آپ ضرور\ ہِٹ\ ہونگے !

بلکہ چند مغربی اداروں سے ملکر یہ تحقیق بھی کررہا ہے کہ جنگی پیمانے پر جگنووں کی افزائیش نسل کا انتظام کر ان سے برقی توانائی کیسے حاصل کی جائے….فرمایا … مودی راجہ کو یہ تحقیق آپ لوگوں نے بتائی یا نہیں ، وہ اس تحقیق کو ضرور گود لینگے… ہاں مگر خیال رہے کہ وہ جنگی پیمانوں پر کو ئی بھی کام کرنا نہیں چاہتے، سب کچھ ہٹ کے تحت انجام دینا چاہتے ہیں…. پڑوسیوں کو بھی انہوں نے یہی یقین دہانی کرائی ہے، خاصکر نیپال کو اپنی HIT کی اختراع کے تحت حالیہ دورے میں یقین دلایا ہے ……بقول انکے ہٹ مخفف ہے ہائی وے، انٹرنیٹ کمیونیکیشن اور ٹرانسپورٹیشن کا” جس میں برقی توانا ئی اور دیگر تمام توانائی کا لین دین بھی شامل ہے….. بی جے پی کا الکشن کے بعد عجب حال ہوا ہے کہ…. "تڑپ کے ہجر کے ماروں کی، خیر رات کٹی…… پڑی ہے یہ کہ دکھاتی ہے اب سحر کیا کیا”…. آپ کو پتہ نہیں مودی راجہ کی ہٹ لسٹ میں کیا کچھ مخفی ہے…اب وہ جہاں جہاں پڑوس میں جائینگے یا جب جب پڑوسیوں سے ملیں گے، مدعا ہٹ ہوگا! حالانکہ معنی و مفہوم ہر جگہ جدا ہونگے..فرمایا.. ریاست گجرات کی ترقی کا راز اسی ہٹ میں پوشیدہ تھا… اب ہندوستان جس کے با شندے ہندی کہلاتے آئے ہیں اور جنہیں اب ہندو کہلوانے کی تحریک کو ہٹ کرنے کے لئے مودی سرکار کے جد اعلی نے حکم بھی سنا دیا ہے…..بلکہ ایسی تمام تحریکوں کا الگ سے سرکاری بجٹ بھی بنایا ہوگا… جس میں مشن ٤٤ اور آرٹیکل ٣٧٠ کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ … کے امور بھی شامل کیے گئے ہونگے…..یونیفارم سول کوڈ کا شور مچا کر مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے علاوہ انکے جد اعلی کے پاس اور کچھ باقی نہیں رہا….دشمن ویسے بھی مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر اسقدر خوش نہیں ہورہے ہیں جسقدر انکا جذبۂ ایمانی دیکھ کر خوفزدہ ہورہے ہیں، اور صیہونی چنگیزیت کی غزہ میں حالیہ شکست اسکی زندہ مثال ہے ….ہندوستان میں توگڑیا جیسے چھچھوروں کی مکروہ مسکراہٹ کے درمیان خوف کی سیا ہی بھی صاف دیکھی جاسکتی ہے… یونیفارم سول کوڈ سب سے پہلے ہندو ازم کو ڈی کوڈ کریگا اور اسے سب سے چھوٹی اقلیت ثابت کر کے چھوڑے گا…. اس کوڈ کا تنور ذرا گرم تو ہونے دیجیے پھر دیکھیے گا کہ کیسے بدھ ، جین، مسیحی اور سکھ برادری اور پھر انکے بعد چھتری، ویش اور شدر سب سرکار کے منہ پر راکھ ملتے ہیں، بلکہ جنوبی ہند اور بنگال و آسام کی ریاستیں بھی اپنی اپنی روٹیاں سینکنے کے لئے آٹا گوندھ کر بیٹھی ہیں..اور لسانی تنازعات کا مسالحہ بھی پیس چکی ہے….. اور ہاں کچھ "نان سول کوڈز ” کے بھی امور ہیں جن میں سے چند ایک کی جھلک اتر پردیش میں بلکہ شمالی ہند کی مختلف ریاستوں میں پچھلے چند ماہ سے مسلسل نظر آ رہی ہے… فرمایا، لیکن اب کیا کیا جائے کہ اتر پردیش کی مقامی سرکار جو کبھی خوش خیال ہوا کرتی تھی، اب ان کی پارٹی کا حال حزب مخالف اور دیگر تمام پارٹیوں سے کچھ مختلف کہاں ہے….. سب اپنے اپنے مکافات عمل کا حساب دے رہے ہیں…جن سیاسی پارٹیوں پر ووٹوں کی بارش ہوا کرتی تھی انکا یہ حال ہوا ہے کہ بقول شاعر…. "دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں….تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا”…. اور خیر سے جنہیں ملنے لگی ہے وہ اس کہانی کا کردار نظر آتے ہیں جس میں قسمت کی دیوی راتوں رات مہربان ہوتی اور پھر روٹھ جا تی، کیونکہ سوالی کی حرص اور کینہ پروری ختم ہی نہیں ہوتی، حتی کہ دامن پھٹ جاتا اور سب کچھ زمین پر گر کر مٹی ہوجاتا…. دلی جوہندوستان کی سینکڑوں برس پر مشتمل اعلی تہذیب و تمدن کی شاہد ہے، اور جس کے نشان تغیر حالات کے باوجود مٹائے نہیں جاسکے، وہاں غلاموں سے لے کر شہنشاہوں، فقیروں اور درویشوں نے بھی حکومت کی تھی..اور عظیم الشان حکومت کی ایسی بنیادیں رکھی تھیں کہ آج بھی جس پر کھڑے ہوکر حکمران جمہوری خطبہ پڑھتے ہیں اور جس پر بیٹھ کر راج کرتے ہیں …

فرمایا، راجہ جی ضرور ہٹ ہونگے…. انہیں کچھ تاریخی حقائق جاننا ضروری ہیں تاکہ اپنی پارٹی کے جد اعلی کی تک بندی پر واہ واہ کہنے سے پہلے انسانی تاریخ، تہذیب ، اقوام اور مذاہب پر کچھ تفکر کرلیں….. جن لوگوں کو دعوی تھا صدیوں پرانی تہذیب کے علمبردار ہونے کا وہ یہ بھول گئے کہ تہذیبیں چانکیہ نیتی سے پرورش نہیں پاتی، اور نہ ہی آلودہ اورغیر مستحکم عقائد سے، اور نہ ہی چھوت چھات، رنگ نسل زبان اور علاقائی تعصبات کو پروان چڑھانے سے، نہ ہی دور جدید کی طوائف الملوکی اور جعلی جمہوریت سے…..تاریخ میں تبدیلی تو کی جا سکتی ہے لیکن تاریخ بنائی نہیں جاسکتی کہ تاریخ بنانے کے لئے اپنی تہذیب اپنا تمدن متعارف کرانا ہوتا ہے، تدریجا انکی پرورش انکی ارتقا کرنی ہوتی ہے.. ان سب کے علاوہ نقالی، بد عنوانی، فحاشی و عریانی بغض وعناد اور انحراف حق سے تہذیب تو دور کی بات ہے انسانیت بھی پروان نہیں چڑھتی ، اور یہی وہ سچائی تھی جس سے تہذیب یافتہ اہل مغرب نے بھی پلو جھاڑ لیا تھا …تہذیب کو بام عروج تک پہنچانے کا دعوی کیا لیکن انسانیت کو ایسا زوال دیا کہ اسے دوبارہ بام عروج پر لے جانے کے لئے دنیا میں ایک قیامت صغری ضروری ہوئی … اسی تہذیب جدیدہ میں پھر ” ٹیسٹ ٹیوب ” تجربات سے نکلے چند انسان نما جانوروں کو خالق حقیقی سائینسی خدا نظر آنے لگا …ظاہر ہے جس انسان کو درد زہ کی حقیقت معلوم نہ ہو اور نہ ہی اپنی ماں کا اتہ پتہ اور جس نے سائینسی تجزیات و مشا ہدات کی بدولت سائینسی آلات و کیمیات کے درمیان آنکھیں کھولی ہونگی ، اور آنکھ کھولتے ہی جسے ہر ایک تہذیب کا فرزند اپنا باپ لگا ہو اسے شرک اور شریک کی حقیقت کیسے معلوم ہوگی ، اسکے نزدیک خالق حقیقی کا تصور ایک سائینسداں سے زیادہ نہیں ہوگا …مثل مشہور ہے کہ ساون کے اندھے کو سب ہرا نظر آتا ہے …ایسی ٹیسٹ ٹیوب نسل کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ انہیں مسلم نام بے حد پسند آتےہیں اور یہ سائینسی مینڈک اپنے نام کے آگے میا ں کا لاحقہ لگا کر پھولے نہیں سماتے …فرمایا، انسانی تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بیسویں صدی کے آتے آتے تہذیب کا مفہوم ہی بدل دیا گیا…..اسکے بے شمار عناصر کو نکال باہر کردیا گیا اور ان عناصر کے عین مخالف متضاد عناصر شامل کر لئے گئے…. تہذیب سے عقائد کو نکال کر کہانیاں، رہن سہن کو نکال کر فیشن ، روحانیت کو نکال کر مادیت، صفت کو نکال کر تعداد، توازن کو نکال کر تجاوز، دانا و بینا قانون کو نکال کر اندھا قانون، حب الوطنی کو نکال کر وطن پرستی، عائلی نظام کو نکال کر فاعلی نظام، تجارت کو نکال کر منفعت، تحریم نسواں کو نکال کر آزادی نسواں اور اخلاقیات کو نکال کر آزادی انساں داخل کر دی گئی، بالآخر صدی کے اختتام پر تہذیب سے انسان کو باہر نکالا جانا باقی تھا…لیکن یہ نہ ہوسکا تو کہیں اسے جانوربنا کر پیش کردیا تو کہیں بھگوان ، کہیں گاڈ اور کہیں سائینسی خدا ….

فرمایا، دیومالائی عقیدے کے ماننے والے دنیا کے ہر گوشے میں ہر دور میں رہے ہیں اور انکے دیوتاؤں کی اپنے اپنے علاقے تک شناخت محدود رہی ، مثلا یونان و مصر کے دیو مالائی کردار کی شکلیں اور نام انہیں کے اپنے معاشرے اور تہذیب کی عکاسی کرتے…مورتی پوجا کا چلن ہردور میں اورہرعلاقے میں تغیرات و تفرقات کا شکار رہا اور زبان اور بولیوں کے تحت مورتیوں کو مختلف نام دے دئے جاتے … فن مصوری جو تصور پر منحصر ہے، اورتصور جو انسانی معاشرے اور خارجی عوامل و اشکال و ہیئت سے متاثر ہوکر ذہن میں پیدا ہوتا ہے، مورتیوں کو مختلف اشکال میں ڈھالنے کا باعث بنتا گیا… اس میں خاندان اور قوم کے بزرگوں، قبیلے کے سرداروں اور راجاوں کے بت بھی احتراما بنا لئے جاتے…. اور پھر نسل در نسل ، سفر در سفر یہ جاننا مشکل ہوجاتا کہ کون سے بت کی اصل کہاں سے ہے… ہندوستان میں یہ چلن آج بھی قائم ہے…. بزرگوں، رہنماؤں، فلمی اور سیاسی کرداروں اور یہاں تک کہ غنڈوں اور شیطانوں کے کارہائے نمایاں دیکھ کر احتراما انکے پتلے بنائے جاتے ہیں…. بلکہ آجکل تو ان کی زندگی میں ہی بنا لئے جاتے ہیں اور علی الاعلان انہیں بھگوان مانا جاتا ہے، اور با قاعدہ پوجا کی جا تی ہے….. شروع میں یہ زندہ بھگوان عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتے ہیں… پھر آہستہ آہستہ محبت اور احترام کرنے والوں کو انکے حال پر چھوڑ دیتے ہیں… کچھ کو عقیدت کا ایسا چسکا لگ جاتا ہے کہ وہ خدا بن بیٹھنا چاہتے ہیں جبکہ ان سے بنا نہیں جاتا….. پھر انکے دیوانے احترام سے ایک قدم آگے بڑھکر انکے نام اور مورتیوں کو برکتوں کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں…. اور ایک خود ساختہ عقیدہ بھی قائم کر لیتے ہیں…..گھر میں تصویر لٹکا کر یا مورتی بٹھا کر، کچھ موجودہ رسم و رواجوں سے مختلف طریقہ کار چرا کر، کچھ اپنے طور پر پوجا پاٹ کے مختلف پیرائے گھڑ لیتے ہیں….ایسے تمام رسم و رواج اور طرز فکر و عمل سے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بت تراشی اور بت پرستی کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے….. یہی وجہ ہے کہ آج بھی سناتھن دھرم ہو یا مسیحی دھرم، انکے بنیادی عقائد میں مسلسل تغیر و تبدل جاری ہے اور اسی قدر اختلافات بھی …. جس کی سب سے اہم وجہ انکے بنیادی عقائد میں وحدانیت اور ایمان بالغیب سے انحراف کا پایا جانا ہے، یعنی وحدانیت اور ایمان بالغیب کی بنیاد ہی جب نکال دی جائے تو پھردین و مذہب کی عمارت میں ٹوٹ پھوٹ یقینی ہوجا تی ہے، پھر اس کا ازالہ کرنے کے لئے لیپا پوتی کی جا تی ہے اور جو آج تک جاری ہے، اورجو کھوکھلی اورعارضی تہذیبی ارتقا کا باعث بنتی آئی ہے… اور اس کے سد باب کے لئے خالق حقیقی وقتا فوقتا ہر دور میں مختلف خطوں اور قوموں میں اپنے نبی مبعوث فرماتا رہا، جو انسانی تہذیبی اور ذہنی ارتقا کو صراط مستقیم پر قائم کر تے رہے ….لیکن پھر کہیں کسی خطے سے دیو مالائی تہذیب نمودار ہوجاتی …. الغرض ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ جا ری رہا اور انسانی تہذیبی اور ذہنی ارتقا کا سفر تمامتر تغیر و تبدل سے گزر کر بالآخر اس مقام پر جا پہنچا کہ خالق حقیقی نے "نہیں ہے کوئی خدا سوائے اس الله کے جس کے محمد (ص) رسول ہیں ” کی ضرب لگا ئی اور ختِم بھی لگا کر اتمام حجت قائم کردی ، اور ماضی اور مستقبل کی تمام باطل توجیہات اور عقائد کی آلودگی کا قصہ ہی پاک کردیا….اور ازلی دین فطرت کو جمال و کمال عطا کردیا ، اور قیامت تک کے لئے انسانی تہذیب اورعقاید کے اصول مرتب کردئے، اور ماضی کے سارے آلودہ اصول و عقاید کا انکار کر تصفیہ کردیا کہ اب دین فطرت میں نہ ہی رد و بدل کی کوئی گنجایش رہی اور نہ ہی انسانی عقل کو عذر پیش کرنے کی کہ ….ہزاروں سالہ تہذیبی سفر ، علوم وفنون، تجربات و مشا ہدات و تحقیقات و تجزیات کے حصول کے بعد انسانی عقل اس قابل ہوگئی ہے اور ہو تی جائیگی کہ حق و باطل کے فرق کو سمجھنے میں اس سے کوئی کوتاہی سرزہ نہیں ہونی چاہیے ..اپنی آخری کتاب بطور ضابطہ حیات بھی رہنما ئی کے لئے نازل کردی اور اس کے مکمل تحفظ کی یقین دہا نی پر کر دی… لیکن ہوا کیا ؟ اور ہو کیا رہا ہے ؟.. بشمول مسلمان ہر ایک مذہب کے ماننے والے کوتاہیوں کے مرتکب ہورہے ہیں اور ان میں بد ترین کوتاہی حق و باطل کا فرق کھو کر شرک کرنا ہے ….اور یہ دنیا کے بیشتر حصوں میں ہورہا ہے …

فرمایا، اب ہندوستان کا یہ حال ہوا ہے کہ راجہ جی کے ہٹ ہوتے ہی بے شمار دھرم گرو حرکت میں آگئے….اور ہندو تہذیب ، ہندتوا، سنا تھن دھرم، آریہ دھرم پر بحث مبا حثے ہونے لگے..افواہوں کا بازار گرم کر اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جانے لگا …. جن عقاید کی بنیاد ہی جھوٹ پر قائم ہو اس کے پیروکا روں سے سچا ئی کے راستوں پر کب چلا جا سکتا ہے …. یہ سب تو ہونا ہی تھا ، خاصکر جب سرکار ہندو ہونے کا بلکہ کٹر ہندو ہونے کا مظاہرہ بھی کر چکی ہو…الغرض ہندو ازم پر بحث کی شروعات بھی ہوئی اور خوب ہوئی کہ سیکولرازم کا دعوی کرنے والا مغرب نواز نمک حلال میڈیا سب کچھ بھول کر حرکت میں آگیا….کفالت و اشتہارات کی ہوڑ میں پروگرام جا ری کیے گئے… سائی بابا” سے لے کر برفانی بابا تک سب پرخوب بحث کی گئی اور انکی پوجا پاٹ پر "پرشن چن” ؟ بھی لگا دیا گیا… ہندو گرووں، سادھووں اور اہل فکر و نظر نے اپنی اپنی رائے پیش کی…کوئی نتیجہ نہیں نکلا .. ہاں کچھ حقائق بار دیگر سامنے لائے گئے… ایسا بھی ہوا کہ اکثر بحث میں "ایک ایشور پرماتما” کا ذکر بھی آگیا…. چند ہندو گروہ ایک دوسرے کے بنیادی عقائد سے ہی انحراف کر بیٹھے تو چند ہندو دھرم کے معلوم و مشہور بنیادی عقاید سے بھی……کوئی الل ٹپ توجیہات پیش کرنے لگا اور کسی نے اپنے عقائد کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے دیگر مذاہب کو نشانہ بنالیا… ایک گرو نے سائی بابا کو مسلمانوں کا دیوتا قرار دیا اور خوب چیخ پکار کی کہ مسلمان بھی انہیں پوجتےہیں …ایک بڑے دھرم گرو نے دوسرے دن اس بات کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ مسلمان جو کہ اپنے نبی کے نام پر جان قربان کرتا ہے لیکن اپنے نبی کی پوجا کبھی نہیں کرتا، تو کسی اور کی پوجا وہ کیسے کرے گا … آریہ سماج کے گرووں نے وحدانیت کا سبق دہرایا جبکہ اکثر سناتھن دھرم یعنی معروف ہندو دھرم کے گرووں نے کروڑوں بھگوان کی پوجا کا پرچار کیا … سائی با با کے ماننے والے گرووں نے مخالف گرووں سے یہ بھی کہا کہ کروڑوں بھگوان میں چند اور بھی شامل ہوجائیں تو کیا برا ئی ہے، سب بھگوان کے اوتار ہی ہیں …. البتہ یہ سارے دھرم گرو ان دھوکے باز باباوں کا ذکر کرنا شا ید بھول گئے جنہوں نے بھگوان کا اوتار دھارن کر انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں، ان میں گجرات کے آسا رام بھگوان کا ذکر سر فہرست ہوتا جو جیل کی ہوا کھا رہے ہیں … جنکی اہلیہ اور جنکے رشتے داروں اور پیروکاروں نے ان کے اندر لوک اور کاما ستر کے قصے تفتیش کے دوران دنیا کو سنائے بھی تھے ….. یہ کوئی ایک مثال میڈیا نے نہیں پیش کی ہے بلکہ آئے دن میڈیا نیا کوئی واقعہ پیش کرتا ہے …. الغرض میڈیا میں چند ایک دھرم گرو پرماتما اورآتما کی بات بھی کرتے رہے اور ایک خدا اور ایک ایشور کو ماننے کی بھی..حق چھپائے کہاں چھپتا ہے، ہر دور میں ہر طرح سے ہٹ کرتا ہے.. پھر چاہے اسے غیر مسلم چھپائیں یا انکار کریں یا مسلمان اسے گہن لگائیں… وہ ہمیشہ "ہٹ” کریگا اور "سپرہٹ” ہی ہوگا… راجہ جی آپ کو بھی ہٹ” کرے گا … آپ مذکورہ حقائق کی روشنی میں حق کو سمجھنے کی کوشش تو کیجئے.. آپ بھی "سوپر ہٹ” ہونگے… ورنہ آپ یا توحزب مخالف سے ہٹ ہونگے یا آپ کے اپنوں سے… یہی ہندوستان کی ریت رہی ہے اور یہی جعلی جمہوریت کی بھی…

«
»

’ایروم شرمیلا،انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال

سعودیہ کے سرکاری مفتی اعظم کا سرکاری فتویٰ اور اسلامی مزاحمتی تحریکیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے