آخر کون برباد کر رہا ہے مودی کے مخالفین کا سیاسی کریئر؟

وزیر اعظم نریندرمودی خود کو خوش قسمت قرار دیتے ہیں اور اپنے مخالفین کو بدقسمت! اب اسے ان کی خوش قسمتی کہا جائے یا ان کے مخالفین کی بدقسمتی کہ اب تک جو لوگ بھی ان کے خلاف گئے ہیں وہ کسی نہ کسی سبب کنارے لگ گئے ہیں۔ گجرات سے لے کر دلی تک ان کے لئے خطرہ بننے والے کسی نہ کسی سبب حاشئے پر چلے گئے اور مودی کا راستہ صاف ہوگیا۔ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ یہ مودی کی حکمت علمی کا حصہ ہے یا محض اتفاق کہ جہاں گجرات میں ان کے لئے خطرہ بننے والے آرایس ایس کے سنجے جوشی کا کریئر ختم ہوگیا، ہرین پانڈیا کا قتل ہوگیا، وہیں وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے بی جے پی کے بانی لیڈر اور مودی کے محسن لعل کرشن اڈوانی کا بوریہ بستر بندھ گیا اور ان کا خواب ہمیشہ کے لئے چکناچور ہوگیا۔کیا یہ بھی اتفاق ہے کی اس وقت بی جے پی کے اندر جو لوگ بھی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں ،وہ سب کہیں نہ کہیں مودی کے لئے خطرہ تھے اور ان کا اپنا وجود ہے۔ وہ اپنی زمین رکھتے ہیں اور مودی کے حامیوں میں نہیں گنے جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان، راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا اور وزیر خارجہ سشما سوراج کا سیاست میں مقام ہے اور اپنے بل بوتے پر وہ سیاست میں ہیں۔ مودی کے مرکز کی سیاست میں آنے سے قبل ان لوگوں کے نام بھی وزیر اعظم کی دوڑ میں
شامل تھے مگر آج یہ سبھی لوگ کسی نہ کسی اسکیم میں گھرے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم کی کرسی تو چھوڑیئے اپنی وزارت کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور ان کاسیاسی مستقبل غیر یقینی حالات سے دوچار ہے۔آج سیاسی حلقوں میں پوچھا جارہا ہے کہ مودی کے مخالفین ایک ایک کر کنارے کیوں لگ رہے ہیں؟ اس کے پیچھے کے اسباب کیا ہیں؟ کیا یہ سب مودی کی خوش قسمتی سے ہورہا ہے؟ حالانکہ کانگریس کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ انگلینڈ میں بیٹھا چھوٹا مودی اپنے آقا بڑے مودی کی مدد کر رہاہے۔کانگریس بار بار کہہ رہی ہے وزیر اعظم کچھ بولیں اور منہ کھولیں مگر نریندر مودی چپی سادھے ہوئے ہیں۔ 
سشما سوراج کی کرسی خطرے میں
اسے محض اتفاق کہا جائے یا ایک سوچی سمجھی اسکیم کہ للت مودی کے ساتھ وزیرخراجہ سشما سوراج کا نام جڑا۔ میڈیا میں خبر آئی کہ سابق آئی پی ایل کمشنر اور مالی خردبرد کے ملزم للت مودی کی بیوی کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے میں سشما سوراج نے مدد دی تھی۔ جیسے ہی میڈیا تک یہ خبر پہنچی بریکنگ نیوز کی صورت میں اسے لیا گیا اور سشما سے سوال پوچھے جانے لگے۔ کانگریس کو بی جے پی کے دیش پریم پر سوال اٹھانے کا موقع مل گیا اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی انھیں نشانہ بنانے لگیں۔سرکار کے خلاف کانگریس کے پاس پہلے ہی سے لینڈ اکویزیشن بل کی صورت میں ایک بڑا ہتھیار موجود تھا مگر جب سشما کانام آیا تو ان کا استعفیٰ مانگا جانے لگا اور دھمکی دی گئی کہ جب تک وزیر خارجہ استعفیٰ نہیں دینگی تب تک پارلیمنٹ کا مانسون سشن نہیں چلنے دیا جائے گا جو اسی مہینے میں شروع ہونے والا ہے۔ حالانکہ سشما کی طرف سے کہا گیاکہ للت مودی کی بیوی چونکہ کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا تھیں لہٰذا انھوں نے انسانیت کی بنیاد پر انھیں علاج کے لئے بیرون ملک جانے میں مدد کی تھی۔باوجود اس کے کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے بار بار وزیر خارجہ کا استعفیٰ مانگا جارہا ہے۔ حالانکہ اس بیچ یہ بھی خبر آئی کہ سشما سوراج کے شوہر کے بھی للت مودی سے قریبی تعلقات رہے ہیں اور للت مودی نے اپنی کمپنی میں ڈائرکٹر کے عہدے کی پیشکش کی تھی۔اس قسم کی خبروں اور تنازعات نے سشما کے سیاسی کریئر پو سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حالانکہ پارٹی کے اندر انکی اپنی اہمیت ہے اور وہ وزیر اعظم کے عہدے کی امیدوار سمجھی جاتی تھیں۔لوک سبھا الیکشن کے دوران پرچار میں انھوں نے مودی کی تعریف سے بچنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور جیت کے بعد بھی انھوں نے اس کا کریڈٹ مودی کو نہیں دیا تھا بلکہ پوری پارٹی اور اس کے ورکروں کو دیا تھا۔ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر رہ چکی ہیں اور اس حیثیت سے انھوں نے اپنی چھاپ چھوڑی تھی لہٰذا فطری طور پر وہ بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کی کرسی کے لئے امیدوار ہوسکتی تھیں۔ا ن سے نریندر مودی کو خطرہ تھا مگر آج وہ ایک ایسے تنازعے میں پھنس چکی ہیں جہاں سے باہر آنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ اب وزیر اعظم تو چھوڑیئے وہ وزیر خارجہ بھی بنی رہیں گی یا نہیں ؟ یہ سوال اہمیت کا حامل ہوتا جارہاہے۔حالانکہ وہ اس بات سے بھی پریشان تھیں کہ وزیر خارجہ ہونے کے باوجود مودی ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑتے ہیں اور ان کی وزارت کے تمام کام خود کر رہے ہیں۔ غیرملکی دورے بھی سشما کے بجائے مودی کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ صرف دستخط کرنے تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ سشما سوراج کے للت مودی سے تعلقات کے جال میں پھنسنے سے مودی کو بڑی راحت مل گئی ہے۔ اب یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ وزیرخارجہ خود بخود اس جال میں پھنس گئی ہیں یا انھیں سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے؟

کیا زہر پئیں گے شیو؟
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو نریندر مودی کے لئے ایک خطرہ مانا جاتا رہا ہے۔ جب مودی کا نام وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر ان کے حامیوں کی طرف سے اچھالا گیا اور یہ دلیل دی گئی کہ وہ دس سال وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں تب دوسرے خیمے نے شیوراج سنگھ چوہان کا نام آگے بڑھایا کیونکہ وہ بھی دس سال وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے۔ مودی کے مقابلے ان کا نام زیادہ وزنی بھی تھا کیونکہ مودی کے دور میں گجرات میں خونی فسادات ہوئے تھے اور ہزاروں افراد کی جانیں گئی تھیں مگر شیوراج کے عہد میں ایسا کوئی فساد نہیں ہوا۔ مودی ہرطبقے کے لئے پسندیدہ نہیں تھے کیونکہ ان کی تصویر ہندو ہردے سمراٹ کی تھی مگر شیو راج کی تصویر ایک اعتدال پسند لیڈر کی تھی اور وہ کسی بھی طبقے سے میل جول کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے۔وہ جس طرح ہولی اور دیوالی میں ہندووں سے ملتے تھے اسی طرح رمضان اور عید میں ٹوپی پہن کر مسلمانون کے بیچ بھی جاتے تھے۔انھوں نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اپنی ریاست میں مودی کی تصویروں اور ان سے جڑے ہوئے نعروں کا زیادہ استعمال نہیں کیا۔ ایسے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان کا دل مودی کی طرف سے صاف نہیں تھا اور وہ خود کو وزیر اعظم کی کرسی کا دعویدار سمجھتے تھے مگر آج ان کی سرکار ’’ویاپم‘‘ کے دلدل میں اس طرح دھنستی جارہی ہے کہ اس سے باہر آنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔اس اسکینڈل سے جڑے ہوئے لوگوں کی ایک ایک کر موتیں ہوتی جارہی ہیں اور ہر موت کے ساتھ ان کی سرکار سوالوں کے گھیروں میں آتی جارہی ہے۔ اب اگر کوئی یہ سوال پوچھتا ہے کہ ایک اور مودی مخالف حاشیئے پر کیوں جارہا ہے، اور اس کی کرسی ڈانواڈول کیوں نظر آرہی ہے ؟ تواسے ہم بے جا نہیں کہہ سکتے۔
وسندھرا کا کریئر داؤ پر
راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا ،اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ اپنی ریاست میں بھی ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ یہاں ان کے نام پر بھی ووٹ ملتے ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس وقت راجستھان میں بی جے پی کے جتنے ایم ایل اے ہیں وہ ان پر جان چھڑکتے ہیں مگر آج وہ للت مودی سے تعلقات کے سبب خطروں سے گھری ہوئی ہیں۔یہ سچائی ہے کہ ان کے للت مودی سے قریبی تعلقات ہیں اور دونوں کے کاروباری رشتے بھی ہیں۔ جب وہ وزیر اعلیٰ بنی تھیں تو للت مودی سرکار کے کام کاج میں اس قدر دخل دیتے تھے کہ انھیں ’سپر سی ایم ‘‘ کہا جاتا تھا۔ آج یہی رشتے وسندھرا کی کرسی کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی نئی بات کا خلاصہ ہورہا ہے وسندھرامزید گھر جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں پریشان کرنے والی نئی نئی باتیں کانگریس اور میڈیا کی طرف سے کم آرہی ہیں اور للت مودی کی طرف سے زیادہ آرہی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ کانگریس کہہ رہی ہے کہ چھوٹا مودی، بڑے مودی کی مدد کر رہا ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ کانگریس کے الزامات میں کس قدر سچائی ہے مگر ایک بات پورا ملک محسوس کر رہا ہے کہ وسندھرا کے پھنسنے سے نریندرمودی کے راستے کا ایک اور کانٹا دور ہوجائے گا۔
مودی کا دبدبہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی
وسندھرا راجے سندھیا، سشما سوراج اور شیو راج چوہان کے سیاسی خاتمے سے نریندر مودی اپنی پارٹی کے اندر مزید طاقت
ور ہوکر ابھریں گے۔ انھوں نے پہلے ہی سے اپنے قریبی امت شاہ کو جیل سے نکال کر پارٹی کا صدر بنا رکھاہے اورپارٹی کے اہم عہدوں پر اپنے قریبی لوگوں کو بٹھا رکھا ہے مگر اب اگر سشما کا سیاسی کریئر ختم ہوا تو وہ وزیر خارجہ اپنے کسی پسندیدہ شخص کو بنا سکتے ہیں۔ یونہی مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی پارٹی اور سرکار میں ان کا دبدبہ قائم ہوجائے گا اگر وسندھرا اور شیوراج کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ ویسے اگر ان لوگوں کی کرسی بچ جاتی ہے تب بھی ہلتی ڈولتی رہے گی اور یہ بات مودی کے حق میں ہوگی۔
سرخانے میں چلے گئے مودی کو چیلنج کرنے والے
نریندر مودی پہلے ہی سے پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں کو کنارے لگا چکے ہیں۔ لعل کرشن اڈوانی کبھی بی جے پی کا چہرہ ہوا کرتے تھے اور یہ انھیں کا کارنامہ تھا کہ انھوں نے پارٹی کو دو سیٹوں سے بڑھا کر مرکز میں اقتدار تک پہنچایا تھا مگر مودی کی حکمت عملی کی داد دینی چاہئے کہ انھوں نے انتہائی شاطرانہ طریقے سے اڈوانی کو سائڈ لائن پر ڈال دیا۔ آج ان کی حیثیت اس عمررفتہ بڑھیا کی ہوگئی ہے جو جواں سال لڑکیوں کو دیکھ دیکھ کر کڑھتی رہتی ہے اور بار بار انھیں ٹوکتی رہتی ہے۔ اڈوانی آئے دن ایسی باتیں کہتے رہتے ہیں جس سے مودی سرکار کی کرکری ہوجائے مگر اب ان کے ہاتھ میں کچھ کرنے لئے باقی نہیں بچا ہے۔ وہ صدر جمہوریہ بننے کا خواب دیکھنے لگے تھے مگر ایسا لگتا نہیں کہ مودی انھیں بننے دیں گے۔ حالانکہ میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کے بعد اٹل بہاری واجپائی، مودی کو ہٹانا چاہتے تھے مگر اڈوانی ہی ان کی ڈھال بن کر سامنے آگئے تھے۔ بی جے پی میں حاشیئے پر جانے والوں میں صرف اڈوانی ہی نہیں ہیں بلکہ مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، کلراج مشرا،لال جی ٹنڈن جیسے لوگ بھی ہیں جن میں سے بعض لوگوں کو گورنر بناکر سردخانے میں ڈالا گیا تو بعض کے معاملے میں اس کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ آ ج بی جے پی کے اوپر مودی کا قبضہ ہوتا جارہا ہے اور ان کے لئے چیلنج بننے والے رفتہ رفتہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اطلاعات تو یہاں تک ہیں کہ مودی چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس کا اگلا سربراہ ان کی مرضی کا بنایاجائے۔ اگر ایسا ہوا تو بی جے پی ہی نہیں بلکہ آرایس ایس بھی مودی کی مٹھی میں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب محض اتفاق سے ہورہا ہے یا مودی کی خوش قسمتی کرا رہی ہے؟ یا پھر کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے۔

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے