پوری دنیا میں اس سے کروڑوں پھل کھانے والے موجو د ہیں، اور رہین گے، کیونکہ اس کائنات کا وجود رہین منت ہے آپ ﷺ کی
ولادت باسعادت کا، ورنہ خطرناک حالات کی وجہ سے یہ دنیا بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتی، آپ ﷺ کی ولادت باسعادت نے دنیا کے لئے نئی زندگی کا پیغام لیکر آئی، جس سے انسانیت کی شب تاریک کو صبح صادق کا پیام ملا،آپ ﷺ کا احسان صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ کائنات کے ہر ذرہ پر ہے۔
مگر ایسا عظیم کارنامہ آپ ﷺ کے دست مبارک سے انجام پانے کے باوجود رشد وہدایت کے ماہتاب کو جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد وتسبیح کرنے اور اللہ سے مغفرت کی دعاکرنے کا حکم دیاجاتا ہے،اور پوری عاجزی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل میں آپ ﷺ لگ جاتے ہیں،اور جب آ پ ﷺ اپنی عمر کی خدمات اور قربانیوں کا آخری بدلہ مانگتے تھے،تو کیابدلہ، یہ کہ میری قبر کو شرک کی جگہ نہ بنا لیاجائے،دونوں جہاں کے پیداکرنے والے کی عزت چھین کر مجھے نہ دے دیجائے۔
لہذا آپ ﷺ کی سیرت کا پیغام کیا ہے؟زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے آپ ﷺ کی رہنمائی کیا ہیں؟،اگر ان باتوں کا احساس آپ کے دلو میں جاگتا ہے،اور انھیں اپنی زندگیوں میں نافذ کرلیتے ہیں،تو یہ سب سے بڑی عقیدت ومحبت ہوگی،اور یہ طریقہ ان ساری کانفرنسوں، جلسے، جلوس،اورتقریبات پر بھاری ہوگا،جس کا اظہار آپ کی طرف سے ہوگا، ماہ ربیع الاول کا پیغام یہ ہے کہ محسن اعظم کے اسو ہئ حسنہ کوصرف لفظی اور ظاہری تحسین دے کرنہ چھوڑیں، بلکہ سیرت طیبہ و اسوہئ حسنہ کا عملی نمونہ ہر وقت اور ہمہ دم ہماری ن ظروں کے سامنے ہونا چاہیئے، شیطانی فلسفوں کی دجھیاں
بکھیر نے،طاغوتی نظام کی سانس روکنے اور دکھی دنیا کو تباہی سے بچانے کا واحد راستہ اللہ اور اسکے رسول کی اتباع میں ہی ہے عبادت صرف اللہ کی،اطاعت آپ ﷺ کی،اسی میں اللہ اور اسکے رسول کی رضاہے،جو ضامن ہے دونوں جہان میں کامیابی وکامرانی کا، آ پ ﷺ سے محبت، آپ ﷺ کی توقیر وتعظیم ہرمسلمان پر فرض وعین ایمان ہے،اس کے بغیر نہ عبادت کام آئے گی، نہ ریاضت۔ اللہ ہم سب کو آپ ﷺ کی سنتوں پر چلنے کی توفیق عطافرمائے(آمین)
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا۔ کی محمدسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں۔
جواب دیں