آخرہندوستانی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟

یہاں نہ بجلی اور پانی کا مناسب انتظام ہے اور نہ اسکول وہیلتھ سنٹر ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان پاش کالونیوں میں پیسہ خرچ کرکے بھی مکان یا فلیٹ نہیں حاصل کرپاتے ہیں۔ ممبئی کی ایک ماڈل نے حال ہی میں الزام لگایا ہے کہ اسے صرف اس لئے کرایے کے

فلیٹ سے نکال دیا گیا کہ وہ مسلمان ہے مگر یہ بات صرف ممبئی یا مہاراشٹر تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی کم وبیش یکساں صورت حال ہے۔ راجدھانی دہلی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں بھی مسلمان کرایہ دار کو مالک مکان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔کلکتہ جسے سیکولرزم اور قومی یکجہتی کا گڑھ کہاجاتا ہے وہان بھی مسلمانوں کے الگ علاقے آباد ہیں اور ہندو بستیوں میں ان کے لئے جگہ نہیں ہے۔ لکھنوی تہذیب کا شہر خواہ دنیا بھر میں رہا ہو مگر آج کل اس کی شناخت مذہب کے نام پر بھید بھاؤ سے ہونے لگی ہے۔ گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں اور مسلمانوں ۔ہندووں کے بیچ کھائی بنتی گئی ہے مگر ۲۰۰۲ کے دنگوں کے بعد نفرت کے جذبات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ احمدآباد اور سورت ہی نہیں بلکہ ریاست کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی مسلمانوں کے لئے رہائشی مکانات کے دروازے بند ہیں۔ یہ صورت حال گجرات سے لے کر نارتھ ایسٹ کی ریاست آسام تک ہے اور ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ان کھائیوں کو بھرنے کے بجائے مزید گہرا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
مصباح ایک مثال 
ابھی چند دن کی بات ہے کہ ممبئی میں رہنے والی گجرات کی ماڈل مصباح قادری نے الزام لگایا ہے کہ اسے ممبئی کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے فلیٹ سے مسلم ہونے کی وجہ سے نکال دیا۔ قادری نے قومی اقلیتی کمیشن سے اس کی شکایت کی ہے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں گجرات کے ہی ایک ایم بی اے گریجویٹ نے ہیرا کمپنی پر مسلم ہونے کی وجہ سے ملازمت نہیں دینے کا الزام لگایا تھاجس کی جانچ اقلیتی کمیشن کر رہا ہے۔
25 سال کی مصباح کا کہنا ہے کہ ، گزشتہ دنوں میں وڈالا ایسٹ میں ایک پلیٹ میں رہنے گئی۔ جب وہاں کی سوسائٹی کو پتہ چلا کہ میں مسلم ہوں تو مجھے ایک ہفتے کے اندر ہی نکال دیا گیا۔اس کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے لوئر پریل میں پی جی لیتے وقت بروکر نے کہا تھا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو آپ مسلم کپڑے نہ پہنیں اور اپنی شناخت نہ اجاگر کریں۔
جس سنگھوی ہاؤسنگ سوسائٹی پر الزام لگا ہے، اس کے سپروائزر راجیش نے کہا، کہ فلیٹ سے نکالے جانے کی وجہ بروکر اور ٹینیٹ کے درمیان تنازعہ ہے۔ بلڈنگ میں مسلمانوں کو رہنے دیا جاتا ہے، بہت سے خاندان رہتے ہیں۔اس تنازعہ سے سوسائٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ادھر، وشو ہندو پریشد کے ترجمان سریندر جین نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ کوئی ہندو کسی کو مسلم ہونے کی وجہ سے فلیٹ نہیں دیگا۔ کچھ لوگ اور تنظیمیں مسلم سماج کے اندر خوف کا ماحول بنا کر اپنی دکان چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
حالانکہ مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے رکن گلزار اعظمی نے اس تنازعے کے لئے ہندو تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، اس سے پہلے ممبئی میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ جب سے نئی حکومت بنی ہے اور ہندو تنظیمیں فعال ہوئی ہیں، تب سے ایسا ہو رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ مسلمان امن و چین سے رہ سکیں۔خاتون میرے دفتر میں آ کر ملے تو میں کوشش کروں گا کہ اس مسئلہ کا حل نکلے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اسے انصاف ملے۔دوسری طرف مسلم لڑکی کو ممبئی میں فلیٹ سے نکالے جانے پر کانگریس کے حامی شہزاد پوناوالا نے کارروائی کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، مذہب ،ذات کے نام پر لوگوں کو گھر یا کام دینے سے انکار کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی
چاہئے۔ ایسے امتیازی سلوک کو روکنے کے لئے حکومت کو قانون بنانا چاہئے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج ہونا چاہئے ۔
ممبئی کے لئے یہ عام بات ہے
چند سال قبل فلم اداکار عمران ہاشمی نے بھی الزام لگایا تھا کہ انھیں مسلمان ہونے کے سبب ممبئی میں گھر نہیں ملا۔عمران باندرہ کی نبانا کوآپریٹیو سوسائٹی میں ایک فلیٹ لینے کے خواہشمند تھے جس کے لیے فلیٹ کا مالک انہیں فلیٹ دینے کے لیے تیار تھا اور عمران ایجنٹ کو ایک لاکھ روپیہ بطور پیشگی بھی دے چکے تھے لیکن سوسائٹی نے فلیٹ خریدنے کے لیے عمران کو این او سی دینے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ عمران بالی وڈ کے پہلے شخص نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے بھی کئی فنکاروں نے الزام لگائے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے ممبئی میں انہیں گھر ملنے میں دقت ہوئی۔بالی وڈ کی جانی مانی آرٹسٹ شبانہ اعظمی نے ایسے ہی الزام لگائے تھے۔ شبانہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ممبئی کی ایک سوسائٹی میں فلیٹ خریدنے کی کوشش کی، لیکن انہیں گھر نہیں ملا۔ بالی ووڈ کے سپر اسٹار سیف علی خان بھی ایسی مشکلات سے دو چار ہو چکے ہیں۔سیف کے مطابق وہ ممبئی میں اپنی پسند کا گھر نہیں خرید سکے اس لئے انہیں مجبوری میں ایک مسلم بلڈر سے فلیٹ خریدنا پڑا۔ سیف نے کہا تھا کہ کئی سوسائٹی میں مسلمانوں کو فلیٹ نہیں دیے جاتے، اس جدوجہد سے بچنے کے لئے ہی وہ براہ راست مسلم بلڈر کے پاس گئے۔ہم یہاں یہ یاد دلاتے چلیں کہ۱۹۷۰ء کی دہائی کی مشہور اداکارہ زینت امان نے بھی الزام لگایا تھا کہ وہ ممبئی میں تین ماہ تک فلیٹ کے لئے دوڑتی بھاگتی رہیں لیکن ہر جگہ انہیں انکار ہی ملا۔ ایسا ہی اداکارہ ممتاز کے ساتھ ہوچکا ہے جنھیں فلیٹ دینے سے انکار کردیا گیا اور ان کے ہند شوہر کو فلیٹ دے دیا گیا۔اسی طرح آر جے صوفی چودھری کے مطابق انہیں بھی مذہب کی وجہ سے گھر نہیں بیچا گیا۔صوفی نے بتایا کہ جب تک انہیں اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ میں مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، تب تک سب کچھ ٹھیک تھالیکن یہ بات ظاہر ہوتے ہی انہوں نے مجھے گھر دینے سے انکار کر دیا۔ان الزامات کو دیکھتے ہوئے یہ صاف ہے کہ مصباح قادری کو مسلمان ہونے کے سبب گھر نہ ملا ہو۔
ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں ایک بار دو کمروں کے فلیٹ کی فروخت کے لئے دئے گئے اشتہار پر تنازعہ اٹھ چکا ہے۔ ایک ویب سائٹ پر دئے گئے اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ ’’ فلیٹ خریدنے کے لئے کوئی مسلم رابطہ نہ کرے۔‘‘حالانکہ بعد میں،ویب سائٹ کی جانب سے دی گئی صفائی میں کہا گیاتھا کہ مستقبل میں اس قسم کا اشتہار ویب سائٹ پر نہیں ڈالا جا ئے گا۔کئی سوسائیٹیاں براہ راست مسلمانوں کو مکان دینے سے انکار کرنے کی جگہ کہتی ہیں کہ وہ چونکہ گوشت مچھلی کھاتے ہیں اس لیے انہیں مکان نہیں دیا جائیگا۔
گجرات کے مسلم گھیٹو
مسلمانوں کے ساتھ رہائش کا مسئلہ صرف ممبئی یا مہاراشٹر میں نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں ہے۔ گجرات کے بھاؤ نگر علاقے میں ایک خوشحال مسلمان علی اصغر زاویری نے مکان خرید لیا تو وشوہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا نے یہاں آکر تحریک شروع کردی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندو علاقے میں مسلمان مکان نہیں خرید سکتا۔ اس قسم کی مثالیں گجرات میں عام ہیں اور مسلمانوں کو یہاں ہندو اکثریتی محلے میں
مکان نہیں ملتا۔ نتیجہ کے طور پر وہ ضحیٰ پورہ جیسے گھیٹو میں رہنے کو مجبور ہیں جہاں ۲۰۰۲ء کے فسادات کے بعد آبادی دوگنی ہوچکی ہے مگر سہولیات زندگی کم ہوگئی ہیں۔
یہ مسلمان کی مجبوری ہے
مسلمانون کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ مسلم علاقوں میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں ممکن ہے اس میں تھوری سی سچائی بھی ہو مگر اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اس سے باہر نکلنا چاہتے ہیں انھیں ہندو اکثریتی علاقوں میں گھر بھی نہیں ملتا۔ حالانکہ مسلم علاقے آزادی کے بعد پروان چڑھے ہیں جس کے لئے فرقہ وارانہ فسادات ذمہ دار ہیں۔ مرادآباد اور میرٹھ کی مثال سامنے ہے جہاں مسلمان اپنے خول سے باہر آنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اسی دوران یہاں فسادات کرا دیئے گئے اور ان کو نہ صرف مالی نقصان پہنچایا گیا بلکہ ان کے اندر جان ومال کے عدم تحفظ کا خوف پیدا کیا گیا اورنتیجہ کے طور پر وہ آج بھی انھیں بستیوں میں سمٹے ہوئے ہیں جہاں پہلے رہتے تھے۔ (یو این این) 

«
»

روزہ عبادت ہی نہیں،مہلک بیماریوں کاشافی علاج بھی

کاسہ لیس رہنما۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے