آخر نوجوان فطری خواہشات کی تکمیل کیلئے ویلنٹائن ڈے کے محتاج کیوں!!!

 

بقلم۔ ذوالقرنین احمد

ہر سال ۱۴ فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے کا رواج مغربی ممالک سے شروع ہوا جو اب ہمارے معاشرے میں داخل ہوچکا ہے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں مختلف یوم کو منانے کا جذبہ اس قدر عروج پا رہا ہے جیسے ماضی میں عید کا انتظار بڑی بے چینی سے بچے کیا کرتے تھے۔ آج اس مادہ پرستی جدت پسندی کی دور میں انسان مذہبی تعلیمات، اخلاقی، تہذیبی اقدار کو پیروں تلے روندتے ہوئے مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ایک تو ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم و تربیت کا پہلوں ختم ہوتا جارہا ہے والدین صرف اچھی اسکول میں تعلیم دلوانے اچھی ڈگری اور نوکری کے حصول کیلئے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ جسکا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے۔ اور اسی وجہ سے بچوں کے اخلاق و کردار عادات و اطوار کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے جو کچھ وہ سیکھتا ہے صرف کونوینٹ اسکول میں سیکھتا ہے۔جہان اسے مذہبی عقائد اور تعلیمات کے برخلاف صرف عصری، فنی تعلیم ملتی ہےجس کا تعلق صرف دنیا سے ہیں۔

انسانیت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام بنایا ہے جو قدرت کا قانون فطرت ہے اسکے خلاف اگر انسان زندگی گزارتا ہے تو وہ صرف ایک معاشرتی حیوان کہلاتا ہے۔ جو انسانوں کے ساتھ تو رہتا ہے لیکن فطرت کےخلاف ورزی کرنے کی وجہ سے وہ انسانیت کے درجے سے گر جاتا ہے۔ مغربی تہذیب کی چمک دمک نے انسان کی عقل و ہوش کو متاثر کرکے اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ اور اسی نتیجے میں معاشرے میں جو وقتی طور پر لذت و خواہشات کی تکمیل کیلئے مختلف یوم منانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ انسانی اقدار کو پامال کر رھا ہے۔جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ فروری کے مہینے میں روز ڈےسے لےکر ویلنٹائن ڈے تک اتنے بے حیائی کے افعال نوجوان انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ان نوجوان لڑکیوں کا ہوتا ہے جو عشق و معاشقے کے جھوٹے دعوے کے تحت اپنی عفت و پاکدامنی اور زندگی کو برباد کردیتی ہیں۔ لڑکپن کی عمر میں جو تعلقات اسکول کالج یونیورسٹی میں دوستی و پیار کے نام پر قائم کیے جاتے ہیں وہ بڑی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ آزادی نسواں کے نام پر جو تحریکیں تنظیمیں کام کرتی ہے ان کے پاس معاشرے کے اقدار کے تحفظ کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے لیکن انکے پاس معاشرے کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کے تمام طریقے موجود ہیں۔
ہر جگہ پر کہی نہ کہی گلی محلے بستی شہر میں روزانہ یہ خبریں سوشل میڈیا وغیرہ پر موصول ہوتی رہتی ہے کہ فلاح لڑکی کا چکر فلاح لڑکے کے ساتھ تھا لیکن اس نے دھوکہ دے کر فرار ہوگیا ، فلاح مسلم لڑکی کالج کے ہندو لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی ہے اور شادی کرلی۔ ایسی سیکڑوں خبریں موصول ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس اسکی وجوہات جاننے اور سدباب کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہیں۔ ان تمام معاشرتی اخلاقی پستی بدکرداری، بد اعمالیوں کے پیچھے تربیت اہم چیز ہے کہ ہمارے بچوں کو ہم کیسی تربیت دے رہے ہیں۔ کیا ہم نے بچپن میں اپنے بچوں کی تربیت اللہ اسکے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق کی ہے۔ یاپھر مغربی تہذیب کے فلمی دنیا کے ننگے ایکٹرس کو رول ماڈل بناکر انکی تربیت کی ہے۔ آپ کو ویسا ہی معاشرہ ملےگا جیسی تربیت آپ اپنے بچوں کی کریں گے اگر آپ اپنے بچے کو بچپن میں تعلیم دیتے ہیں کہ بدنگاہی بڑا گناہ ہے، زنا کے قریب بھی مت جاؤ یہ بڑی تباہی کا سبب ہے، انہیں یہ بتاتے کہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے جیسا تم کسی کے ساتھ کروگے ویسا ہی تمہارے ساتھ اور تمہاری آنے والی نسلوں کے ساتھ دنیا میں ہوگا۔اگر انکے دلوں میں اللہ اسکے رسول ﷺ کی محبت پیدا کرتے اور اللہ کا ڈر تقوی اختیار کرنے کا سبق دیتے ، لڑکیوں کو بچپن میں شرم و حیا، عفت و پاکدامنی کا سبق پڑھاتے حدیث میں ہے کہ حیا ایمان کی اہم شاخ ہے، جس کے اندر حیا نہیں پھر وہ جو چاہے کریں۔ یہ تمام باتیں بچپن میں تعلیم دی جاتی تو ایک ایسا نیک صالح معاشرہ قائم ہوسکتا ہےجو تمام بدعنوانیوں، بداخلاقیوں، بے حیائیوں ، بے ایمانیوں، نا انصافیوں ننگے پن، سے پاک ہو۔

ذرا سوچئے کہ معاشرے کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو آخر مختلف قسم کے غیر ازدواجی تعلقات قائم کرکے چھپکے چھپکے یا کھلے عام بےحیائی کے دن منانے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ مغربی تہذیب ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے لیکن ہمارے پاس ہمارا مذہب سب سے مقدم ہے ہماری تہذیب و ثقافت ہمارے پاس موجود ہونے کے باوجود ان تمام بے حیائی کے دنوں کو منانے کی وجہ کیا ہے۔ ہمارا صرف وقتی طور پر ویلنٹائن ڈے آنے پر ٹوک دینا، دو چار پوسٹ کردینا کافی نہیں ہے ناہی کوئی اور دنوں کو منانے سے روک دینے سے یہ سلسلہ نہیں تھمنے والا ہے۔ کسی نے کہاں ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ملی تنظیموں اور فلاحی تنظیموں تحریکوں کو یہ بات پر کھل کر بحث کرنی چاہیے کہ آخر یہ دن منانے کی نوبت کیوں پیش آئی ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلتی برہنگی، بے حیائی، فیشن کے نام پر لباس کو دن بہ دن تنگ کردینا، شادیوں میں رقص و سرور کی محفلیں، فوٹو سیشن، اسکولوں کالجوں میں ثقافتی پروگراموں کے نام پر ننگا ناچ اور نوجوانوں کے جنسی جذبات کو بھڑکانے والی سرگرمیاں، ٹی وی، موبائل میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر جنسی جذبات کو بھڑکانے والا مواد، مخلوط تعلیمی نظام، سرکاری پرائیویٹ سیکٹر میں مرد و خواتین کا مل کر کام کرنا ، ہر چھوٹے بڑے اداروں میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے۔ بڑی پوسٹ پر پہنچنے کیلئے اب تو مختلف ڈیمانڈ کو پورا کیا جاتا ہے۔

یہ تمام مسائل کے سد باب کیلئے مستقل طور پر محنت کرنی ضروری ہے اور اسکا متبادل تلاش کرکے راستے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ پھر یہ لبرل ،سیکولر فیمنسٹ افراد اسلام کو تنگ نظر قید والا مذہب کہنا شروع کردیتے ہیں۔ نوجوانوں کا فطری خواہشات کی تکمیل کیلئے ویلنٹائن ڈے کا محتاج ہونا یہ ثابت کرتا ہےکہ کہی نہ کہی والدین یا معاشرتی خود ساختہ معیارات اصول، ان کیلئے ڈھال بنے ہوتے ہیں۔ فطری خواہشات کی تکمیل ہونا ضروری ہے اگر حلال طریقے پر نہیں ہوگی تو حرام طریقے سے معاشرے کی نگاہ سے چھپ کر ضرور ہوگی۔ کیونکہ جوانی بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتی ہے۔ نفس پر قابو پانا آج کے معاشرے میں بڑے دل گردے کا کام ہے۔ لیکن جن کی تربیت صحیح اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو وہ لوگ غلط قدم اٹھانے سے پہلے اپنےآپ کو ضمیر کی عدالت میں پیش کرتے ہیں اللہ کا خوف انکے دلوں میں ہوتا ہے مکافات عمل انکے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے معاشرے کے خود ساختہ رشتوں، شادیوں کے  اصولوں اور معیارات کو اپنے پیروں تلے کچل دیا جائے اور ان نوجوانوں کی فطری خواہشات کی تکمیل کیلئے راہے ہموار کی جائے ۔ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی پسند گا اظہار کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے کیونکہ زندگی ان دونوں کی گزارنے ہوتی ہے جھوٹی شان و شوکت انا اور رشتے داری، برادری، ذات کے چکر میں انکی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنا بڑا ظلم ہے۔ اگر دونوں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور کھانے کمانے والا گھر ہوتو اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ رشتہ کردیا جائے اور فوراً شادی کردی جائے۔ ورنہ پھر اسکے نتائج ویلنٹائن ڈے پر سامنے آتے ہیں۔ جو حرام راستے اختیار کرکے اپنی زندگیاں تباہ کردیتے ہیں جس کی وجہ سے صرف ایک لڑکا لڑکی نہیں بلکہ پورا خاندان برداریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور عزت و آبرو نیلام ہوجاتی ہے۔ بچپن سے بچوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت اور  نوجوانوں کے بلوغت کو پہنچنے پر فورا نکاح کردینا چاہیے ان تمام بے حیائیوں کو روکنے کا یہ ایک اہم راستہ ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

07فروری2021

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے