قرآن مجید نے اﷲ تعالی کی صفت قدردانی کے ساتھ بھی برداشت الہی کاذکرکیاہےْ وَ اللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۶۴:۱۷)ترجمہ:اور اﷲ تعالی بہت قدردان اور برداشت سے کام لینے والا ہے۔ان آیات کی تفسیر میں وادر ہوئی متعدد روایات میں بھی اﷲ تعالی کی صفت برداشت کاکثرت سے ذکر ہے۔حقیقت یہی ہے عالم انسانیت کی بداعمالیوں اور طاغوتی طاقتوں کے ظلم و تعدی کے باوجود اس کرہ ارض پررزق کی کثرت،رحمت کی بارشوں کا نزول اور امن عافیت کی فراوانی کی وجہ محض ،خالق کائنات کی صفت برداشت ہی ہے۔وہ اپنی مخلوق سے بے حد پیارکرتاہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے گناہ جب اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ زمین بھی چینخ اٹھتی ہے کہ اے بارالہ مجھے اجازت دے کہ میں پھٹ جاؤں اور اس باغی اور سرکش فردیاقوم کو اپنے اندر سمو لوں تو بھی اﷲتعالی کی برداشت آڑے آجاتی ہے اورحلم خداوندی کے باعث رسی مزید ڈھیلی کردی جاتی ہے تاکہ موت سے پہلے پہلے توبہ کے دروازے میں داخل ہونے کے امکانات باقی رہیں۔
قرآن مجید میں صفت حلم یعنی برداشت کی صلاحیت کاذکر متعدد انبیاء علیھم السلام کے ساتھ بھی کیاہے۔ وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ‘ٓ اَنَّہ‘ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(۹:۱۱۴)ترجمہ:’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدبزرگوار کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جواس نے اپنے والد بزرگوارسے کیاتھا،مگر جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ اس کاباپ خداکادشمن ہے تووہ اس سے بیزار ہوگئے،حق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے خداترس اور صاحب برداشت آدمی تھے‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی صفت برداشت کاایک اور مقام پر بھی قرآن نے ذکر کیا اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ(۱۱:۷۵) ترجمہ:بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل،ا ﷲتعالی طرف رجوع کرنے والے اور صاحب برداشت انسان تھے‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اﷲتعالی نے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوش خبری دی تو ساتھ کہا کہ وہ صاحب برداشت بیٹاہوگا وَ قَالَ اِنِّی ذَاہِبٌ اِلٰیَ ربِّیْ سَیَہْدِیْنِ(۳۷:۹۹) رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۷:۱۰۰) فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۳۷:۱۰۱) ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتاہوں ،وہی میری راہنمائی کرے گا،اے پروردگارمجھے ایک بیٹاعطاکر جو صالحین میں سے ہو(اس دعاکے جواب میں)ہم نے اس کو ایک صاحب برداشت لڑکے کی خوش خبری دی‘‘۔حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی انہیں برداشت والا کہاکرتی تھی قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبٰآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلْ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشآؤُا اِنَّکَ لَاَ نْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۱۱:۸۷)ترجمہ:ان کی قوم نے کہااے شعیب علیہ السلام کیاتیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ داداکرتے تھے ،یایہ کہ ہم کو اپنے مال میں سے اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو،بس تو ہی ایک نیک اور صاحب برداشت آدمی بچ گیاہے۔‘‘
اورجملہ انبیاء علیھم السلام کی طرح خاتم النبیین ﷺکی تو کل حیاۃ طیبہ برداشت سے ہی عبارت ہے۔یتیمی سے شروع ہونے والی برداشت کی زندگی ،بس برداشت کی کٹھن سے کٹھن تروادیوں سے ہی ہو کر گزرتی رہی،کہیں رشتہ داروں کو برداشت کیاتو کہیں اہل قبیلہ کو،کہیں ابولہب جیسے پڑوسی کو
برداشت کیاتوکہیں ابوجہل جیسے بدتمیزترین سردارکو برداشت کیااورطائف کی وادیوں میں تو برداشت کے سارے پیمانے ہی تنگ پڑگئے اور برداشت بذات خود اپنے ظرف کی وسعت لینے خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوگئی۔محسن انسانیتﷺ کے مقدس ساتھیوں نے برداشت کو جس طرح اپنی ایمان افروز زندگیوں میں زندہ جاوید رکھااس سے سیرۃ و تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں،مکی زندگی میں کتنی ہی بار نوجوان اصحاب رسول خدمت اقدس ﷺمیں حاضر ہوئے کہ انہیں استعمارسے ٹکراکرلڑنے مرنے کی اجازر مرحمت فرمائی جائے ،لیکن ہربار برداشت کے دروس سے آگاہی کے ساتھ لوٹادیے گئے۔حضرت بلال رضی اﷲتعالی عنہ سے پوچھاجائے کہ امیہ بن خلف کو کیسے برداشت کیاجاتاہے اورآل یاسر سے کوئی تو دریافت کرے کہ ابوجہل کو برداشت کرنے کاکیامطلب ہوتاہے۔مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست میں رئیس المنافقین عبداﷲبن ابی کوجس طرح برداشت کیاگیااس کی مثال شاید کل تاریخ انسانی میں نہ ملے ،اس سے بڑھ کر اور کیاہوسکتاہے کہ دیگرصحابہ کرام کے ساتھ ساتھ اس غدارملت کا سگابیٹابھی ایک بار تو اپنے باپ کے قتل اجازت لینے پہنچ گیالیکن یہاں پھر ’’حلم نبویﷺ‘‘یعنی محسن انسانیت ﷺکی قوت برداشت نے اپنا کام دکھایااورمزیدمہلت مل گئی۔
برداشت ،علم نفسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق اس دنیامیں وارد ہونے والا ہر فرد بالکل جدارویوں اور جداجداجذبات و احساسات و خیالات کا مالک ہوتاہے،اپنے جیسا ایک انسان سمجھتے ہوئے اسے اسکاجائزمقام دینا ’’برداشت‘‘کہلاتاہے۔اس تعریف کی تشریح میں یہ بات کھل کرکہی جاتی ہے کہ دوسرے کے مذہب،اسکی تہذیب اور اسکی شخصی وجمہوری آزادی کومانتے ہوئے اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ’’برداشت‘‘ کے ذیلی موضوعات ہیں۔دیگرماہرین نفسیات نے ’’برداشت ‘‘کی ایک اورتعریف بھی کی ہے،ان کے مطابق’’دوسرے انسان کے اعمال،عقائد،اس کی جسمانی ظواہر،اسی قومیت اور تہذیب و تمدن کو تسلیم کرلینا برداشت کہلاتی ہے‘‘۔برداشت کی بہت سی اقسام ہیں،ماہرین تعلیم برداشت کو تعلیم کا اہم موضوع سمجھتے ہیں،ماہرین طب برداشت کو میدان طب و علاج کا بہت بڑا تقاضاسمجھتے ہیں،اہل مذہب کے نزدیک برداشت ہی تمام آسمانی تعلیمات کا خلاصہ ہے جسے آفاقی صحیفوں میں ’’صبر‘‘سے موسوم کیاگیاہے اورماہرین بشریات کے نزدیک برداشت انسانی جذبات کے پیمائش کا بہترین اور قدرتی وفطری پیمانہ ہے۔ابتدامیں ’’برداشت‘‘کو سمجھنے کے لیے جانوروں پر تجربات کیے جاتے تھے اور پہلے انفرادی طور پر اور پھر جانوروں کے مختلف گروہ بناکران کی برداشت کے امتحانات لیے جاتے تھے ۔بعد میں اسی نوعیت کے تجربات مدارس کے طلبہ و طالبات پر کیے جانے لگے اور پھر بالغ انسانوں پر بھی اس نوعیت کے تجربات کیے گئے لیکن غیر محسوس طور پر۔ان تجربات کے نتیجوں میں ’’برداشت‘‘کے مختلف پیمانے میسرآئے اور جذباتی اعتبار سے انسانوں کی تقسیم کی گئی ۔نتیجے کے طور ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ماحول کے اثرات کے طورپر انسانوں میں برداشت کامادہ پروان چڑھتاہے،وطنیت کا تعصب رکھنے والا اپنے وطن کے بارے کم تر برداشت کامالک ہوگالیکن اپنے حسب و نسب پرتنقیدوتنقیص برداشت کرلے گاجبکہ قومیت کے فخرمیں بھرے ہوئے شخص کی برداشت کا پیمانہ اس سے کلیۃ متضادہوگا۔
اس وقت سیکولرازم کے ہاتھوں انسانیت بدترین عدم برداشت کا شکار ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے سیکولرازم نے پاؤں کی ٹھوکروں سے مذہب کو ریاستی واجتماعی ومعاشرتی اداروں سے دیس نکالادیااور جیسے جیسے مذہب سے انسانی بستیاں خالی ہوتی گئیں توگویا برداشت کامادہ بھی انسانوں کے ہاں سے رخصت ہوتاچلاگیااور انقلابات کے عنوان سے لاکھوں انسانوں کی قتل وغارت گری کے بعد سیکولرازم نے انسانیت کو دوایسی عالمی جنگوں میں جھونک ڈالاجس کاخونین مشاہدہ اس سے پہلے کے مورخ نے کبھی نہیں کیاتھا۔صد افسوس کہ عالمی جنگوں میں آبشاروں کی طرح بہنے والا انسانی خون بھی سیکولرازم کی پیاس نہ بجھاسکااورپردہ اسکرین پر ابھرنے والے عکسی کھیلوں کے نام پر ’’ماردھاڑ سسپنس اور ایکشن سے بھرپور‘‘کہانیاں اور برداشت سے کلیۃ عاری کردار’’ہیرو‘‘بناکرسیکولرممالک سے دوسری اور تیسری دنیاؤں میں برآمدکیے گئے۔ننگ نسوانیت و ننگ انسانیت سیکولرازم کا عدم برداشت کا شرمناک کھیل آج فلمی دنیاسے نکل کر نام نہاد مہذب ترین ممالک کے ایوان ہائے اقتدارمیں نظر آرہا ہے جہاں حرص و حوس کے سیکولرپجاری سرمایادارانہ سودی معیشیت کے تحفظ کے لیے ذرائع ابلاغ پر کذب و نفاق کے سہارے فصلوں اور نسلوں کی قتل و غارت گری کے عالمی منصوبے بناتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ دنیاکی آنکھوں میں قیام امن وحقوق انسانی نام پر دھول جھونک کر اپنی عدم برداشت کو برداشت کے جھوٹے پہناوے پہنا سکیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اختتام سے قبل ہی امت مسلمہ کے مایہ ناز سپوتوں کی قلم سے سیکولرمغربی تہذیب علمی میدان میں پسپائی سے دوچار ہوچکی تھی اور اب دنیابھرمیں وحشت و درندگی کا خون آشام کھیل کھیلنے والی سیکولرافواج اپنے نظریے کو ہمیشہ کی نیند سلانے کے لیے بڑی تندہی سے سرگرم عمل ہیں اور کرہ ارض کے کل باسیوں کا مستقبل بلآخر آفاقی نوشتوں سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اﷲ تعالی۔
جواب دیں