آج نہیں تو کل سہی

یہ تحریکیں ، بیسویں صدی کی ابتدا میں ظہور پذیر ہونے والی ’’اشتراکیت ‘‘سے اسلیے مختلف ہیں کہ ان کے نیو کلیئس میں اللہ ایشور OMNIPOTENT ALMIGHTY GODکی جگہ مادہ MATTERاستھاپت تھا اور آدمی کو مہابلی قرار دے دیا گیا تھا جبکہ آج ایسا نہیں ہے ۔ پوری دنیا میں ’’فطرت ‘‘کی طرف واپسی کا عمل جاری ہے ۔ اور سیکولر ازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والی قوم (ا لیہود ) بھی سیکیولر نہیں ’’ریگولر ‘‘ ہے ۔ اور بہ خیال خود اپنے پیغمبروں (حضرات موسیٰ، داؤد، سلیمان علیہم ا لسلام )کے فرمودات اور اپنی دینی کتابوں کے مندرجات پر عامل ہے ۔ یہاں ادیان عالم میں تحریفات اور ان کی صحت و عدم صحت ہمارا موضوع نہیں ۔ ہم صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ نیو یارک سے پیرس اور ایتھنس تک ، ساؤ پالو ، ریو دی جنیریو اور ہانگ کانگ سے بیجنگ تک اور نئی دہلی اور ممبئی سے اسلام آباد کراچی اور لاہور تک وال اسٹریٹ، کرپشن ، کالے دھن ، اور امیری و غریبی کے درمیان خلیج کو بڑھانے والے نظام کے خلاف جو مختلف تحریکیں اٹھیں وہ فوری طور پر بھلے ہی مطلوبہ نتائج تک نہ پہنچ سکی ہوں لیکن جیسا کہ ہم نے آغاز کلام میں کہا کہ ہمارے بعد والی نسلیں انشا ء اللہ جلد یا بدیر ایک کرپشن فری ، کالے دھن کی کالی معیشت سے آزاد دنیا ، جس میں سب کو روٹی کپڑے مکان صحت اور تعلیم کے بنیادی حقوق یکساں طور پر حاصل ہوں ۔ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ ، انشا ء ا للہ ، اکیسویں صدی کے خاتمے تک ہمارے اس خواب کی تعبیر آنے والی نسلیں ضرور دیکھ لیں گی ۔ آج نہیں تو کل سہی ، یہ دنیا اپنے خاتمے سے قبل وہ دن ضرور دیکھے گی جب صدر مملکت اور عام آدمی کا علاج ایک ہی اسپتال میں یکساں سہولتوں کے ساتھ ممکن ہو سکے گا ۔ اور جب تعلیمی اداروں میں وزیر اعظم کا بیٹا اور ایک کسان مزدور یا معمولی کلرک اور چپراسی کا بیٹا ایک ساتھ ایک جیسی تعلیم حاصل کر سکیں گے ۔ جب امیروں اور غریبوں کے لیے اسکول اور اسپتال الگ نہیں ہونگے ۔ جب راجہ اور پرجا یکساں حق کے ساتھ تعلیم اور صحت کے وسائل اور خدمات کا فائدہ اٹھا سکیں گے ۔ وہ زمانہ ضرور آئے گا جب مسرفین ، مترفین ، ظالمین ، چوروں ، لٹیروں ، رشوت خوروں اور کالا بازاری و ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے لیے ایک ہی جگہ ہوگی : جیل ۔ اور وہ بھی قید با مشقت کے ساتھ ۔ جب حکومتوں میں باہو بلیوں ، دبنگوں اور کالی دولت رکھنے والوں کا نہیں اہل ایمان و تقویٰاور ایسے اہل طاقت کا جلوہ ہوگا جو ہر حال میں انصاف کو مقدم رکھیں گے ۔ 
آج حالت یہ ہے کہ ملک میں تعلیم و صحت اور سوشل سکٹر میں جتنی رقم خرچ ہوتی ہے اس کی کئی گنا زیادہ رقم نئے شہر یاروں (جمہوری حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں )کے ذاتی عیش و آرام اور اسفار و علاج معالجے پر خرچ کر دی جاتی ہے ۔ آج ملک میں کالی دولت کی اوسطاًقیمت چالیس لاکھ کروڑ روپئے سے زائد ہے ۔ حکومت اگر اس رقم کو برآمد کرکے چوروں کو جیل میں ڈال دے اور ضبط شدہ اثاثوں کا استعمال صحت ، تعلیم ،مکان اور غذائی تحفظ کے زمرے میں خرچ کرے تو ملک میں کوئی ننگا بھوکا بے علاج بے پڑھا لکھا جاہل اور بیمار نہ رہے ۔ موجودہ حکومتوں سے تو ہمیں کوئی امید نہیں ۔ انکے تمام تر دعووں کے بر خلاف نہ انکی نیت صاف ہے نہ انکی متعلقہ پالیسی درست ہے ۔ سب جھوٹ بول رہے ہیں ۔ 
یہ نظام جس میں مائکرو سافٹ کے سربراہ ستیہ نڈیلا کی سالانہ آمدنی ۵ سو کروڑ روپئے سے زائد ہو اور دنیا کی ۹۵ فی صد آبادی کی آمدنی دو لاکھ روپئے سال سے بھی کم ہو اور انکی کل ذاتی املاک کی قیمت بہ مشکل چھے لاکھ روپئے ہو ، ہمیں منظور نہیں ۔ یہ نظام جو جمہوریت کے نام پر باہو بلیوں چوروں بد عنوان افسروں اور کالے دھن والوں کو حکومت سازی کا حقیقی اختیار دیتا ہو ہمیں کیا دنیا کی ۹۵ فی صد آبادی کو قبول نہیں ۔ یہ نظام جسنے جمہوریت کے نام پر گیہوں ،چاول ، دالیں ، آلو ، پیاز ،ٹماٹر ،نمک ،مرچ اور کوتمیر (دھنیا )کے دام پچھلے ساٹھ برسوں میں چھے ہزار گنا اور پچھلے چھے مہینوں میں چھے سو گنا بڑھا دیے ہوں ، ہمیں منظور نہیں ۔ 
ٹھیک ہے کہ ہم اس وقت وہ طاقت نہیں رکھتے کہ اس نظام کو بدل سکیں جو مظلوموں کو دہشت گرد اور حقیقی دہشت گردوں کو دیش بھکت قرار دیتا ہو اور جسنے دنیا کی ۹۵ فی صد آبادی کا جینا حرام کر رکھا ہو ، لیکن ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آج نہیں تو کل سہی ، وہ دن ضرور آنا ہے جب یہ دنیا عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دی جائگی جس طرح وہ اس وقت ظلم و نا انصافی ، کرپشن اور اسراف سے بھری ہوئی ہوگی ۔ یہ کسی دیوانے کا خواب نہیں اس صادق و امین کا وعدہ ہے جو خیر ا لبشر ہے ۔ 
ہماری نسل نہ سہی ہمارے بعد آنے والی نسلیں ضرور اس کی عینی گواہ بننے کا شرف حاصل کریں گی ۔ انشاء ا للہ ۔ رہے ہم اور ہماری اگلی پچھلی پیڑھی کے وہ لوگ جو آج ہمارے ساتھ ظلم اور نا انصافی اخلاقی انارکی اور بد عنوانی کے درمیان زندہ ہیں وہ اگر صرف اپنی ذات اور اپنے زیر اثر افراد کو جھوٹ ظلم ا ور کرپشن سے حتی ا لمقدور بچا لے جائیں تو اللہ جل جلالہ ان کے ساتھ خیر کا معاملہ کریگا ۔ یہ اس کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ 

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے