عالمِ اسلام میں اسلام پسندوں پرشکنجہ!

مگر اب اس نے باقاعدہ اس تنظیم کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کردیا ہے،گزشتہ جمعہ کو سعودی حکومت کی وزارتِ داخلہ نے جو شاہی فرمان جاری کیا ہے، اُس کی روسے اخوان المسلمون اپنی تمام تر شاخوں سمیت ایک دہشت گردتنظیم ہے،اس کے علاوہ حزب اللہ،القاعدہ،داعش(دولتِ اسلامی عراق و شام )اور النصرہ محاذکوبھی دہشت گرد قراردیاگیا ہے،ان میں سے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے ،ان کے تئیں ہمدردی کے جذبات رکھنے اوران کا تعاون کرنے والے کے لیے بھی کم ازکم تین سال اور زیادہ سے زیادہ بیس سال کی سزاتجویز کی گئی ہے،اس کے ساتھ ان تمام سعودی جوانوں کوملک واپس آنے کے لیے پندرہ دنوں کی مہلت دی گئی ہے،جو بیرونِ ملک جنگوں میں شرکت کر رہے ہیں، البتہ اخوان اور حزب اللہ کے تئیں اس فیصلے میں فرق یہ ہے کہ اخوان کو عالمی سطح پر مجرم گرداناگیا ہے،جب کہ حزب اللہ پر صرف سعودی عرب میں پابندی عاید کی گئی ہے؛حالاں کہ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ فی الوقت لبنان،عراق اور شام میں خوںآشامی و قتل و غارت گری کا جو بازار گرم ہے،اس میں حزب اللہ کا کتنا عمل دخل ہے،یہ بھی دنیا جانتی ہے کہ ایران سعودی عرب کا چھپا ہوا دشمن ہے اور اسے سیاسی و اسٹریٹیجک طورپر حزب اللہ کا سپورٹ حاصل ہے اور عراق و شام میں بدامنی و انارکی کاجو طوفانِ بلاخیزبپاہے،اس میں امریکہ و اسرائیل کے اشاروں پر ایران کابھی ہاتھ ہے۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور قطرکے مابین واقع ہونے والے اختلافات کی بھی اصل وجہ یہی تھی کہ قطر اخوان کے تئیں نرم گوشہ رکھتا ہے اور وہاں مصرکے بہت سے جلاوطن علما،دانشوران اور اربابِ فکر مقیم ہیں،گزشتہ دنوں جب مصر کے سابق عبوری وزیر اعظم حازم الببلاوی نے ریاض کا دورہ کیا تھا،تو قطرسے بلا واسطہ بھی اور سعودی عرب کے واسطے سے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے یہاں مقیم مصری ’’بھگوڑوں‘‘ کو اس کے حوالے کردے اور اخوان المسلمون کے تئیں اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرے،مگر قطرنے اس تعلق سے کوئی جواب نہیں دیا تھااورسعودی عرب چوں کہ اولِ دن سے ہی موجودہ جابر و ظالم فوجی حکومت کے دست و بازو کی حیثیت سے سرگرمِ تعاون رہاہے؛اس لیے جب اس نے دیکھا کہ قطر پر ان مطالبات کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے،تواس نے یہ بہانہ بناکر کہ قطر نومبر۲۰۱۳ء میں گلف کارپوریشن کونسل کے مابین ہونے والے سکیورٹی معاہدوں کی خلاف ورزی میں ملوث ہے،وہاں سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا،اس کے ساتھ ساتھ بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے سفرا واپس بلا لیے،۳؍مارچ کو گلف کاروپوریشن کونسل کے ممبران ان ممالک نے قطرسے اپنے سفرابلائے اور اس کے ٹھیک دوسرے دن اخوان المسلمون کو عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قراردے دیاگیا،سعودی عرب کے اس حیرت انگیز فیصلے کو نامناسب قراردیتے ہوئے جہاں حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا،وہیں بحرین اور یو اے ای نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اوراگلے ہی دن موجودہ مصری حکومت کی یہ اپیل بھی اخبارات کی زینت بنی کہ اب ،جب کہ سعودی عرب نے بھی اخوانیوں کو دہشت گرد قراردے دیا ہے،سارے عالمِ اسلام کا یہ فریضہ ہے کہ وہ بھی انھیں دہشت گردقراردے دے،موجودہ مصری حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں مصر کے منصورہ علاقے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار اخوان المسلمون کوقراردے کراسے پہلے ہی دہشت گرد قراردے رکھا ہے،حالاں اخوان اس وقت سے لے کر اب تک اس حملے سے انکار کرتے رہے ہیں ۔سعودی عرب نے اپنے فیصلے کو جواز فراہم کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس نے قومی تحفظ کے نقطۂ نظرسے یہ فیصلہ کیا ہے۔
اخوان المسلمون کی اب تک تقریباً نو دہائیوں پر مشتمل تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک خالص اسلامی الفکر تنظیم ہے اوراس کے سانچے اور ڈھانچے میں عدمِ تشدداورصلح جوئی کا عنصر شامل ہے؛یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اس تنظیم پر مصر کی جمال عبدالناصر،انورسادات اورحسنی مبارک کی جابرانہ حکومتوں کے ہاتھوں ظلم و جور کے پہاڑ توڑے گئے،ان کے قائدین کو پابندِ سلاسل کیا گیا،انھیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں اور ان کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی گئی،مگر اخوانیوں نے ان تمام موقعوں پر اسلحہ برداری کی بجاے صبر و شکیبائی کا دامن تھامے رکھا اوراس کی زندہ مثال ہم گزشتہ سال کے جون سے لے کر تاحال اپنی چشمِ سر سے دیکھ رہے ہیں کہ مصر میں چنداسرائیل نواز اورامریکہ کے نمک خوار لیڈران کے ذریعے وہاں ہنگامۂ رستخیز برپا کیاگیا،اخوان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا، ان کے حامی صدر کو زنداں رسید کیاگیا،سیکڑوں بے گناہ اخوانیوں کو پابجولاں کیاگیا،پورے ملک میں انھیں ذلت و خواری سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی،حتی کہ بغاوت کی کوکھ سے جنم لینے والی حکومت نے ناکردہ گناہ کے جرم میں انھیں دہشت گرد قرار دے دیا،مگر انھوں نے پر امن احتجاجات کے علاوہ اور کسی بھی قسم کا اقدام نہیں کیا،وہ چاہتے،تو شام،لبنان اور عراق کی باغی جماعتوں کی ماننداسلحہ کا سہارا لے سکتے تھے اور تشدد کا جواب تشدد سے دے سکتے تھے،مگر نہیں!انھوں نے اپنے اصول اور ضابطوں پر سختی سے عمل کیااور ایسا کچھ بھی نہیں کیا،جو آج شام میں باغی جماعتیں کر رہی ہیں یاعراق میں حکومت مخالف عناصر کر رہے ہیں؛لیکن کیاان کی صلح پسندی بھی جرم ہے؟یہ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ سعودی عرب کے حالیہ فیصلے میں یہ کہاگیا ہے کہ اخوان کے قدیم سنی نظریات موجودہ سعودی حکومت کی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور ان کے لیے ضرررساں ثابت ہوسکتے ہیں،کیا اسلام کے علاوہ ان کا تعلق کسی اوردین و مذہب سے ہے؟ماضی میں تو سعودی حکومت ہی اخوان المسلمون کے زخموں پر مرہم نہانی کاکام کرتی رہی ہے،توآج کیوں اچانک اس کے تیوربدل گئے؟یہ حرم کے خدمت گزاروں نے آخرکیوں حرمِ محترم پر اپنی جان نچھاور کردینے والوں کا ناطقہ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا؟ آپ کو معلوم ہے کہ سعودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کوئی بھی اخوانی حج و عمرے کے لیے بھی حدودِ حجازمیں قدم رکھنے کا مجاز نہیں ہوگا،یہ تو ایک مسلمان کے لیے جیتے جی مرجانے کے مترادف ہے کہ اسے شدید خواہش اور تمناؤں کے باوجود خانۂ خدا کی زیارت سے روک دیا جائے اور پھر اخوان المسلمون کے لیے،جن کی پوری تاریخ ہی اسلام کی ترویج و اشاعت اور شعائرِ اسلام کے اعلا و سربلندی کی تاریخ ہے،تویہ فیصلہ اور بھی کرب ناک،دلدوزاورجگرخراش ہے۔
سعودی عرب مسلمانانِ عالم کی عقیدتوں کا مرکز،ان کے احساساتِ احترام و تکریم کا قبلہ،ان کی نیک خواہشات اور تمناؤں کامحور،ان کے دلوں کا نور اور آنکھوں کا سرورہے،مگر اس لیے نہیں کہ وہ زرِ سیال سے مالامال ملک ہے اور اس لیے بھی نہیں کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی اقتصادی بدحالی اور معاشی شکستگی کو دور کرتاہے،کہ وہ تو دوسرے ملکوں کے ذریعے بھی دورہوتی ہے؛بلکہ صرف اور صرف اس لیے کہ وہ مہبطِ وحیِ ربانی ہے،وہ اللہ کے پسندیدہ دین اور محبوب نبیﷺکا مولد و منبع ہے،اس کی خاک کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہاں سال ہا سال تک روح القدس کے ذریعے نبی آخر الزماں ﷺ پر خدا کے بول اترتے رہے ہیں،وہیں سے اسلام نے عالمِ غربت و بے چارگی میں اپنا سفر شروع کیا تھا اور پھر حیطۂ ارضی کے تمام تر حدودمیں چھاتاگیا،اس کی فضاؤں میں قرنِ اول کے ان جاں باز مسلمانوں کے سانسوں کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں،جوتاریخِ اسلام کی پیشانی کا جھومر ہیں،سرزمینِ حجاز کی یہی ایک خصوصیت ہے اور تمام دیگر خصوصیات سے فزوں تر،اس کی جغرافیائی،سیاسی و معاشی اہمیت جوبھی ہو،مگر عالمِ اسلام کی نگاہ میں اس کی عظمت،قداست اور کرامت کی وجہ محمد بن عبداللہﷺ،آپ کا لایاہوا دین اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب ہے،حکیمِ امت علامہ اقبال نے اپنے دو مصرعوں میں اس کی اسی وجہِ امتیاز کی جانب اشارہ کیاہے:
نہیں وجود حدودوثغورسے اس کا
محمدِ عربیؐ سے ہے عالمِ عربی
یہی وجہ ہے کہ اس پر اسلامیانِ عالم کی نگاہیں ٹکی رہتی ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آج،جب کہ ساری دنیامیں اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف جوروتعدی کی بادِ سموم چل رہی ہے اورہر چہارجانب فراعنۂ وقت ان کی گھات میں لگے ہوئے ہیں،ایسے میں جانبِ حجاز سے آنے والی بادِ نسیم ہی ان کے زخموں کے لیے سامانِ مرہم ہوسکتی ہے۔
مگریہ کیا کہ امریکہ و اسرائیل کے کارخانۂ افواہ سازکے زیرِ اثراب مظلوم مسلمانوں کے بظاہر ایک آخری مرکزِ امید سے بھی بیزاری وتنفر کی سوغات آنے لگی؟ اسلامی ملکوں کے نام نہاد دانش وران،اہلِ فکر اور اربابِ صحافت میں اس وقت بڑے زوروشورسے’’سیاسی اسلام‘‘پر بحث و مباحثے کا بازارگرم ہے،وہاں کے اخبارات،میگزینوں اورمذاکرے کی مجلسوں میں اسلام میں سیاست کے تصورکویکسر مستردکیا جارہا،اس کے خلاف مضامین اور مقالات لکھے جارہے اور ایسے تمام افراد،جماعتوں اور جمعیتوں کوموردِ لعنت و ملامت بنانے کی وبا عام ہوتی جارہی ہے،جو سیاست کو اسلامیانے کا رجحان رکھتی ہیں،اس تصور کا منبع اسلام کی ازلی دشمن امریکی و اسرائیلی لابی نے تخلیق کیا ہے اور اب وہ اسے انتہائی مہیب اور خطرناک شکل میں پیش کرکے موجودہ اسلامی حکومتوں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ سیاسی اسلامی یا اسلامی سیاست ان کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور وہ جلد ازجلد اس پر قابو پانے کے جتن کریں؛شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے اسلامی قائدین اور تنظیموں پرقدغن لگانے کا وسیع تر عمل شروع کردیاگیاہے اورمصر نے جہاں اخوان کے بعد تحریکِ مزاحمتِ اسلامی (حماس) کی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی ہیں،وہیں اب اس کا دائرہ دیگر مرکزی اسلامی ملکوں تک دراز ہوتا جارہا ہے، انھیں یہ کون سمجھائے کہ وہ جس اسلامی سیاست سے خوف زدہ کی جارہی ہیں،وہ کوئی اور نہیں،وہی سیاست ہے،جوان کے محبوب نبیؐ نے کی تھی،بدروحنین کے سپہ سالاراورقیصر و کسریٰ کی سطوت وعظمت کو سرنگوں کردینے والے جیالوں نے کی تھی،ابوبکر صدیقؓ،عمرفاروقؓ،علی بن ابو طالبؓ،عثمانِ غنیؓ،خالد بن ولیدؓ،سعدبن ابی وقاصؓ،عمروبن العاصؓ نے کی تھی اور جس سیاست کی بدولت دنیا بھر میں ان کے دین،نبیؐ،کتاب اورمذہب کی حکمرانی برسوں نہیں،صدیوں تک قائم رہی تھی؟انھیں کون سمجھائے کہ وہ جس جمہوریت کے دامِ فریب کی شکار ہیں،وہ نہ صرف انھیں بے دین کردینے پر تلی ہے؛بلکہ انھیں آپس میں دست و گریباں کرکے ان کی سیاسی بساط بھی پلٹ دینے کی مسلسل سازش کیے جارہی ہے،انھیں حکیمِ مشرق کے اس نکتۂ واشگاف سے کون آگاہ کرائے کہ:
جلالِ پادشاہی ہوکہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
واقعہ یہ ہے کہ سعودی عرب اوراس کے حلیفوں کے اپنی بادشاہتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے حالیہ فیصلے نے ساری اسلامی دنیا کو شدید بے چینی اور کشمکش سے دوچار کردیاہے،اور تو اور خود اندرونِ حجازبھی موجودہ حکومت کے تئیں خلش اور بے چینی کی فضا سر ابھاررہی ہے،گوکہ وہاں کے ذرائعِ ابلاغ اوردیگر حساس اداروں اور مذہبی و سیاسی قائدین کو’’دستورِ زباں بندی‘‘کا پابندکردیاگیا ہے،مگراولاً مصر کی موجودہ باغی حکومت کی مالی و سیاسی معاونت اور اب باقاعدہ ایک خالص اسلامی تنظیم پرعالمی پیمانے پر شکنجہ کسنے کے سعودی حکومت کے اس فیصلے نے اسلام پسندوں کے احساسات و جذبات کو کچلنے کاکام کیا ہے اوریقیناً اس کے جونتائج جلد یا بدیرظاہر ہوں گے،وہ نہایت ہی تکلیف ثابت ہوں گے۔

«
»

ایشیا میں کروڑوں مسلمان مگر بغیر لیڈر شپ کے

مساوات کے لئے جنگ اور دلت مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے