یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اتنے کم دنوں میں ہی اس پارٹی کے اندر کانگریس کے ہائی کمان جیساایک باقاعدہ ڈھانچہ ابھرکرسامنے آ چکا ہے،ہائی کمان کے ارد گرد کچھ ایسے لوگوں کا طاقتور گروہ سرگرم ہے، جو پارٹی اور حکومت کے تمام اہم فیصلے لینے اور اسے عملی جامہ پہنانے والے نظام پر مکمل کنٹرول رکھنے میں تعاون کرتا ہے۔ پارٹی کارکنان اوررہنماؤں کی دوسری،تیسری قطاریں ہائی کمان کے ارد گرد منڈلاتے رہنے پر مجبور ہیں، اپنے ہی لوگوں کی نظروں سے گرنے کے بعد پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسے لیڈروں کا ہائی کمان سے ٹیلی فونک رابطہ تک منقطع ہو گیا۔ کیا وزارتی کونسل کی تشکیل کے رویوں اور طریقوں کے تئیں’آپ‘ اور کانگریس، بی جے پی، پی ڈی پی، آر جے ڈی، ایس پی، بی ایس پی میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ فیصلے کے عمل میں اگر اجتماعیت نہیں تو پھرپارٹی کی مجموعی صلاحیتوں کاصحیح استعمال کس طرح ممکن ہو گا؟ دہلی کابینہ میں کسی خاتون کو نہ رکھنے جیسا فیصلہ کیا اجتماعی مشورے کی بنیادپر ہو سکتا تھا؟دہلی میں حکومت سنبھالنے کے بعد بہت ہی کم دنوں میں چندقیامت خیزتبدیلیوں کے وقوع سے ایک حقیقت صاف ہوتی نظرآرہی ہے کہ عام آدمی پارٹی میں ثقہ اور غیرثقہ ہر طرح کے لوگ گھسے ہوئیں ہیں،ایسے لوگ بھی اِس پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں،جوفکری اضمحلال کا شکارہیںیاایسے لوگوں کوبھی ہائی کمان میں اثرورسوخ حاصل ہوگیاہے،جوتنگیِ فکرونظرسے دوچارہیں اوربظاہرلوک پال اورسوراج کانعرہ لگانے کے باوجوداختلافِ رائے کوانگیزکرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
ایسے میں اگر پارٹی میں کیجریوال کے عہدہ ومنصب پریوگیندریادو ہوتے تو بھی اس پارٹی کا ڈھانچہ اور کارکردگی کاطریقہ مکمل طور سے مختلف نہیں ہوتا، صرف ہائی کمان اور اس کے خاص گروہ کے چہرے مختلف ہوتے، کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ اشوک اگروال، اگنی ویش، مدھو بھنڈاری یا ونودکمار بنی؛ان تمام کے کیسز میں عام آدمی پارٹی کے موجودہ غیر مطمئن لیڈروں نے ہی تحریک اور پارٹی کے اندر ابھرنے والے ہائی کمان کا آنکھ موندکر ساتھ دیاتھا؟ کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ کئی اہم اورسرکردہ سماجی کارکنان یاتحریکی ذہنیت کے لوگ اس پارٹی میں شامل ہوئے اور پھر جلد ہی مایوس ہو کر الگ تھلگ کیوں پڑ گئے؟ کوڈنکلم تحریک کے لیڈر ایس پی ادے کمار اور نرمدا تحریک کی رہنما میدھا پاٹیکر جیسے کئی نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں، ایڈمرل رام داس اور دیامنی بارلا جیسے لوگ بھی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے رویے سے مایوس بتائے جاتے ہیں۔ویسے’آپ‘ کے تنظیمی مسائل، اندرونی جمہوریت کی کمی یا اس کے اندر ہائی کمان کلچر کی توسیع کے عمل کو سمجھنے کے لیے پارٹی کی ساخت اوراس کے پس منظرکو ٹھیک سے سمجھنا بھی ضروری ہے، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بدعنوانی مخالف تحریک کی کوکھ سے نکلی ہوئی پارٹی ہے یایہ کہ اس کا جنم ایک عوامی تحریک سے ، بے ساختہ اورخود کارطریقے سے ہواتھا،بہت حد تک یہ بات صحیح بھی ہے؛کیوں کہ کیجریوال کے ساتھ بنیادی طورپروہی لوگ مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہوئے،جولوگ اناہزارے کی کرپشن مخالف مہم میں شریک تھے؛ لیکن اس کے قیام کے پس منظر پر ذراباریکی سے نظر ڈالیں تو اس کے علاوہ ایک اورحقیقت بھی ہمارے سامنے اُبھرکرسامنے آتی ہے۔
جنتر منتر یا پھر رام لیلا میدان کی عوامی ریلیوں سے پہلے این جی او اور آرٹی آئی مہم کے دائرے میں کام کرنے والے کیجریوال اور ان کی اپنی ٹیم کے ارکان نے سن 2005 سے سن 2010 کے درمیان مختلف جماعتوں کے اہم رہنماؤں، سول سوسائٹی کی سطح پر سرگرم افراد،تنظیموں اور ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے کچھ باصلاحیت اور ہنرمند نوجوان مہاجرہندوستانیوں سے مسلسل رابطہ کیا، اس بات کے لیے کیجریوال کی تعریف کرنی ہوگی کہ تعلیم وتربیت کے اعتبارسے انجینئر اور پیشے سے نوکرشاہ ہونے کے باوجود’ آپ‘ کی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ انھوں نے دہلی کے سندرنگری سمیت چند دیگرعلاقوں میں این جی او کے ذریعہ غریب اور عام لوگوں کے درمیان رفاہی کام یارابطہ کاری کی مہم جاری رکھی،ہندوستان میں پھیلی ہوئی بے شمار رضاکارسماجی تنظیموں کی طرح وہ سماجی خدمت کے نام پر چندے کی لوٹ کے دھندے میں نہیں پھنسے، سماج کوسیاست سے جوڑنے کے اپنے بنیادی ایجنڈے پربھی وہ لوگ مسلسل مصروفِ کاررہے، MAGSAYSAY جیسا بین الاقوامی اعزاز حاصل کرنے کے بعد سماجی اور سیاسی زندگی میں کجریوال کی مخصوص شناخت بن گئی تھی، نوکرشاہوں، سول سوسائٹی کے لوگوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ان کا رابطہ بھی بدستور جاری رہا۔پھررفتہ رفتہ این جی او مرکوز کام کاج اور مظاہرہ،بھوک ہڑتال جیسی مہمات کے ذریعے کیجریوال ایک سماجی کارکن سے ایک سیاستداں سے توبدل گئے؛ لیکن بنیادی طورپران کے اندازِکاراور مزاج پر ’این جی اواسٹائل ‘ہمیشہ حاوی رہا، جس میں بنیادی طورپرساری باگ ڈورایک شخصیت کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اسی وجہ سے موقع بہ موقع ان پر اس قسم کے الزام بھی لگائے گئے کہ وہ پارٹی میں منمانی کررہے ہیں۔
اس نوپید پارٹی نے عوامی مسائل پر فوکس کرکے عوام سے ایک قسم کی قربت ضرورحاصل کی ہے،مگرواقعہ یہ ہے کہ اس کے پاس نہ تو کوئی نیامضبوط سیاسی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی ایسانیاسیاسی نظریہ، جولوگوں کودیرتک اس سے وابستہ رہنے پر مجبور کر سکے، اس کی تنظیمی ساخت میں بنیادی طور پر چار قسم کے لوگ ہیں : رضاکارتنظیموں(این جی اوز) وغیرہ سے وابستہ لوگ، سماج وادی نظریے کے حامل دانشوران یا کارکنان،اس پارٹی کے اصولوں سے متاثر پروفیشنل لوگ اور ایسے لوگ، جو نوے کی دہائی یا گزشتہ صدی کی آخری دہائی کی تحفظات مخالف مہمات میں سرگرم رہے، انہی لوگوں سے’آپ‘ کا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا ہواہے، ان میں زیادہ تر لوگ کسی لمبے سیاسی عمل یا کسی سیاسی نظریے سے طویل وابستگی کی پیداوار نہیں ہیں؛ اس لیے اچھے نصب العین، سمجھداری یا دانش مندی کے باوجود ان میں پارٹی کے وسیع تر مفادات کے تعلق سے سوچنے والے لوگوں اور نمایندگان کا فقدان ہے،ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے،جوعوام کے لیے مفیدنظریے یا خیال کو ترجیح دینے کی بجاے اپنی رائے اوربات کومنوانے پرجم جانے کے عادی ہیں۔
آسام کی طلبہ تحریک کی آغوش سے نمودار ہونے والی پارٹی ’آسام گن پریشد‘ کے لیڈر ہوسٹل سے سیدھے سیکریٹریٹ اور وزیر اعلی کی رہایش گاہ تک جاپہنچے تھے؛ لیکن چوں کہ فکرونظرمیں بے سمتی اوراندازِکارمیں درستگی نہیں تھی،سووہ زیادہ دیرتک نہیں ٹک سکے اور سب سے پہلے اس کے دو بڑے لیڈراور بانی رکن مہت اور بھارگو پھوکن ہی آپس میں گتھم گتھاہوگئے اوریہ پارٹی عوام کی توقعات پر کھری نہیں اتر سکی،ایسا لگتاہے کہ عام آدمی پارٹی بھی بتدریج اسی راستے پرچل رہی ہے،پارٹی کے سنجیدہ ترین اور دانش ورترجمان یوگیندریادواورسینئررہنماپرشانت بھوشن کوپی اے سی سے نکالے جانے کے بعدسلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا،گوپال رائے،پنکج گپتا اور سنجے سنگھ نے منگل کواپنے مشترکہ بیان میںیہ کہاکہ دہلی اسمبلی الیکشن کے دوران یوگیندریادو،پرشانت بھوشن اور شانتی بھوشن عام آدمی پارٹی کو ناکام بنانے کی سازش کر رہے تھے۔یہ الزام تھوڑی دیرکے لیے پرشانت اور شانتی کے حوالے سے صحیح ماناجاسکتاہے،مگریوگیندریادو،جنھوں نے انتخابی مہم میں پارٹی کے لیے کم و بیش سو(100)جن سبھائیں کیں،میڈیاکے ذریعے پارٹی کے موقف اور ایجنڈوں کوعام کیااورعوام کے سامنے مسلسل اپنے منطقی بیانات اورخطابات کے ذریعے اپنی پارٹی کی افادیت کو ثابت کیا ،ان کے بارے میں پارٹی کے ذمہ داروں کی جانب سے اس قسم کے بیان کا جاری ہونا واقعی حیران کن ہے ؛چنانچہ خودیوگیندریادونے بھی اس اعلانیہ بیان کا جواب اعلانیہ طورپرہی دیاہے اورانھوں نے پرشانت بھوشن کے ساتھ مل کر پارٹی کے ساتھ ہونے والے اختلافات اورگزشتہ سال بھرمیں سامنے آنے والے واقعات پرایک کھلی تحریرمیڈیاکوبھی سونپ دی ہے اوراپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی ڈال دیاہے۔گو ’آپ‘ کے بارے میں میں آسام گن پریشدجیسی کوئی پیشین گوئی کرناقبل ازوقت ہوگا؛کیوں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو ہو بہ ہو نہیں دہراتی،مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ’آپ‘ کو ا گراپنا وجودقومی پیمانے پردرج کروانا ہے تو اس کے لیڈروں کو پارٹی کے نقطۂ نظر، سمت اور تنظیم میں کام کاج کے نئے طریقے کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔عام آدمی پارٹی سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں ،انھیں امید ہے کہ سیاست میں شفافیت کی روایت شروع ہوگی،وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ پارٹی زمینی سطح پر لوگوں جڑے گی اوران کے مسائل کوحل کرے گی،انھیں امید ہے کہ اس پارٹی کے لوگ ادنیٰ اور متوسط طبقے کے لوگوں کی پریشانیوں کو سمجھیں گے اورانھیں دورکریں گے؛یہ اور ان کے علاوہ اوربھی بہت سی امیدیں اس پارٹی سے وابستہ ہیں اوران کی امیدوں کی راہ خودکیجریوال اور ان کے لوگوں نے عوام کو دکھائی ہے؛لہذاانھیں داخلی انتشاراوراندرونی خلفشارپرقابوپاکرعوام کی ان امیدوں پرکھرااترناہوگا۔
جواب دیں