پرسوں عزیز مکرم سید وقار رضوی صاحب نے اپنے اخبار اودھ نامہ میں ہماری بات کی تائید کرتے ہوئے پرُدرد الفاظ میں حضرات علماء محترم سے گذارش کی تھی کہ وہ قوم کو متوجہ کریں اور پیشکش کی تھی کہ اودھ نامہ ہر خدمت کے لئے حاضر ہے۔
آج وزیر اعظم نے ہندوستانی قوم سے اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ میں سبھی اہل وطن سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ جموں کشمیر میں مصیبت میں پھنسے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوں اور مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی مدد کرنے کی قومی کوشش کا حصہ بنیں۔ وزیر اعظم نے قومی راحت فنڈ میں چیک، ڈرافٹ اور نقد رقم جمع کرنے کی اپیل کی ہے۔
اس کے علاوہ ایک خبر دہلی سے آئی ہے کہ عام آدمی پارٹی کے ہر ایم ایل اے سے 20-20 لاکھ روپئے اپنے پریشان بھائیوں کی مدد کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایسا فیصلہ ہے کہ اگر اسے ہر پارٹی اپنا لے اور پارلیمنٹ کا ہر ممبر ایک ایک کروڑ روپئے وزیر اعظم فنڈ میں دینے کا اعلان کردے تو ایک مثال قائم ہوجائے گی۔ بات اب اس کی نہیں ہے کہ ان کی پریشانی دور ہو بات یہ ہے کہ انہیں موت کے منہ سے نکالنا ہے جو فوجی جوان اور جو ورکر کام کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ابھی پانچ لاکھ انسان اور ہیں جنہیں فوراً مدد نہ ملی تو وہ لاشوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
یہ وقت سوچنے اور غور کرنے کا نہیں ہے یہ ایسا وقت ہے کہ جس کے پاس جو ہے اسے یہ سمجھ کر اپنے بھائیوں، بہنوں اور معصوم بچوں کے لئے دے دینا چاہئے کہ خدا ہمیں کسی بھی راستے سے اور دے دے گا۔ یاد کیجئے اس واقعہ کو کہ حضور اکرمؐ کے زمانہ میں کسی صحابیؓ نے بکری ذبح کی تھی اس نے اس کا سر اپنے پڑوسی کو بھیج دیا۔ پڑوسی نے یہ سمجھ کر کہ اس کا پڑوسی زیادہ مستحق ہے وہ سر اسے بھیج دیا اس نے اپنے پڑوسی کو بھیج دیا اور ایک پڑوسی سے دوسرے کے گھر ہوتا ہوا آخرکار وہ سر اسی کے گھر آگیا جس نے بکری ذبح کی تھی۔ آج کشمیری بیشک ہمارے پڑوسی نہیں ہیں لیکن ہماری آمدنی میں ہمارے بچوں سے زیادہ ان کا حق ہے۔ بس یہ سوچ کر قدم اٹھانا چاہئے۔
ایک بہت بڑا کام مولانا ارشد میاں صدر جمعیۃ علماء ہند نے کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ انشاء اللہ دو ہزار واٹر پروف خیمے بہت جلد متاثرین تک پہونچ جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو بدنصیب پانی سے نکل کر آرہے ہیں وہ کھلے آسمان کے نیچے کشمیر کی سردی میں پڑے ہیں ان کے لئے خیموں پلاسٹک کی موٹی شیٹوں اور کمبلوں کی شدید ضرورت ہے۔ مولانا ارشد میاں نے اگر خیموں کا بیڑہ اٹھایا ہے تو ہم لکھنؤ والے کم از کم ایک لاکھ کمبلوں کا نشانہ مقرر کرکے اپنا حق ادا کردیں۔
اس وقت کشمیری مصیبت زدہ بھائیوں کا یہ حال ہے کہ وہ غصہ سے پھٹے جارہے ہیں، ان کا الزام ہے کہ کشمیر کی حکومت کیا کررہی ہے؟ وہ حیران ہیں کہ اسپتال میں مریض ہیں مگر نہ ڈاکٹر ہیں نہ نرسیں نہ وارڈ بوائے نہ دوائیں اور نہ پانی۔ یہ بات غلط نہیں ہے اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عمرعبداللہ نے چار دن تک صرف پانچ آدمیوں کے ساتھ حکومت چلائی ہے۔ سری نگر کے سولہ تھانوں سے ہر سپاہی ہر داروغہ اور ہر انسپکٹر اس لئے بھاگ گیا کہ وہ اپنے گھر اور خاندان کو دیکھنا چاہتا تھا کہ ان کا کیا ہوا؟ یہی ڈاکٹروں اور نرسوں نے کیا عوام کے غصہ کا یہ حال ہے کہ کانگریس کے بزرگ لیڈر سیف الدین سوز کسی طرح باہر نکل آئے تو جانے کتنے لوگوں نے انہیں دھکے مارے کہ گرتے گرتے بچے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ غصہ نہ حکومت کے خلاف ہے نہ کسی نیتا کے بلکہ غصہ یہ ہے کہ ایک ہفتہ سے نہ کھانا ہے نہ پانی نہ محبت نہ بیوی بچے کے لئے کچھ ہے اور جو انتظام کرسکتا ہے اس نے اتنا تو کہہ دیا کہ سب کو تین مہینے تک راشن مفت دیا جائے گا لیکن خود اس کا حال یہ ہے کہ اس کے گھر میں بھی پانی کھڑا ہے۔ نہ بجلی ہے نہ موبائل اور اگر موبائل چارج بھی ہوجائے تو وہ حکم کس کو دے؟ حکم سننے والے اور عمل کرنے والوں کے موبائل خود بند پڑے ہیں۔
کشمیری بھائیوں کو غصہ دکھانا ہے تو گیلانی صاحب یاسین ملک اور میرواعظ کو دکھائی اور انہیں پکڑلائیں اور ان سے کہیں کہ پہلے ہندوستانی فوج کی کارکردگی دیکھو پھر۔ ملٹری ’’گو بیک انڈیا گو بیک مودی گو بیک کے نعرے لگاؤ یا آج ہی لال چوک کے پانی میں کان پکڑکر کھڑے ہو اور ان فوجیوں سے معافی مانگو جس فوج نے اپنے تیس ہزار جوان جھونک دیئے ہیں جو الہ دین کے چراغ کی طرح لکڑی اور لوہے کے پل کھڑے کررہے ہیں ہیلی کاپٹر کو ہوا میں روک کر رسی کے بل پر پھنسے ہوئے انسانوں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نکال رہے ہیں۔ آندھی طوفان کی طرح کھانا اور پانی کی بوتلیں اور کمبل بانٹ رہے ہیں موٹر بوٹ اور سادہ بوٹ میں بھربھرکر پھنسے ہوئے انسانوں کو خشک جگہ پہونچا رہے ہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ فوج کا احسان کشمیریوں کو تاعمر بھولنا نہ چاہئے کہ وہ خود بھی بھوکے پیاسے ہیں لیکن نہ انہیں دن میں چین ہے نہ رات میں اور بلاشبہ اتراکھنڈ کے مقابلہ میں انہوں نے دس گنا زیادہ کام کیا ہے۔
ہم کیا کریں کہ چل کر آپ کے پاس آہی نہیں سکتے بس یہی کرسکتے ہیں کہ خونِ دل میں قلم کو ڈبو ڈبوکر لکھیں اور درخواست کریں کہ کوئی ایک بھی کھڑا ہوجائے اور وہی سب کو آواز دے۔ یہ دیکھے بغیر کہ کون سنی ہے کون شیعہ ہے کون بریلوی اور کون دیوبندی ہے۔ بس یہ دیکھے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان حالات میں مدد کے لئے آگے بڑھیں۔ بیشک علماء کرام کی آواز میں آج بھی زیادہ اثر ہے اور وہ اس کی اہمیت کو ہم سے زیادہ سمجھتے بھی ہیں۔ خدا کرے لکھنؤ پیچھے نہ رہے اور یہاں کے مسلمان ایک دوسرے کی صورت نہ دیکھیں۔
جواب دیں