عالمِ اسلام راؤنڈ اَپ

اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے حکمراں دنیا کے نقشہ سے گم ہوجاتے ہیں یا پھر انہیں ایسی رسوائی اور شکست نصیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس ملک کی تباہی و بربادی کے ذمہ داربھی قرار پاتے ہیں۔حضور اکرم ﷺ اور آپ کے عظیم المرتبت صحابہ کرامؓ نے ابتداء اسلام سے ہی اسلام کی عظمت اور وقار کو جس طرح اپنے ادب و اخلاق، حلم و بردباری اور اعلیٰ کردار کے ذریعہ سربلندی عطا فرمائی شاید اس کی مثال نہ اسلام سے پہلے مل سکتی ہے اور نہ اسلام کے بعد قیامت تک مل پائے گی۔تقویٰ و توکل کی بنیاد اور جذبۂ ایمانی کے ذریعہ جس طرح اسلامی پرچم دنیا کے کونے کونے میں لہرایا گیا اس کی ایک عظیم تاریخ ہے ۔ آج دنیا میں اسلام کی حقانیت اور تقدس کو پامال کرنے کی کوششیں دشمنانِ اسلام کی جانب سے جاری ہیں۔ یوں تو آغازِ اسلام سے ہی دشمنانِ اسلام نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچی ہیں اور مسلم حکمرانوں کو مختلف طریقہ سے لالچ دے کر بھٹکانے کی کوشش کی گئیں جس میں انہیں بعض موقغوں پر کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اور بعض موقعوں پر سخت ہزیمت کا شکار ہونا پڑا یا۔ بعض حکمرانوں کو چند مفاد پرست، باغی مسلمانوں کی وجہ سے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جس کی مثالیں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے دیکھی ہیں ۔ مثال کے طور پر مصر میں پہلی منتخبہ جمہوری صدر محمد مرسی کے خلاف اُس وقت کے فوجی سربراہ اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت ، یمن میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف گذشتہ چند ماہ قبل حوثی باغیوں کی بغاوت وغیرہ شامل ہے اور یہ سلسلہ تاقیامِ قیامت جاری رہے گا۔ ایک اچھا اور تجربہ کار حکمراں اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر روابط کو مدّنظر رکھکر ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے کئی ایک لائحہ عمل مرتب کرتا ہے اور عوام کی تکالیف کو محسوس کرتے ہوئے انہیں مختلف زمروں میں مراعات دیتا ہے تاکہ عوام کسی نہ کسی طرح خوشحال زندگی گزارتے ہوئے ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کریں۔ حکمرانوں کو ہمیشہ اپنوں اور غیروں سے چوکس رہنا پڑتاہے کیونکہ انکی ذرا سی بھی غفلت اور لاپرواہی ملک کی خوشحالی اور ترقی میں رخنہ ڈال سکتی ہے یہی نہیں بلکہ انہیں حکومت سے بے دخل بھی کرسکتی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ بہارِ عرب کے نام سے کتنے حکمرانوں کو رسوا و ذلیل ہونا پڑا اور ان میں سے بعض موت کی آغوش میں چلے گئے اور بعض سلاخوں کے پیچھے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ اسلامی ممالک کو گذشتہ چند برسوں کے دوران خطرناک دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک طرف القاعدہ، طالبان،دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش)، النصری ، بوکو حرام جیسی دہشت گردتنظیمیں ہیں تو دوسری جانب مسالک کی بنیاد پر لڑنے والے نام نہاد مسلمان جو اسلام کے پرچمِ عظمت کو سربلندی عطا کرنے کے بجائے سرنگوں کررہے ہیں۔ عراق، شام، افغانسان،نائجریا، یمن، لیبیاء، سوڈان میں شدت پسند گروپوں کی دہشت گردی عروج پر ہے اور ہر آئے دن کسی نہ کسی طرح کے حملوں کے ذریعہ خونی ہلاکت خیز خبریں دیکھنے یا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں نے جس طرح صدر عبد ربہ منصور ہادی کو خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزرنے پر مجبور کیا اور انہیں اپنے ملک سے فرار ہوکر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی، چونکہ سعودی عرب اور یمن کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور سعودی عرب ماضی میں یمن کے معاشی استحکام اور ترقی کے لئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں۔ یمن جہاں سنی آبادی کی اکثریت ہے جبکہ حوثی شیعہ قبائل کی تعداد کم و بیش 30فیصد ہے اس کے باوجود آج یمن میں 70فیصد سنیوں پرحوثی باغی حکومت کرنا چاہتے ہیں ۔ یمن میں حوثی باغیوں کو ایک طرف ملک کے سابق صدرعلی عبداللہ الصالح اوران کے وفادار فوجی تعاون کررہے ہیں تو دوسری جانب ایران سے بھی اسے امداد مل رہی ہے۔یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی درخواست پر سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کررہا ہے، سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ عرب اتحاد نے جس مقصد کے تحت فضائی کارروائی شروع کی تھی اس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ ابھی بھی حوثی باغی حکومت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ کسی قسم کا معاہدہ طے پایا ۔ یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کی جانب سے فضائی کارروائی کے خلاف ایران نے وارننگ بھی دے رکھی ہے، اگر یمن میں حوثی بغاوت ہتھیار ڈال دیتی ہے اور سابق صدر علی عبداللہ الصالح بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو یمن کے حالات سدھر سکتے ہیں ورنہ یمن پر جاری فضائی حملے خطے کے حالات کو بھی بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ ایران اگر واقعی یمن میں حوثی باغیوں کا کھلے عام تعاون کرتا ہے تو اس سے مسالک کی بنیاد پر جنگ چھڑ سکتی ہے اور یہ عالمِ اسلام کے لئے خطرناک ثابت ہوگی۔جبکہ شاہ سلمان نے یمن پر سعودی قیادت میں جاری حملوں کو ایران کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہونے کی بات سے انکار کیا تھا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک خطے میں دہشت گردی اور باغیانہ کارروائیوں کو ختم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہوئے جس طرح کے عملی اقدامات کررہے ہیں اس سے مستقبل میں دہشت گردانہ کارروائیوں اور بغاوت کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ 
سعودی عرب ۰۰۰ نئی نسل میں اقتدار کی منتقلی
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز مملکتِ سعودی عرب میں مضبوط و مستحکم حکومت کے لئینئی نسل کو منظر عام پر لاکر انہیں اہم ذمہ داریاں تفویض کررہے ہیں اسی کے پیشِ نظر انہوں نے کابینہ میں ردِو بدل کیا ہے شاہ سلمان شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا بنائے گئے انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنایا تھا اور اب انکی جگہ اپنے بھتیجے اور وزیر داخلہ محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا ہے جبکہ نائب ولی عہد کی حیثیت سے انکے 30سالہ فرزندمحمد بن سلمان کو بنایا گیا ہے ۔ سعودی عرب میں شاہ عبدالعزیز کے دور سے انکے فرزند ہی ولی عہد بنائے گئے اور بادشاہت یکہ بعد دیگرِ انکے فرزندوں ہی میں منتقل ہوتی رہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ شاہ سلمان نے اپنے سوتیلے بھائی کی جگہ بھتیجہ کو ولی عہد مقرر کیا ہے۔ اسی طرح شاہ سلمان نے ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے 1975ء سے یعنی چالیس سال سے وزیر خارجہ کی ذمہ داری نبھانے والے شہزادہ سعود الفیصل کی جگہ واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے سفیر عدل الجبیر کو سعودی عرب کا وزیر خارجہ نامزد کیا ہے عدل الجبیر شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیزرواں سال جنوری میں بادشاہ بننے کے ایک ہفتہ بعد ملک کی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا تھا اوراب دوسری مرتبہ وہ اپنی کابینہ میں ردو بدل کئے ہیں۔شاہ سلمان کی جانب سے کابینہ میں ردوبدل کو کئی زاویوں سے دیکھا جارہا ہے خاص طور پر یمن کے حالیہ بحران اور خطے میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے شاہ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے نئی نسل کو اہم ذمہ داریاں سونپی ہو تاکہ وہ بہتر انداز میں خطے کے حالات پر قابو پائے۔
سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق مملکت میں 93افراد کو دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ جن افراد کی گرفتاری گذشتہ برس ڈسمبر سے اب تک عمل میں آئی ہے ان میں سے پانچ کے علاوہ تمام سعودی شہری بتائے گئے ہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق گرفتار کئے جانے والے افراد نے القسیم صوبے میں ایک تربیتی مرکز قائم کیا تھا جہاں خود کش حملوں کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی اور یہ خودکش حملوں کے اہداف میں سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض میں امریکی سفارت خانہ بھی شامل تھا۔سعودی وزارت داخلہ نے اس گروہ کو گمراہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس کے حامی ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور وہ رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کے علاوہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ اور یہ تمام کارروائی داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حکم پر جاری تھی۔ 
ابوبکر البغدادی کی ہلاکت ۰۰۰؟
دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کیا واقعی امریکی ڈرون حملوں میں زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہوگئے ہیں اس سلسلہ میں ایران ریڈیو نے ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ گذشتہ ماہ 18؍ مارچ کو امریکی ڈرون حملو ں میں ابوبکر البغدادی کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع تھی جس کے بعد انہیں شام کے گولان پہاڑی پر ایک ہاسپٹل میں شریک کروایا گیا تھا ۔ اگر واقعی ابو بکر البغدادی ہلاک ہوگئے ہیں تو داعش اپنا نیا قائد اور خلیفہ کس کو بنائے گی اس سلسلہ میں ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے البتہ عراق اور امریکہ کے مشترکہ کارروائی میں ان کے شدید زخمی ہونے کے بعد انکے جانشین کی تلاش شروع ہونے کی خبر ہے ۔ داعش دنیا کی سب سے مالدار شدت پسند تنظیم ہے اور اس کے ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد دشمن کو سزا دینے کے اعتبار سے اس کی سفاکیت پر لوگ حیران و پریشان ہیں۔ عراق اور شام کے کئی ایک سرحدی اور دیگر علاقوں میں داعش قبضہ کرنے کے بعد دوسرے ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکی ہے نائجریا کی بوکو حرام تنظیم نے بھی داعش کے خلیفہ البغدادی کی خلافت کو تسلیم کرلیا، جبکہ پاکستان ، افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی داعش کی سرگرمیاں جاری ہونے کی خبریں ہیں ۔ ان حالات میں داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت سچ ثابت ہوتی ہے تو یہ داعش کے شدت پسندوں کے لئے بہت بُری خبر ہوگی اور داعش کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا جبکہ امریکہ نے داعش کے خلاف لڑائی کو طویل عرصہ بتایا تھا بغدادی کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک داعش کے خلاف کیا فیصلہ کریں گے اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے