تحریر: جاوید اختر بھارتی یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے اور دنیا میں بسنے والے لوگ بھی اپنا رنگ بدلا کرتے ہیں کبھی دکان کی تشہیر، کبھی کاروبار کی تشہیر، تو کبھی سیاسی و سماجی تشہیر، مختلف تقاریب کی تشہیر الیکشن کی میدان میں امیدواری کی تشہیر، اپنے تعمیراتی کاموں کی تشہیر وغیرہ […]
یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے اور دنیا میں بسنے والے لوگ بھی اپنا رنگ بدلا کرتے ہیں کبھی دکان کی تشہیر، کبھی کاروبار کی تشہیر، تو کبھی سیاسی و سماجی تشہیر، مختلف تقاریب کی تشہیر الیکشن کی میدان میں امیدواری کی تشہیر، اپنے تعمیراتی کاموں کی تشہیر وغیرہ وغیرہ،، آخر تشہیر کا مقصد کیا ہے یہ بات تو واضح ہے کہ کوئی بھی تشہیر بے مقصد نہیں ہوتی دکان کی تشہیر کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ دور دور تک کے لوگ جانیں اور لوگ جوق در جوق خریداری کے لئے آئیں،کاروباری تشہیر کا مقصد بھی کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے سیاسی تشہیر کا مقصد پارٹی سے جڑنا اور جوڑنا ہوتا ہے، امیدواری کی تشہیر کا مقصد لوگوں کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے مختلف تقاریب کی تشہیر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دور دراز کے لوگوں کو پروگرام کی جانکاری ہوجائے تعمیراتی تشہیر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ واقف رہیں کہ کون سا کام کس نے کیا ہے تاکہ دوسرا کوئی اسے بھنا نہ سکے اور فائدہ نہ اٹھا سکے ایک جلسے کی تشہیر کا مقصد اور مطلب تو سمجھ میں آتا ہے کہ عوام کو معلوم ہوجائے کہ فلاں تاریخ میں فلاں جگہ جلسہ ہے لوگوں کو پہنچنے میں آسانی ہو لیکن اب تو مذہبی تشہیر کو ایسا فروغ دیا جارہا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مقصد کیا ہے بیٹے نے روزہ رکھ لیا تو سوشل میڈیا پر شئیر کردیا گیا، چار لوگوں کو افطاری کرادی گئی تو سوشل میڈیا پر شئیر کردیا گیا، یہاں تک کہ کعبے کا چکر لگایا گیا تو سوشل میڈیا پر شئیر کردیا گیا جبکہ دنیا میں بے شمار لوگوں کو چکمہ اور چکر دیا گیا، حق تلفی کی گئی تو اسے سوشل میڈیا پر شئیر نہیں کیا گیا کیا ہم بھول رہے ہیں کہ کعبے کا طواف اور چکر یہ حقوق اللہ کے زمرے میں آتا ہے اور لوگوں کو دیا گیا چکر یہ حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے اور حقوق اللہ تو اللہ کی رحمت وہ چاہے تو بخش دے، معاف کردے مگر حقوق العباد کا معاملہ تو بندے سے جڑا ہوا ہے اسے تو اللہ بھی اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک کہ بندہ خود معاف نہ کردے –
آج کے دور میں انسان شہرت اور مفاد پرستی کے پیچھے بھاگتا ہے ایک قدم بھی راہ حق میں بڑھایا تو اسے کیمرے میں محفوظ کرنے کے لئے بیچین رہتا ہے،، کہتا ہے کہ کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر تو کیا چیز ہے دنیا بھول گیا لیکن سچائی یہ ہے کہ آج کعبے پر نظر پڑتے ہی خواہش تو یہی نظر آتی ہے کہ پوری دنیا دیکھے کہ میں کعبے کے قریب پہنچ گیا جیب میں موبائل ہے یہ بھی خیال ہے، سیلفی لینے کا بھی خیال ہے سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کا ارادہ بھی ہے، خواہش بھی ہے، آرزو بھی ہے اور سب کچھ کرتا بھی ہے پھر کیسے مان لیا جائے کہ کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر تو کیا چیز ہے دنیا بھول گیا،، گنبد خضریٰ کی چھاؤں میں پہنچنے کے بعد درود و سلام کی ڈالیاں نچھاور کرنے سے زیادہ ویڈیو ریکارڈنگ کو ترجیح دیا جانے لگا ارے ہونا تو چاہئے کہ وہاں پہنچنے کے بعد آنکھوں سے آنسو جاری رہے، زبان سے درود و سلام جاری رہے اور بارگاہ نبوی میں عاجزی اور انکساری جاری رہے-
اب آئیے رمضان المبارک کا مہینہ اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اللہ والے روروکر دعائیں کررہے ہیں کہ ائے پروردگار ہمیں پھر رمضان المبارک کا مہینہ عطا کرنا اور نام و نمود و نمائش کے دیوانے دعا کے ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں تو ساتھ میں کیمرہ مین کو اشارہ کرتے ہیں کہ تصویر کھینچو اور وائرل کرو،، اس کے بعد افطاری کا دسترخوان سجانے میں بدحواس نظر آتے ہیں یعنی جہاں اللہ والوں نے رمضان کو عبادت کا مہینہ سمجھا وہیں بڑی تعداد میں مسلمانوں نے لذیذ سے لذیذ تر کھانے پینے اور پکوان کا مہینہ بنادیا، رمضان کی روحانیت کو ختم کردیا، رمضان کے اصل مقاصد کو فوت کردیا کچھ لوگ ہیں تو دن رات سوشل میڈیا پر یہی شئیر کرتے رہتے ہیں کہ فلاں چیز کھانے سے پیاس نہیں لگے گی، فلاں چیز کھانے سے بھوک کا احساس نہیں ہوگا ارے نادان بھوک و پیاس کا احساس ہی جب نہیں ہوگا تو روزہ کیسا؟ یہاں تو مقصد یہ ہے روزہ رکھ کر احساس ہونا چاہئے کہ جو سالہا سال بھر پیٹ کھانا نہیں کھاپاتے تو ان کے اوپر کیا گذرتی ہوگی سال میں ایک بار یہ احساس و تصور کرنے کا موقع آیا تو اسے بھی گنوا رہا ہے اور کچھ احساس بھی ہوا اور کچھ لوگوں کا اہل ثروت نے تعاون بھی کیا تو فوٹو کھینچ کھینچ کر اس کا جینا دوبھر کردیا یعنی کسی کے ہاتھ پر چند سکے بھی رکھے تو اس کی خودداری کو چھین لیا کل کو وہ بھوکا بھی رہے تو اس کی زبان نہیں کھل سکتی،، کہیں چندہ دیا تو اعلان میں تاخیر ہوئی تو چہرے کا رنگ بدلنے لگا ارے جب دیدیا راح حق میں تو اعلان کی فکر میں کیوں ڈوبا ہے کہیں تیری یہ تشویش تیرا دیا ہوا مال غارت نہ ہو جائے یاد رکھ تو اگر اخلاص کی بنیاد پر جو کچھ دیا ہے تو کل میدان محشر میں اس کا اعلان ہوگا اور اعلان کرنے والے دنیاوی اناؤنسر نہیں ہونگے بلکہ بحکم خدا فرشتے اعلان کریں گے اس لئے تو دنیا کی فکر چھوڑ سوشل میڈیائی عبادت چھوڑ آخرت پر یقین رکھ کیوں کہ وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے دربار میں ناانصافی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ وہ رب ذوالجلال پورا پورا انصاف کرے گا یاد رکھ جزا اور سزا دونوں معاملہ پورا پورا ہوگا کیونکہ وہ دلوں کا حال جانتا ہے وہ ایسا سمیع و بصیر ہے کہ کالی رات میں بھی کالے پتھر پر چلنے والی کالی چیونٹیوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان چیونٹیوں کے چلنے کی آواز کو سنتا بھی ہے تو سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شئیر کروں گا تبھی لوگ جانیں گے اگر ایسی سوچ ایسا نظریہ ہے تو پھر اسی کو کہتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال اب ہمیں اور آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ نیکی کرکے دریا میں ڈالنا ہے یا جنت کمانا ہے-
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں