آپ‘کی شرافت کا جامہ اُترہی گیا

مگراروند کجریوال کی ’گالیوں‘ والی اسٹنگ چونکہ ایک دن قبل ہی سامنے آچکی تھی،اس لئے یہ قریب از صداقت بھی لگتا ہے کہ واقعی مخالفین کو زیر کرنے کیلئے ایسی حرکتیں ہوئی ہوں۔’آپ‘ کی قومی کونسل کا اجلاس معتوب لیڈروں کی سیاسی قسمت کافیصلہ کرنے کیلئے ہی طلب کیا گیا تھا، جس کی اسکرپٹ پہلے ہی لکھی جاچکی تھی۔وہ اسکرپٹ جس کی ایک جھلک ’اسٹنگ‘ کی زبانی سنی جاچکی تھی۔ یعنی ۔۔۔لات مار کر انہیں نکالنے والی بات!چنانچہ وہی سب کچھ ہوا، جو باتیں اروند کجریوال کی زبانی سننے کو مل چکی تھیں۔مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ہر وہ نسخہ اور حربہ اختیار کیا گیا، جسے غیرمہذب،ناشائستہ اور جمہوری اقدار کے منافی کہاجاسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ماحول کواپنے حق میں ’خوشگوار‘بنانے کیلئے اروند کجریوال کے حامیوں نے بقول میڈیابد تمیزی،بد تہذیبی اور بد اخلاقی کاایسا نمونہ پیش کیا، جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔
سیاست کونئی ڈگر پر لانے اورصحتمند فکرو خیال کومجتمع کرنے کادعویٰ کرنے والی اس جماعت کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں جو کچھ ہوا،اُسے توعام لوگوں نے نہیں دیکھامگر اس میٹنگ سے قبل ڈسپلن شکنی کا جس طرح کھل کر مظاہرہ کیا گیااور اجلاس کے آغازسے قبل یوگیندر یادویا ان کے حامیوں کے ساتھ ’آپ‘کے کجریوال نوازخیمہ کے کارکنوں نے جس اندازمیں دھکا مکی کی یا بھدی گالیوں کے استعمال کی خبرجس اندازمیں سامنے آئی،وہ اپنے آپ میں’آپ‘ کی شرافت کا جامہ اُتارنے کیلئے کافی ہے۔جب مجلس عاملہ کی میٹنگ شروع ہوئی توناراض عناصر کے مطابق وہ تمام تربے اعتدالیاں، بیہودگیاں ، بد اخلاقیاں اور بد اطواریاں دیکھنے کو مل گئیں،جو اس بات کوظاہرکرتی ہیں کہ صحتمند قدروں کو فروغ دینے کی دعویدار اس جماعت کی اخلاقی لحاظ سے مٹی پلیدہوکر رہ گئی۔
ہرچند کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کی آغوش میں سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کی طویل داستانوں کو پناہ ملتی رہی ہے اور تحریکات کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعتوں کی نشیب و فرازکی کہانیاں بھی ’تاریخ سیاسیات‘کے باب میں جزو اعظم کا درجہ رکھتی ہیں مگر’آپ‘کی ہر ادا نرالی کہلاسکتی ہے جس نے نہایت قلیل عرصہ میں ایسا تلاطم دیکھا جو سمندر میں اُٹھنے والے تلاطم سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔دہلی فتح کرنے کے بعد جس طرح عام آدمی پارٹی کی شہرت کا ڈنکا پورے میں ملک میں بج رہا تھا،اُسے قریب یا دورسے دیکھنے والوں نے یہ خوش فہمی پال لی تھی کہ اگر یہ پارٹی اپنے نصب العین پر سختی کے ساتھ ڈٹی رہی اور دہلی کے عوام سے کئے وعدوں کو ایماندارانہ طریقے سے وفا کرنے کی کوشش ہوئی تو یہ پارٹی ملک کیلئے ایک نظیر بن جائے گی اور نتیجتاًعام ہندوستانیوں کو آنے والے دنوں میں ایک بہتر سیاسی متبادل بھی مل جائے گا۔کسی نے بھی خواب میں بھی یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ’’سر منڈاتے ہی اولے پڑیں گے‘‘مگر یہ بھی سچ ہے کہ اقتدار کی دہلیز پر دو بارہ قدم بوسی کے ساتھ ہی عام آدمی پارٹی داخلی رسہ کشی کا شکار بن گئی اور اب دیکھتے ہی دیکھتے اِس جماعت کا مضبوط ستون سمجھے جانے والے دوقائدین یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن ٹھکانے لگادیئے گئے۔ اور تواوران کے دو بھروسہ مند ساتھیوں پروفیسر آنند کمار اور اجیت جھا کو بھی ایک طرح سے ناکردہ گناہوں کی سزا ددے دی گئی۔ کہا یہ بھی جارہا ہے کہ اِن دونوں قائدین نے اروندکی بالادستی کو کسی نہ کسی شکل میں چیلنج دینے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے یہ صورتحال در پیش ہوئی۔یہ خیال البتہ تحقیق طلب ہے کیونکہ جوظاہری سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی رہیں،اُن سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ معتوب قائدین نے اروند کجریوال کی قیادت کو کسی بھی طورسے چیلنج کرنے کی کوئی کوشش کی بلکہ بعض معاملوں میں اصولی بنیادپر تحفظات کااظہارکیا۔ اس دوران اختلاف رائے ضرور دیکھنے کو ملتی رہی لیکن یہ تو جمہوری اقدار کا حصہ بلکہ جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے کہ کسی بھی جماعت میں اعلیٰ قیادت کے ہر فیصلہ پر مرحباکہنے کی بجائے اپنی بات بھی رکھی جائے اور دوسروں کے مفید مشوروں کو قبول بھی کیا جائے لیکن عام آدمی پارٹی کے تقریباًایک ماہ کے انتشار و خلفشار کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جھگڑا واقعتاپوری طرح اصولوں کی لڑائی بھی نہیں تھی،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ بحران زیرعتاب قائدین اوراروندکجریوال کے درمیان نظریاتی تضادمیں اضافہ کی وجہ سے سنگین شکل اختیارکرگیاجسے غالباًخود اروندکجریوال نے بہ حیثیت مجموعی انفرادی یاشخصی طورپراناکے مسئلہ میں بھی بدل ڈالااوریوں ایک دوسرے سے تال میل بٹھا پانا ممکن نہیں ہوسکا۔
یوگیندر ،پرشانت ،آننداورجھاپر بجلی گرنا طے تھی اور گر بھی گئی،لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ متذکرہ قائدین کا قصور کیا تھا؟کیا پارٹی میں داخلی جمہوریت کیلئے آواز اٹھانا جرم ہے؟کیادوسری سیاسی جماعتوں کو آرٹی آئی یعنی’حق اطلاعات قانون ‘کے تحت لانے کا مطالبہ کرنے والی جماعت کوخوداس قانون کے تحت لانے کا مطالبہ کرنانا مناسب ہے؟ کیاصوبائی اور مقامی شاخوں کو الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے اور امیدوار طے کرنے کا حق دینے کا مطالبہ کرناغیر اصولی ہے؟نہیں ہر گز نہیں۔پھرسوال یہ بھی ہے کہ اگر صرف یہی باتیں اختلافات کی وجہ بن گئیں توانہیں سلجھانے میں ناکامی کیوں ہاتھ آئی اور کیوں صورتحال اس قدر ناگفتہ بہہ ہو گئی کہ سینئر ترین قائدین کو نہایت رسوا کن انداز میں باہر کا راستہ دکھایا گیا۔دوسرا جو سب سے بڑا اہم نکتہ ہے وہ یہ کہ’غداری‘ کے الزام کی حقیقت کیا ہے؟کجریوال کا خیمہ یوگیندر اور پرشانت پر یہ الزام عائد کرتا رہاتھا کہ ان دونوں قائدین نے ’آپ‘اور کجریوال کو دہلی کے الیکشن میں شکست سے دوچار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس الزام کو اس وجہ سے بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتاکہ خود ’’گالی‘‘والی زبان بولنے کے ساتھ ساتھ اروند بھی یہی کہتے سنے گئے کہ’’مجھے عام آدمی پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہی سنبھالیں اپنی پارٹی کو، ہم دل کے خراب نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے ہمیں دہلی انتخابات میں شکست دینے کیلئے کوئی کوشش نہیں چھوڑی۔‘‘
جمعہ کی شام ایک’آپ‘ لیڈرکے ذریعہ اروند کجریوال کی بات چیت کا جو اسٹنگ جاری کیا گیا،وہ کئی لحاظ سے موضوع بحث بن رہاہے۔اولاًاس آڈیومیں کجریوال پارٹی میں چل رہے تنازعہ سے کافی دلبرداشتہ دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں پروفیسرآنندکمار اور یوگیندر یادو کے خلاف نازیبا کلمات کا بھی استعمال کر تے بھی سناگیا۔ اورثانیاًیہ بھی کہ بہ حیثیت کنوینر کجریوال کو اس تنازعہ کے خاتمہ میں کسی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے بالکل بھی نہیں سناگیا۔ان دونوں نکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم مصالحتی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں،تو یہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ انتشار کے خاتمہ کیلئے جو بھی سرگرمیاں آگے بڑھیں، وہ ظاہری تھیں اور اِن کا مقصدیہ ہرگز نہیں تھا کہ خوشگوار اندازمیں یہ معاملہ حل ہوجائے اور باہمی اتحاد کی طاقت سے پارٹی کو نئی توانائیاں دلائی جائیں،بلکہ محسوس یہ بھی ہوتا ہے کہ بنگلور سے اروند کی واپسی کے بعد مصالحت کے خوبصورت عنوان سے منافقت دکھانے کی کوشش کچھ اس طرح کی گئی جو فیصلہ کن مرحلہ تک معاملہ کو پہنچانے کا باعث بن گئی۔اس مرحلہ میں پرشانت بھوشن کے اس الزام کو بھلا کیسے نظرانداز کیاجاسکتا ہے کہ’جب انہوں نے کجریوال سے ملنے کیلئے ایس ایم ایس کیا توانہوں نے مصروف ہونے کی بات کہہ دی ۔دونوں فریقوں میں کچھ خامیاں اور خرابیاں ہوسکتی ہیں۔ کجریوال نے خود مل کر دقتوں کو دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی‘‘۔
ذہن نشیں رہے کہ عام آدمی پارٹی کے کنوینراروند کجریوال کی غیرموجودگی میںیوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی کی سیاسی امور کی کمیٹی (پی اے سی)سے نکال دیا گیا تھا۔پی اے سی کی متذکرہ میٹنگ اُس وقت طلب کی گئی تھی ،جب اروند کجریوال کھانسی کا علاج کروانے کیلئے بنگلور روانہ ہورہے تھے۔حالانکہ انہوں نے میٹنگ سے ایک دن قبل 3مارچ کوپارٹی میں جاری گھمسان پر اپنی دل شکستگی کا اظہارکیا تھا اور اس ’’بدقسمت جنگ‘‘سے خود کو الگ رکھنے کی بات بھی کہی تھی مگر عام آدمی پارٹی کی اندرونی لڑائی پر نگاہ رکھنے والے بعض مشاہدین کااُس وقت بھی یہ خیال سامنے آیا تھا کہ کجریوال کی غیرموجودگی کی وجہ اُن کی بیماری نہیں،مصلحت کا نتیجہ ہے۔قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ کے تازہ فیصلے اور ’باغیوں‘کو لات مارنے والی’حکمت عملی‘سے اس خیال کی پوری طرح توثیق ہوجاتی ہے کہ’’ ساراکھیل ‘‘خود کجریوال نے ہی کھیلا لیکن نہایت شاطرانہ انداز میں کچھ اس طرح کہ ’’بد قسمت جنگ‘‘ میں اُن کی سرگرم شمولیت کا لوگوں کو احساس کم ہو،جبھی تو کجریوال 4مارچ کو منعقد ہونے والی پی اے سی کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے مگراُن کے سب سے زیادہ بھروسہ مند ساتھی اوردہلی کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ منیش سسودیانے پی اے سی کی میٹنگ کی کمان سنبھالی اوراس ’’بد قسمت جنگ‘‘ کا پہلا معرکہ کجریوال کی غیرموجودگی میں فتح کیااور دونوں اشخاص کی پی اے سی سے کردی گئی۔اروند کجرال کی غیرموجودگی میں پی اے سی کی میٹنگ کا منعقد ہونااور الزامات کی نوعیت کو واضح کئے بغیریوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کے اخراج کی تجویز پر ووٹنگ کرایاجانااور8 کے مقابلے 11 ووٹوں کی اکثریت سے ان دونوں قائدین کو پی اے سی سے باہر کردینا کتنا اصولی فیصلہ تھا ،اس سوال کاجواب سامنے آنے سے قبل ہی پی اے سی کے تجربہ کی گویاایک طرح سے قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں تجدیدکرلی گئی اور یوں ناراض عناصرکو’لات مارکر‘باہر کردیاجانا سنگین نوعیت کے نئے سوالات کو جنم دینے کا سبب ہی نہیں بن رہاہے بلکہ اس فیصلہ سے یہ احساس بھی ہوجارہاہے کہ اروندکجریوال نے بدترین سیاسی غلطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسا نامناسب فیصلہ لیاجوپارٹی کے حق میں مفید ہوہی نہیں سکتا۔
عام آدمی پارٹی کے اندرتقریباًایک ماہ سے جاری انتشار وخلفشار کے درمیان سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال یہ ابھر کر سامنے آئی کہ پارٹی کے کنوینر اروند کجرال نے ابتدا سے اب تک ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ تاثر ابھر سکے کہ وہ اس بحران پر قابو پانے کیلئے کوشاں تھے یاہیں۔ حالانکہ پارٹی کے اندر بے اطمینانی کا ماحول فروری کے نصف آخر سے ہی دیکھنے کو مل رہاتھا مگر3مارچ تک کجریوال مکمل طورپر خاموش رہے اور ان کی یہی خاموشی بہت سے لوگوں کیلئے’’ معنی خیز‘‘بھی قرار پاتی رہی۔پہلی بار جب 3مارچ کو انہوں نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئٹر پر لب کشائی بھی کی تو اس اندازمیں کہ جیسے وہ پارٹی پر اپنی گرفت کھوچکے ہیں۔خود کو انہوں نے’’بدقسمت جنگ‘‘ سے الگ رکھنے کی جو کوشش کی،وہ بجائے خودبحث کا موضوع بن گئی کہ جو لیڈر پارٹی میں تاناشاہ کی حیثیت رکھتا ہے،وہ آخر کیوں ایسی باتیں کہہ رہا ہے۔سیاسی حلقوں میں کچھ لوگوں نے اس تاثرکو بھی عام کرنے کی بھی کوشش کی کہ ’’سارا کھیل اروند کجریوال ہی پردے میں رہ کرکھیل رہے ہیں،لیکن ہوشیاری کے ساتھ کہ وہ خود تو اس ’’بد قسمت جنگ‘‘ میں ملوث نہیں ہونا چاہتے مگراپنے چاہنے والوں کے ذریعہ پارٹی کے اندر موجود اپنے سیاسی رقیبوں کو کچل ڈالنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں‘‘۔جو بھی ہو اتنی بات تو کہی ہی جاسکتی ہے کہ اروند کا اس پورے معاملہ میں کہیں کوئی رول تھا یا نہیں مگر یوگیندر یادو ، پرشانت بھوشن،پروفیسر آننداوراجیت جھا کا اخراج پارٹی کے مستقبل کے حوالہ سے اچھا فیصلہ نہیں کہلاسکتا۔ ویسے پارٹی کے تمام تر بحران کیلئے ہمیں پرشانت اوریوگیندرکو موردالزام قراردینا ہی پڑے گا جنہوں نے خواہ مخواہ ’اصولی سیاست‘کی بات کی اورنتیجتاًآننداور جھا بھی’ گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح‘پس گئے۔انہوں نے اگر خواجہ الطاف حسین حالی کے اس شعرکو دھیان سے پڑھاہوتا تو شاید اُنہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے:
صداایک ہی رخ نہیں ناؤچلتی
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی

«
»

میں اسے کیا جواب دوں؟

صبر کرو ۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے