آج کی دو بات!!

مشتاق نوری

ابھی سوشل میڈیا پر شاہین باغ مظاہرے کو لے کر کئی طرح کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ شاہین باغ کی وجہ سے بی جے پی پولرائزیشن کی سیاست کر رہی ہے۔اس سے بی جے پی کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔اور میڈیا نے بھی کئی بار شاہین باغ کے مظاہرین سے پوچھا کہ آپ کے دھرنے کا سیاسی استعمال ہورہا ہے تو لوگوں کا کہنا صاف تھا کہ کوئی کچھ کرے ہم تو اپنے حق کے لئے بیٹھے ہیں۔
اب دقت یہ سامنے ہے کہ شاہین باغ مظاہرین دو گروپ میں بٹے نظر آتے ہیں۔ایک کا کہنا ہے کہ دلی چناؤ ہونے تک دھرنا ملتوی رکھا جا?۔دوسرا گروپ کہتا ہے کہ نہیں کوئی کچھ کرے ہمیں اپنے مقصد کے حصول تک ڈٹے رہنا ہے۔
میں بھی ذاتی طور پر اس دوسرے گروپ کے ساتھ ہوں۔کسی خدشہ یا اندیشے کے پیش نظر اپنے ٹارگٹ سے پیچھے ہٹنا اس وقت بالکل مناسب نہیں ہے۔آپ سوچئے! جن ماں بہنوں نے پچاس دنوں سے زائد دلی کی کڑکڑاتی دو ڈگری والی سردیوں میں، موسم کی بن بلائی برسات کی کپکپا دینے والی بوندا باندیوں کے درمیان کیا کیا جھیل کر وقت کاٹے ہیں ان کی اتنی بڑی قربانی کا کیا بنے گا؟ ایک دو دن نہیں، دو مہینے ہونے کو ہیں۔جس وقت ہم آپ سخت سردی بتا کر رضائی اور کمبلوں کے اندر پناہ ڈھونڈ رہے تھے اس وقت سو سالہ رکارڈ توڑ ٹھنڈ میں وہ نازک مائیں بہنیں ہمارے حق اور پہچان کے لئے دھرنا دے رہی تھیں۔

یہاں دو بات ہمارے ان مفکرین کو پیش نظر رکھنی چاہئے جو دھرنا ختم کرنے یا ملتوی کرنے کے مشورے دے رہے ہیں! کہ شاہین باغ میں خواتین کا اجتماع کسی سیاسی پلیٹ فارم تیار کرنے کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی یہ خواتین کسی کو جتانے ہرانے کے لئے بیٹھی ہیں انہیں تو اپنے اور اپنی نسلوں کی بقا کی فکر لاحق ہے اس لئے بارش کی برودت،ہواؤں کی خنکی اور جاڑے کی امتحان لیتی ٹھنڈ میں یہ جمی رہیں ڈٹی رہیں۔اس دھرنے سے کون بنتا کون بگڑتا ہے یہ وہ جانے۔

دوسری بات! کیا ہم لوک سبھا چناؤ بھول گئے؟ اس وقت تو ایسا کوئی ماحول نہیں تھا۔اس وقت تو کوئی شاہین باغ پروٹیسٹ نہیں چل رہا تھا اس وقت تو اس شدت کی ہندو مسلم کی سیاست نہیں کی گئی تھی پھر بھی کیجریوال کیوں ہار گئے؟ کیوں دلی کے پڑھے لکھے طبقے نے فاشسٹ آر ایس ایس کی سیاسی کمیونل ونگ بی جے پی کو ساری سیٹیں دے دیں؟
ایک اور اہم بات! ہمارے مفکرین لکھ رہے ہیں کہ چناؤ تک مظاہرہ ملتوی کر دیا جائے۔ارے صاحبو! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ بے نتیجہ اس پروٹیسٹ کو ختم کر دیا جائے۔کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک بار پروٹیسٹ ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ امت شاہ کی پولیس شاہین باغ میں بیٹھنے دیگی؟ قطعی نہیں! کیا آپ کو یہ پتا نہیں کہ ملک میں اور بھی درجنوں سے زائد شاہین باغ چل رہے ہیں لیکن ان کا اثر زیرو لیبل پہ جارہا ہے بس صرف یہی ایک شاہین باغ ہے جو سب کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔پہلے امت شاہ کو یا بی جے پی کے منصوبہ ساز ونگ کو اس کا احساس تک نہیں تھا کہ یہ شاہین باغ اس قدر اس کے لئے درد سر بن جا? گا۔اب جبکہ اسے اس باغ کی اہمیت اور وزن کا احساس ہوگیا ہے تو کیا وہ پھر ایسا کرنے دینے کی بھول کریں گے؟ کبھی نہیں!
شاہین باغ جب تک لڑ رہا ہے اس وقت تک ملت کی امیدوں کا چراغ روشن ہے۔شاہین باغ کے مظاہرین میں گروہ بندی پنپنا ہمارے لئے بہت خطرناک ثابت ہوگا۔اس پروٹیسٹ کو ملتوی کرنے کی سوچنا بھی مقصد کے راستے میں اپنے ہاتھوں دیوار کھڑی کردینے کے مترادف ہوگا۔مجھے لگتا ہے کہ کافی لوگوں کو شاہین باغ پروٹیسٹ کی اہمیت کا اندازہ  نہیں ہے۔سیاسی حالات اور کرنٹ ایشوز کے تجزیہ کاروں سے پوچھئے کہ وہ اسے کس نظرئے سے دیکھتے ہیں۔اس دھرنے پہ بیٹھی خواتین نے منتشر ملت کو پھر سے متحد ہونے کا نہ صرف موقع دیا ہے بلکہ ملی بے سمتی اور گروہ بندی سے نکلنے اورقومی شیرازہ بندی کرنے کا سبق بھی پڑھایا ہے۔ان خواتین نے کتنوں کے جبہ و دستار کی لاج بچا رکھی ہے۔کتنے برہمنیت زدہ پیروں کے محلات کو سہارا دے رکھا ہے۔کتنے اداروں، مدرسوں پر لگنے والے سرکاری مقفلوں کو تیار ہونے سے روک رکھا ہے۔کتنے سوٹیڈ بوٹیڈ حضرات کی اوقات بنا رکھی ہے۔اس باغ کو آپ ہلکے میں نہ لیں! یہ وہ باغ ہے کہ کل اگر اس کی جیت ہوئی تو اس میں ہمارے آپ کے بچوں کی شناخت و آئڈینٹٹی  کی کلیاں مسکرائیں گی۔ان کی قومیت کے پھول کھلیں گے۔اس کے برگ و بار سے تقریبا پچیس کروڑ افراد والی ملت کا وجود و بقا مثل کاشت و کشت لہلہا اٹھے گا۔یہی وہ باغ ہے جو کل اپنی جیت کی زنبیل سے پورے بھارت کی جمہوری اسٹرکچر کو آکسیجن فراہم کرے گا۔
درد کا چھلکا ساغر
جامعہ کے ایک مظاہرے میں روز شریک ہونے آتی قوم کی ایک بیدار بیٹی جس کی ننھی سے کلی دھرنا و مظاہرہ کا مفہوم و مطلب جاننے سمجھنے سے بہت پہلے اسی مظاہرہ گاہ میں ٹھنڈ کی وجہ سے شہید ہوگئی۔اب مجھے امید بن آئی ہے کہ اللہ اس کی قربانی ضائع نہیں فرما? گا۔
اس ننھی سے کلی کی شہادت بہت خاموش طریقے سے ہوئی ہے لیکن اہل سماعت و بصیرت جانتے ہیں کہ ملت کی اس بیٹی نے کئی خاموش قائدین و مفکرین کے گال پر دھیرے سے زور کا تمانچہ مارا ہے۔میں نے اس پھول سی معصوم شہزادی کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کھلی آنکھوں سے کہنا چاہتی ہو کہ میں نے اپنی کم عمری کے باوجود اپنا حق ادا کر دیا ہے اب اس مشن کو یہاں سے آگے لے جانا آپ کا کام ہے۔
ٹھیک اسی وقت فیسبک پر کچھ پیروں کے جلسہ جلوس کے پوسٹرز اور ان کی پیری مریدی کے بکھان دیکھ سن کر جی چاہا کہ ان کی غیرت و حمیت کا جنازہ پڑھ لوں۔ایک طرف ایک ننھی سے کلی دھرنے میں ٹھنڈ سے دنیا چھوڑ جاتی ہے دوسری طرف ہمارے ارباب جبہ و دستار و صاحبان کج کلاہان من پسند بریانی اور لذیذ پکوانوں کے مزے اڑا رہے ہیں۔میری نظر میں یہ غیرت دینی سے پری ہوئی بات ہے۔اردو کے کسی بڑے دانشور کا قول ہے کہ مشکل گھڑی میں اگر آپ حق کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں تو پھر تاریخ کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ آپ مسجد کے حجرے میں تھے یا طوائف کے کوٹھے پر۔
اس شہید پھول کے والدین ہمارے ہزار سلام کے نہ صرف مستحق ہیں بلکہ ہماری ساری ہمدردیاں اور نیک دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔قادر مطلق والدین کو صبر جمیل کی توفیق کے ساتھ نعم البدل عطا فرمائے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
04/ فروری2020

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے