سب سے پہلے متبادل سیاست کا نعرہ1967کے آس پاس لگا تھا اور سبھی پارٹیوں نے کانگریس کے خلاف ایک مورچہ تشکیل کیا تھا ، یوپی ، بہار، ہر یانہ وغیرہ میں سنیکت ودھائک دل(SVD) کی حکومتیں بنیں اس متبادل سیاسی نظام کا سب سے زیادہ فائدہ تب کی جن سنگھ نے اٹھایا کیونکہ اب تک سنگھ کی فرقہ پرستی اور بابائے قوم مہا تما گاندھی کی شہادت میں اس کے ہاتھ ہونے کے الزام کی وجہ سے عوام اسے چمٹی سے بھی چھونا پسند نہیں کرتے تھے ما سوا اس طبقہ کے جو اس کی سوچ و فکر سے متفق تھا اس کا دوسرا فائدہ جن سنگھ نے یہ اٹھایا کہ انتظامیہ کے ہر شعبہ میں اپنے آدمی فٹ کردئے جو آج تک اس کو فائدہ پہنچارہے ہیں لیکن سنیکت ودھایک دل کی یہ ناؤ زیادہ لمبا سفر نہیں طے کر سکی اور منجدھار میں ہی ڈوب گئی اس کے بعد1977 میں بابو جے پر کاش نرائن کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف تحریک چلی متبادل سیاست کا نعرہ لگا جنتا پارٹی تشکیل کی گئی الیکشن میں اس نے پورے شمالی ہندوستان سے کانگریس کا صفایا کر دیا مگر محض ڈیڑھ سال میں ہی وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی بکھرنے سے پہلے اس میں جو جو ناٹک ہوئے وہ اگر کسی کو یاد ہو تو پوری کتاب لکھ سکتاہے اس بار بھی اصل فائدہ سنگھ نے اٹھایا بکھرنے کے بعد جنتا پارٹی کا وجود ہی ختم ہوگیا جبکہ بکھراؤ کے بعد جن سنگھ کی جگہ بنی نئی پارٹی بی جے پی نہ صرف آج ہندوستان میں بلا شرکت غیرے حکومت کررہی ہے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن جانے کا دعوا بھی کررہی ہے 1988میں بدعنوانی کے خلاف ہی وی پی سنگھ ہندوستانی سیاست کے منظر نامہ پر آئے جنتا دل تشکیل کی حکومت بنائی منڈل کمیشن کی سفارشات لاگو کی اجودھیا تحریک کے خلاف اپنی حمایت کررہی ہے بی جے پی کو من مانی کرنے کی اجازت نہ دے کہ محض دس مہینوں میں ہی نہ صرف اپنی حکومت گر وادی بلکہ جنتا دل کو بھی نہ جانے کتنے حصوں میں منقسم ہوتے ہوئے دیکھا ۔ نوجوانوں اور طلبا کی سب سے کامیاب سیاسی تحریک آسام میں آل آسام اسٹو ڈنٹس یو نین نے چلائی تھی جس نے بعد میں آسام گن پریشد نام کی سیاسی پارٹی تشکیل کی اور آسام میں حکومت بنائی لیکن اس کا بھی انجام آپس کی جوتم پیزار کی شکل میں سامنے آیا حالانکہ اس کا وجود تو ختم نہیں ہوا لیکن سیاسی حیثیت قریب قریب ختم ہوچکی ہے۔
عام آدمی پارٹی میں یہ سب کچھ اتنی جلدی یعنی دہلی میں تاریخ ساز کامیابی کے ایک ماہ کے اندر اندر ہی سامنے آگیا اس کی کسی کو توقع نہیں تھی ۔ وزیر اعلا اروند کیجری وال اور ان کے حامیوں کا کہناہے کہ پارٹی کی تشکیل سے لے کر اس کو ملی شاندار کامیابی سب کچھ اروند کیجری وال کے نام پر حاصل ہوا اس لئے وہ پارٹی کے نہ صرف لیڈر بلکہ حاکم بھی ہیں جبکہ پر شانت بھوشن یو گیندر یادو وغیرہ کا کہنا تھا کہ شخصیت سے زیادہ وہ اصول اہم ہیں جن کے نام پر پارٹی بنی اور ووٹ ملے تھے ۔اقتدار کا نشہ کچھ ایسا ہوتاہے کہ اس کے آنے کے بعد پھر اور سب کچھ بے معنی دکھائی دیتاہے یہ سب کے ساتھ ہوتاہے اروند کیجری وال بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے انہوں نے اپنے لحاظ سے پوری چالاکی دکھاتے ہوئے لیکن حقیقتاً انتہائی پھو ہڑ پن سے اپنے تمام مخالفین کو پارٹی سے نکال باہر تو کردیا لیکن اس عمل میں جو کچھ سامنے آیا وہ جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں بے مثال ہے ۔ اس سے پہلے بھی پارٹیوں میں پھوٹ پڑی لیڈروں میں تلخ کلامیاں بھی ہوئیں لیکن جو تم پیزار گالی گلوج کر دار کشی اور ٹانگ کھینچائی کا جو منظر عام آدمی پارٹی میں دکھائی دیا اس نے ان لوگوں کی امیدوں کا گلا گھونٹ دیا جنہوں نے اروند کیجری وال اور ان کے ساتھیوں کے دکھائے گئے حسین خوابوں پر اعتماد کرکے انہیں تاریخ ساز کامیابی سے ہم کنار کیا تھا صرف عام آدمی پارٹی ہی نہیں بکھری ہے حقیقتاً میں عوام کے خواب بکھرے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے مخالفین ابھی تک اسکے مخففAAP کو گالی گلوج اور الزام تراشی والی پارٹی(Abuse and accuse Party) کہتے تھے جو اب بدل کر اکیلے اروند پارٹی (Arvind alone Party) ہوگیا ہے یعنی دیگر تمام پارٹیوں کی طرح عام آدمی پارٹی صرف اروند کیجری وال کے چنگل میں رہے گی باقی سب کی حیثیت پیادوں جیسی ہوگی حتی یہ کہ آج ہی پارٹی کے اندرونی لوک پال ایڈ مرل رام داس کو بھی بغیر کوئی وجہ بتائے اور بغیر انہیں خود مطلع کئے پارٹی سے نکال باہر کردیا گیا۔
یہ مسئلہ صرف عام آدمی پارٹی یا اروند کیجری وال کا ہی نہیں ہے در اصل یہ اقتدار کی سیاست کا جزو لاینفک ہے اس سیاست کا بنیادی کر دار ہی ایسا ہوتاہے یعنی ندی میں کود کر کپڑے خشک رکھنے کی باتیں کرنا محض عوام کے ساتھ دھوکے بازی ہے اور کچھ نہیں اقتدار کی اس سیاست میں بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں بہت جگہ لوچ دار رویہ اختیار کرنا پڑتاہے بہت سی باتوں کو نظر انداز کرنا پڑتاہے اور یہ صرف جمہوری سیاست نہیں بلکہ مطلق العنان حکمرانوں کو بھی سمجھوتے در گذر اور لوچ دار رویہ اختیار کرنا پڑا ہے ۔ اس لئے اپوزیشن میں رہتے ہوئے خود کو فرشتہ اور دوسروں کو شیطان کہنا جنتا آسان ہے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس پیمانہ پر کھرا اترنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ عوام اور رائے دہندگان کو اس تلخ حقیقت کا ادراک کرلینا چاہئے کیونکہ جمہوری سیاست کے اس دور میں ایسے مداری اور خواب فروش ابھی اور آئیں گے۔
جواب دیں