آخری معرکہ

مصرکی باصلاحیت پولیس نے اس جرم میں ڈاکٹر سعد الکتاتنی جو مصر کی پہلی جمہوری اسمبلی کے منتخب سپیکرتھے اورانہیں ۳جولائی۲۰۱۳ء کو صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی انقلاب کے روز ہی گرفتارکرلیاگیاتھا،ان کوبھی اسی جرم میں سزائے موت سنادی گئی ہے اورحیرت تواس بات پر ہے کہ ان سزا یافتگان میں۵/افرادایسے بھی شامل ہیں جو گزشتہ ۳سال سے سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں، اور اس پورے عرصے میں مصر نہیں آئے،اس فہرست میں ایک ایسانوجوان انجینئربھی شامل ہے جوپچھلے ۱۶برس سے لندن برطانیہ میں کام کررہاہے اوروہ پہلی مرتبہ اپنے بیمارباپ کی عیادت کیلئے ۱۶ستمبرکو مصرپہنچا،اس کانام بھی ان ۵۲۹/افراد میں شامل ہے اورظلم کی حدہوگئی کہ ۳/ افرادوہ ہیں جو خود بھی ۱۴/اگست کو قاہرہ کے میدان رابعہ میں شہید ہوچکے ہیں گویااب انہیں اپنی ہی شہادت پر احتجاج کے جرم میں سزائے موت سنادی گئی ہے۔ ان۵۲۹دہشت گردوں میں ۱۷برس سے کم عمر کے دو بچے بھی شامل ہیں ،جنہیں مصری قانون کے مطابق سزائے موت دی ہی نہیں جاسکتی اوردنیاکی تاریخ میں ایک انوکھاواقعہ یہ بھی پیش آیا کہ ایک وکیل نے ملزمان کی طرف سے پیش ہونے کی اجازت نہ ملنے پر اعتراض کیا توجج نے ان کا نام بھی ملزمان کی فہرست میں شامل کر لیا،وکیل صاحب موقع پر ہی گرفتار کر لیے گئے اور سزائے موت پانے والے۵۲۸ملزم ۵۲۹ہوگئے!
اولادِ فراعین کایہ سپوت جج سعید یوسف صبری جس نے سیاہ کارنامہ سرانجام دیاہے، اس سے پہلے بھی اس نے گزشتہ برس ۱۴جنوری کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں ایک مصری شہری کو مارکیٹ سے کچھ پرانے کپڑے چرانے کے الزام میں ۳۰سال کی سزاسنائی تھی۔وکلاء نے کمرہ عدالت ہی میں جب پرزور احتجاج اور قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا تویہ فیصلہ کالعدم قرار پایااورموصوف نے چور کو ۳۰ سالہ کڑی سزا سنانے کے اپنے اس فیصلے کے اگلے ہی روز یعنی ۱۵جنوری ۲۰۱۳ء کو ان گیارہ پولیس افسران اور سپاہیوں کی مکمل برأت کا فیصلہ سنادیا جن پر ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو حسنی مبارک کے خلاف عوامی انقلاب تحریک کے دوران درجنوں شہریوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس صاحب بہادر جج نے اپنا ایک اور تاریخی فیصلہ گزشتہ برس ۷مئی کو سنایاتھا جب ایک خاتون سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں انہوں نے ملزم کو۱۵سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔حکومت ابھی اس نابغ روزگار جج کے خلاف کاروائی کر ہی رہی تھی کہ ۳۰جون کو خود ان کی حکومت کے خلاف السیسی نے اپنے شب خون حملے میں ان کومعزول کرکے پس دیوارزنداں بھیج دیا۔ 
دراصل یہ ساری کاروائی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں لائی گئی۔حال ہی میں مصرکے عبوری صدرعدلی منصورنے آنے والے صدارتی انتخابات سے متعلق قوانین میں ایسی ترامیم کی منظوری دی جس سے عام اورغریب آدمی کاانتخابات میں حصہ لینانہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا۔اب انتخابی کمیٹی صدارتی انتخاب کی تاریخ مقررکرے گی ،واضح رہے کہ کہ صدارتی انتخابات اپریل میں متوقع ہیں اورنئے قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات فیصلوں کوتحفظ دینے سے متعلق ہیں۔اس قانون کی منظوری سے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کوچیلنج کیاجاسکے گا۔نئے قانون کے مطابق صدارتی امیدوارکی عمرچالیس برس اوروہ منظورشدہ یونیورسٹی کاگریجوایٹ اورفوج میں ضروری خدمات سرانجام دے چکاہو۔اس کے والدین مصری شہری اوراسے پندرہ صوبوں سے اپنے حق میں کم ازکم ۲۹ہزارووٹرکے دستخط حاصل کرناہوں گے اورصدارتی مہم کیلئے ۲۸لاکھ ڈالر کی رقم اس کے پاس محفوظ ہونی چاہئے۔صدارتی الیکشن کیلئے رن آف کی صورت میں لازم ہوگاکہ صدارتی امیدوارسات لاکھ ڈالرمزیدرکھتاہو۔ 
۳جولائی ۲۰۱۳ء کوفوجی انقلاب برپاکرتے ہوئے السیسی نے حلفیہ اعلان کیاتھاکہ وہ صدارتی امیدوار نہیں بنیں گے لیکن یہ قانون منظورہوتے سیسی نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنا کہا چاٹتے ہوئے اپنے فوجی عہدے سے مستعفی ہوکرخود کوصدارتی امیدوارپیش کرنے میں ذرابھی دیرنہیں کی اوریہی نہیں سیسی نے انتخاب لڑنے کا اعلان کرتے ہی اپنی دونوں عہدوں کی ریوڑیاں اپنوں میں اس طرح بانٹیں کہ فوج کا سربراہ جنرل محمود حجازی اپنے سمدھی(بیٹے کے سسر)اوروزیر دفاع ایک ازکار رفتہ حاضر سروس جنرل صبحی کومقررکردیااور بڑی ہی عجلت میں ان دونوں نے فورا ہی حلف بھی اٹھا لیا ہے،اب سیسی کویہ خوف لاحق ہے کہ وہ اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل بھی کرپائے گاکہ نہیں۔
سیسی کے تازہ ترین تسلط کی پرواہ کئے بغیرمصرکے منتخب صدرڈاکٹرمحمدمرسی کے حامی اب تک تمام ترنامساعدحالات کے باوجودحکومت مخالف احتجاج کاسلسلہ حیرت انگیزطورپرپورے شدومدکے ساتھ جاری ہے۔ حکومت مخالف مظاہرین اورسیکورٹی فورسزمیں شدید جھڑپیں جاری ہیں جن میں نوافرادلقمہ اجل اوران گنت زخمی ہوگئے۔دارلحکومت قاہرہ کے علاوہ اسکندریہ العریش اوردیگرشہروں میں حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے ،مظاہرین ان عرب حکومتوں کے خلاف بھی نعرے بلندکررہے تھے جومصری(فوجی ڈکٹیٹر)حکومت کی حمائت کررہی ہیں ۔ سیکورٹی فورسزنے مظاہرین کومنتشرکرنے کیلئے بے تحاشہ آنسوگیس کی شیلنگ اوراندھادھندلاٹھی چارج کاآزادانہ استعمال کیاجس کے جواب میں مظاہرین نے قاہرہ میں کئی پولیس گاڑیوں کونذرِ آتش کردیا۔پولیس نے ۶۰ /افراد کو گرفتار کر لیاجن میں بیشترافراداس دن قاہرہ میں موجودبھی نہیں تھے۔اقوام متحدہ نے مصری سیکورٹی فورسزکی جانب سے مظاہرین کی ہلاکتوں اورگرفتاریوں پر گہری تشویش کااظہارکیاہے۔عالمی ادارے کی ہیومن رائٹس کونسل نے اپنے بیان میں مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایااورکہا’’مصری سیکورٹی فورسز مظاہرین پر طاقت کاوحشیانہ استعمال فی الفوربندکریں‘‘۔
اُدھریورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے اپنے مختلف بیانات میں مصرمیں استحکام پیداکرنے اورجمہوری راستے کواپنانے کی اہمیت پرزوردیاہے لیکن گزشتہ تین برس کے دوران مصری کابینہ میں چھ مرتبہ ردوبدل کیاگیا اورحال ہی میں بہت سے وزاراء کوبرخاست بھی کردیاگیا۔یہ تمام تبدیلیاں مصریوں کی بنیادی معاشی اورسیاسی امنگوں کی تکمیل کے ضمن میں ناکام ثابت ہوئیں ۔ وزیر اعظم ابراہیم مہلب کی نئی تشکیل شدہ کابینہ کے ذریعے سے یہ واضح اشارہ ملتاہے کہ ملک مستقبل میں مطلق العنانیت اوربدعنوانی کے ایک خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہاہے۔گزشتہ وزیراعظم کی برطرفی کومصرمیں فوجی بغاوت کے سربراہ ڈکٹیٹر السیسی کی طرف سے صدارتی امیدوارہونے کی حیثیت کے علاوہ حکومت کی کمزوری سے بھی جوڑاجارہاہے لیکن مؤخر الذکر دلیل خودکومنوانے کے قابل نہیں کیونکہ بعض دانشوروں کے خیال میں سابق وزیراعظم کی کابینہ کے دوتہائی وزاراء نے نئی کابینہ میں اپنی جگہ بنالی ہے۔اس کابینہ کی تشکیل کے باعث یہ توقعات پیداہوگئی ہیں کہ اب ملک میں ایک فسطائی نظامِ حکومت کاراستہ ہموارکرنے کیلئے بامعنی تبدیلیاں واقع ہونے کوہیں۔بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس موقع پرایک جوابی انقلاب بھی اپنی تیاری کررہاہے تاکہ ملک کوایک طویل ظالمانہ حکومت کے شکنجے میں کساجائے۔
موجودہ وزیراعظم حسنی مبارک کی کابینہ کے ایک سنیئررکن ہونے کے علاوہ حسنی مبارک کے بیٹے جمال کے قریبی رفیق تھے اوروہ بدعنوانی کے بہت سے معاملات میں ملوث تھے۔انہوں نے یہ اشارہ بھی دیاہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف ظالمانہ پالیسیاں جاری رہیں گی۔ایک اطلاع کے مطابق انسانی حقوق کے متعلق گزشتہ جولائی سے اب تک کم ازکم تین ہزارسے زائدافرادہلاک اورسولہ ہزارسے زائدزخمی اوربائیس ہزارسے زائدقیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جن میں درجنوں صحافی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت مصری فوج کے تحت قائم کی گئی حکومت کی طرف سے ان مظاہرین کے خلاف ظالمانہ اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن مظاہرے رکنے کانام نہیں لے رہے۔لاکھوں مصری ہرہفتے مصر کی گلیوں اورسڑکوں پرجمع ہوتے ہیں،نوخیزنوجوانوں کی طرف سے مظاہروں میں دن بدن شدت پیداہوتی جارہی ہے جن میں شریک مظاہرین جمہوریت کی بحالی کامطالبہ کر رہے ہیں ۔مقام افسوس ہے کہ پولیس مظاہرین کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں میں پہلے سے زیادہ آزاد ہے۔وسیع پیمانے پرگرفتاریاں کی جارہی ہیں،گرفتارشدگان کوشدیداذیتوں کانشانہ بنایا جارہاہے ،اس کے علاوہ خواتین مظاہرین کی آبروریزی بھی کی جارہی ہے لیکن حکومت کی طرف سے ان کاروائیوں کی جواب میں مصری عوام کی طرف سے تشددکاسلسلہ شروع ہونے کے بعد پولیس کی درجنوں گاڑیوں کوآگ لگانے کے علاوہ درجنوں پولیس حکام ہلاک کردیئے گئے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر السیسی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے سے مصرمیں استحکام آنے کی کوئی توقع نہیں۔ملک کی سلامتی میں دراڑیں پڑچکی ہیں ، معیشت دگرگوں ہوچکی ہے اورملک کاانفراسٹرکچر تباہ ہوچکاہے۔اس کے علاوہ ملک توانائی کے بحران سے بھی دوچارہوگیاہے اوراس وقت معلوم ہوتاہے کہ فوج کے نئے سربراہ کو ان تبدیلیوں اورسیاسی انتشار کاکوئی علم نہیں جوالسیسی کی پالیسیوں کانتیجہ ہے اوراب تواس افراتفری اورانتشارکوختم کرنے کیلئے کابینہ میں ردوبدل بھی کسی کام نہیں آ سکتا ۔کوئی نیاآمراگرالسیسی کی جگہ لے لیتاہے توپھربھی یہ بحران ختم ہونے کی بجائے مزید سنگین شکل اختیارکرجائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے باعث اکثر مصری ،فوج کی واپسی کوقبول نہیں کریں گے ۔ یہ بھی واضح ہے کہ سیاسی مخالفین کوجھکانے کیلئے موجودہ مصری حکومت کے اقدامات بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔
مصرمیں استحکام پیداکرنے اورجمہوریت کی بحالی کاکام اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتاجب تک فوج سیاست سے الگ نہیں ہوجاتی۔اس مقصدکے حصول کیلئے مصری حکومت کے اعلیٰ عہدوں سے ان تمام افرادکوالگ کردیناچاہئے جوفوجی پس منظرکے حامل ہیں۔چھ دہائیوں سے مصرکی بیشترسیاسی اورمعاشی زندگی فوج کے ہاتھ میں رہی ہے۔۲۷گورنروں میں سے ۱۹سابق فوجی جرنیل ہیں ۔ مزیدبرآں مصرکی ۵۵بڑی کاروباری کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو جن کے ہاتھ میں ملک کی ایک تہائی معیشت ہے،سابق جرنیل ہیں مزیدیہ کہ ملک میں ہونے والی تقسیم کاپاٹنابھی انتہائی ضروری ہے۔اس مقصدکاحصول اسی صورت میں ممکن ہوسکتاہے جب سیاسی جماعتوں اورتحریکوں کوآزادی سے کام کرنے دیاجائے ۔ یورپی یونین اوردیگرجمہوری اقوام کوچاہئے کہ مصرمیں جمہوری عمل کو بحال کرنے کیلئے آگے آئیں ،حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت اس وقت تک بحال نہیں ہوسکتی جب تک فوج کے خلاف عالمی برادری ٹھوس مؤقف کونہیں اپناتی۔
آئندہ صدارتی انتخابات کیلئے جنرل السیسی کیلئے راہ ہموارکردی گئی ہے مگردیکھنایہ ہے کہ مصرکے دستورپرجوریفرنڈم کروایاگیاہے اس کاکیانتیجہ برآمدہواہے ۔سیاسی خلیج بڑھ چکی ہے اورفوج کے جبراً مسلط ٹولے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہواہے۔دی اکانومسٹ کے ۲۵جنوری ۲۰۱۴ء کے شمارے میں اس ریفرنڈم کوانتشار،افتراق اوراضطراب میں اضافے کاموجب قراردیاگیاہے۔جریدہ میں لکھاہے:آئین پرہونے والے ریفرنڈم نے ملک میں مصالحت کی فضاکوپروان چڑھانے کی بجائے معاملات کومزیدخرابی سے دوچار کیاہے۔حالیہ ریفرنڈم میں کم وبیش ۳۸222مصریوں نے حصہ لیااورآئینی اصلاحات کے حق میں ۹۸222ووٹ آئے۔صدرمرسی کاتختہ الٹ کر اقتدارپرقابض ہونے والی فوج نے عدلیہ کی مددسے جس نظام کے خدوخال پیش کئے اسے مصریوں کی اکثریت کااعتمادحاصل ہواہے یاکم ازکم دعویٰ تویہی کیاگیاہے۔پولیس کے وزیرمحمدابراہیم نے نہائت فخریہ اندازسے اعلان (یادعویٰ) کیاکہ مصراپنے مالکوں کے ہاتھ میں واپس آگیاہے۔ 
گزشتہ ماہ کے ریفرنڈم کے اعدادوشمارکومصرمیں کم ہی لوگ درست مانتے ہیں۔مصرکی فوجی حکومت کوانتہائی متمول افرادکی بھرپورحمائت حاصل ہے۔مخالفین کوبرداشت کرنے کا کلچر نہیں۔ریفرنڈم میں اپوزیشن کے جن کارکنوں نے حکومت کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے کاارداہ کیا انہیں زنداں میں ڈال دیاگیا ۔۲۵جنوری کومصرمیں عوامی انقلاب کی تیسری سالگرہ منائی گئی ،اس انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی عوامی حکومت کاتختہ الٹ دیاگیا۔فوجی حکومت کواب تک وہ حمائت نہیں مل سکی جس کاوہ دعویٰ کرتی آئی ہے۔اخوان المسلمون کی طرف سے کسی بھی ممکنہ مزاحمت کوکچلنے کیلئے اس کے رہنماؤں اورہزاروں کارکنوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچایاجاچکاہے ۔خونیں تصادم میں ہزاروں کارکن جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔فوجی حکومت نے قدم قدم پراخوان المسلمون کودبوچنے کی کوشش کی ہے ۔انقلاب کی تیسری سالگرہ پر اخوان المسلمون نے ملک گیرمظاہروں کااعلان کیا غیراسلامی مزاحمت پسندبھی حکومت کے خلاف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ فوجی حکومت انقلاب کے تمام آدرشوں کے سراسرخلاف جارہی ہے ،وہ کوئی بھی ایسی حقیقی تبدیلی نہیں چاہتی جس کے ذریعے سے مصری معاشرے میں جمہوری اقدارفروغ پائیں۔حکومت نے پچھلی باربھی مزاحمت کوکچلنے کیلئے غیرمعمولی قوت استعمال کی تھی ،سینکڑوں مظاہرین ہلاک اورہزاروں زخمی ہوئے تھے ،ہزاروں ابھی تک جیلوں میں سڑرہے ہیں۔حکومت نے پولیس کووسیع تر اختیارات سے لیس کردیاہے گویاصاف لفظوں میں کہاجاچکاہے کہ اب اگرحکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے توزیادہ سختی کے ساتھ کچل دیئے جائیں گے۔پولیس کے وزیرمحمدابراہیم کہہ چکے ہیں کہ اگرمظاہرین کوکنٹرول کرنے کیلئے گولی چلاناپڑی توایساکرنے سے قطعی دریغ نہیں کیاجائے گا۔
اخوان المسلمون کے حق میں آوازاٹھانے والے میڈیاکوخاموش کیاجاچکاہے ۔غیرجانبدارآوازیں بھی اب الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیامیں سنائی دے رہی ہیں جومیڈیامیدان میں ہے وہ حکومت کی حاشیہ برداری میں مصروف ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ بٹورسکیں۔حکومت کے حمائت یافتہ سیاستدان مصطفیٰ باقری نے حال ہی میں امریکاکے ایسے ’’مبینہ‘‘ منصوبے کاانکشاف کیاجس کامقصد السیسی کی حکومت کاتختہ الٹناتھا۔ مصطفیٰ باقری نے ٹی وی پریہ بھی کہاکہ’’ اگرجنرل السیسی کوکچھ ہواتومصرکے عوام امریکیوں کوگھرگھر تلاش کرکے نکالیں گے اوران کے ٹکڑے ٹکرے کردیں گے‘‘۔
حکومت کی نظرمیں صرف اسلامی عناصر ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ بائیں بازوکی طرف جھکاؤ رکھنے والے وہ لوگ بھی ریاست کے مجرم ہیں جنہوں نے تین سال قبل عوامی انقلاب برپا کرنے میں مرکزی کرداراداکیاتھا۔مخالفین کی گرفتاریوں کاسلسلہ ابھی تک جاری ہے کیونکہ حکومت اپنے کسی بھی مضبوط مخالف کوکھلانہیں چھوڑناچاہتی۔حال ہی میں بہت سے نوجوانوں کومظاہرے کرنے،اجتماعات منعقدکرنے اورقومی پرچم جلانے کے الزام میں سزائیں سنائی گئیں ہیں۔بہت سے مخالفین کے سفرپربھی پابندی عائدکردی گئی ہے۔ان پر عدلیہ کی توہین کاالزام بھی عائدکیاگیاہے ااوران میں سے نصف تواخوان المسلمون کے لوگ ہیں باقی نصف میں سیکولر عناصرنمایاں ہیں جوحکومت کی پالیسیوں پرشدیدتنقیدکرتے رہے ہیں۔پارلیمان کے چندسابق ارکان کوبھی حراست میں لیا جا چکا ہے ،ان پرایسے جرائم میں ملوث ہونے کاالزام ہے جن کوسزامحض اس لئے نہیں دی جاسکی تھی کہ وہ اس وقت پارلیمان کے رکن تھے۔
مصرکی موجودہ سیاسی گھٹن اوربے پناہ ظلم وتشددکے نتیجے میںیوں محسوس ہورہاہے کوئی زیرِ زمین بہت بڑاخونی انقلاب جنم لینے ولاہے جوبالآخرمسلم امہ کی تقدیربدلنے کاپیش خیمہ بھی بن سکتاہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ دجال کے ساتھ آخری معرکہ اسی خطے میں رونماہونے کی پیشگوئی کوبھی توپوراہوناہے۔

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے