رپورٹ کے مطابق ان امیر افراد کے پاس موجود دولت میں اگلے برس 600 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوجائے گا جس کے بعد یہ امیر ترین افراد دنیا کی آدھی دولت سے بھی زیادہ کے مالک ہوجائیں گے۔آکسفام کی رپورٹ میں تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں دولت کی غیر مساوی تقسیم بڑھ رہی ہے جس سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے۔ اگر یہ تقسیم اسی طرح جاری رہی تو سال 2016 تک دنیا کے صرف ایک فیصد امیر ترین افراد دنیا کی بیشتر دولت کے مالک ہوجائیں گے۔ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے ہفنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق آکسفام کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے امیرترین 80 افراد میں سے 35 افراد امریکی شہریت رکھتے ہیں۔ سال 2014 میں ان کی کل دولت کا تخمینہ 941 بلین امریکی ڈالرز تھا۔اس فہرست میں دوسرا نمبر جرمنی اور روس سے تعلق رکھنے والے سات، امیر ترین افراد کا ہے۔
دولت کی غیر مساوی تقسیم
دنیا بھر میں جائیداد صرف چند ہاتھوں تک کس طرح محدود ہوتی جارہی ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی تمام دولت کے بقیہ آدھے حصے پر 700کروڑ سے زائد آبادی اپنی گذر بسر کررہی ہے۔ورکنگ فار دی فیو نامی یہ رپورٹ مشہوربین الاقوامی تنظیم OXFAM نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جائیداد کے معاملے میں عدم مساوات کی لعنت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ہی طرح کے ملکوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔آکسفیم نے دعوی کیا ہے کہ سرمایہ داروں نے سیاسی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے معیشت کے کھیل کے ضابطوں کواپنے حق میں کرلیا ہے اور جمہوریت کو درکنار کرتے ہوئے ایک ایسی دنیابنادی ہے جہاں صرف 80لوگوں کے پاس دنیا کی پوری آبادی کی آدھی دولت سمٹ گئی ہے۔ آکسفیم نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ 1970 کی دہائی کے بعد سے لے کر اب تک امیروں کی آبادی والے 30میں سے 29ملکوں میں امیروں پر عائد ہونے والے ٹیکس کی شرحوں میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ امیر لوگ نہ صرف زیادہ کمارہے ہیں بلکہ اس کمائی پر وہ ٹیکس بھی کم دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے 25 برسوں کے دوران جائیداد کی مرکزیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ دنیا کے صرف ایک فیصد خاندان کے پاس ہی دنیا کی تقریباََ آدھی یعنی 46 فیصد جائیداد جمع ہوگئی ہے۔ آکسفیم نے کہا ہے کہ اس رجحان کو بدلنے کے لئے دنیا بھر میں حکومتوں کو فوراََ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں داؤس میں ہوئی ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ میں شامل ہونے والے دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات اور دیگر شعبوں کی اہم شخصیات کے لئے آکسفیم نے ایک چھ نکاتی اپیل بھی تیار کی تھی۔
کالا دھن قارونوں کے پاس
آکسفیم کی ایگزیکیوٹیوڈائریکٹر ونی انما کے مطابق یہ انتہائی حیران کن ہے کہ دنیا کی آدھی دولت صرف اتنے ہی لوگوں کے پاس ہے جو کہ ٹرین کے صرف ایک کوچ میں آرام سے آسکتے ہیں۔ آکسفیم کے مطابق دنیا کے امیروں نے بڑی تعداد میں اپنا سرمایہ ٹیکس حکام کی نگاہ سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ رپورٹ میں لگائے گئے اندازہ کے مطابق تقریباََ21 لاکھ کروڑ ڈالر کی رقم ایسی ہے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور جس کا بڑا حصہ ٹیکس ہیونس کے نام سے مشہور ملکوں کے بینکوں میں جمع کیا جاتا ہے۔ جہاں اس طرح کی جائیداد پر انہیں کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا ہے۔ ہندوستان کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہا ں ارب پتیوں کی تعداد گذشتہ ایک دہائی میں دس گنا ہوگئی ہے۔ امیر لوگ مخصوص ٹیکس ڈھانچہ اور سرکاری روابط کا استعمال کرکے مزید امیر ہورہے ہیں جب کہ غریبوں پر کیا جانے والا خرچ بہت معمولی ہے۔
امیروں کی دولت میں اضافہ، غریبوں کی غربت میں اضافہ
امریکن نیشنل بزنس میگزین ’’فوربس‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال2013 ء میں2426 ارب پتی دنیا میں موجود تھے۔ جن کا کل اثاثہ تقریبا5.4 ٹرلین (5400ارب)امریکی ڈالر ہے۔ جن میں سے صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 1342 ارب پتی ہیں۔ ان میں سے سرفہرست100 میں تین ہندوستانی بھی ہیں۔ اس فہرست میں غریب ترین شخص بھی کم از کم 5 ارب ڈالر کا مالک ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2000 ء میں پوری دنیا کی تمام دولت کا 40 فیصدحصہ صرف ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے قبضے میں تھا اور دنیا کے دس فیصد امیر لوگ دنیا کی 85 فیصد دولت پر قابض تھے۔اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ سرکاری نظام امیروں کی بے جا حمایت کرتا ہے۔ آج ہم پورے یقین اور دکھ کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ حالات اب تیزی سے امیروں کو مزید امیر بنا رہے ہیں۔ 2001 ء کے ایک جائزے میں امریکہ کے بارے میں کہا گیا ہیکہ امریکہ میں ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 38% دولت ہے اور دس فیصد لوگوں کے پاس 71% دولت ہے، جبکہ 40% غریب مل کر صرف اور صرف ایک فیصد دولت کے مالک ہیں۔ غریب ملکوں کا حال اس سے بھی کہیں بد تر ہے۔ آسان الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک دعوت میں سو مہمان ہیں اور سو روٹیاں ہیں۔ ایک امیر مہمان کو 38 روٹیاں کھانے کو ملیں جبکہ 40 غریب مہمانوں کو مل کر صرف ایک روٹی میں سے ٹکڑا ٹکڑا کھانا پڑے۔ اب ہم اچھےسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ترقی یافتہ امریکہ میں عام آدمی کا یہ حال ہے تو دیگر ممالک میں ان کا کیا حال ہوگا؟ اللہ خیر کرے!
دنیا کے سب سے امیر افراد
میکسیکو کی میڈیا کے بے تاج بادشاہ، کارلوس سِلم دنیا کے امیر ترین فرد ہیں جن کے پاس 74بلین ڈالر کی ملکیت ہے۔مائکروسافٹ کے بانی، بِل گیٹس نے ایک فلاحی ادارے کو 28بلین ڈالر دے دیے ہیں اور اب وہ 53بلین ڈالر کے مالک ہیں اور اِس طرح دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔ سرمایہ کار، وارن بوفے دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص ہیں۔تاہم، روسی سماجی میڈیا کے ارب پتی یوری ملِنراپنے ملک میں سب سے آگے ہیں۔ اْن کے آبائی شہر ماسکو میں 79ارب پتی بستے ہیں۔ ایک ہی شہر میں اتنے امیر ترین لوگوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔لیکن اب بھی، کسی ملک میں سب سے زیادہ ارب پتی اشخاص امریکہ میں رہتے ہیں، تاہم دولت کا فرق گھٹتا جا رہا ہے۔چین میں نئے ارب پتیوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ روبن لِی، سرچ انجن ’بیدو‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ چین کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں، جِن کی دولت کی مالیت نو بلین ڈالر ہے۔
ارب پتیوں کی فہرست رکھنے والے ملکوں میں ہندوستان بھی شامل ہے۔اس کی کل آبادی 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق تقریبا 121کروڑ ہے۔ فوربس میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 ء میں ہندوستان کے اندر 61 ارب پتی تھے (یعنی جن کا اثاثہ 1ارب امریکن ڈالر سے زائد کا ہو) فوربس ہر سال یہ رپورٹ شائع کرتی ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی بھارت کے سب سے امیر شخص ہیں اور نئی سرکار میں ان کے اثاثوں میں زیادہ تیزی سے اضافے کی امید کی جارہی ہے۔چین کی ایک ریسرچ فرم ’’ہورون ‘‘کے مطابق 2013 ء میں ارب پتیوں کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا پانچواں سب سے بڑاملک ہے۔ریلائنس کے چیئرمین مکیش امبانی لگاتار آٹھویں مرتبہ سب سے مالدار ہندوستانی کی حیثیت سے پھر سامنے آئے ہیں۔ جن کا کل اثاثہ تقریباََ18 بلین امریکی ڈالر کا تھا حالانکہ ادھر دو برسوں میں اس میں اضافہ ہی ہوا ہوگا۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دلیپ سنگھوی مکیش امبانی سے بھی دولت میں بڑھ گئے ہیں اور ۲۰۱۵ء میں وہ سب سے مالدار ہندوستانی بن گئے ہیں۔یہ رپورٹ آگے کہتی ہے کہ پچھلے سال انڈین روپیہ ڈالرکے مقابلہ میں12فیصد کمزور ہواہے،اور اس کا ہندوستانی معیشت پر بہت برا اثربھی پڑاہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہواہے۔ جہاں یہ تعداد 2012 ء میں 61تھی، صرف سال بھر کے اندر 70ہوگئی۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت میں جرمنی، سوئزرلینڈ، فرانس اور جاپان کے مقابلے زیادہ ارب پتی ہیں اور ان ارب پتی ہندوستانیوں کے اثاثے کی کل قیمت اب320بلین امریکی ڈالر سے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔فوربس میگزین کے چیرمین اسٹیو فوربس کہتے ہیں کہ اِس سال جِن 200نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہوا ہے اْن کا تعلق برازیل، روس، بھارت اور چین سے ہے۔
دولت مند انڈیا، غریب ہندوستانی
بھارت میں جہاں ایک طرف ارب پتیوں کی دولت میں اضافہ ہوا ہے وہیں غریبوں کے لئے دو وقت روٹی کا انتظام کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے، یہ بات ہم نہیں بلکہ خود بھارت سرکار کے ادارے پلاننگ کمیشن کے تابع ایک خود مختار ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف اپلائڈ مینپاور ریسرچ‘ (IAMR) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے جو2011 ء میں تیارکی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دکھائی دینے والی معاشی چمک دمک اوراقتصادی ترقی اس ملک کے صرف چند لوگوں کے لیے ہے ورنہ عام لوگ درد وکرب اور مشقت بھری زندگی گزارنے پرہی مجبور ہیں۔آج ہندوستان میں سب سے اوپر کے صرف پانچ فیصد گھرانے ملک کے لگ بھگ 38فیصد اثاثے کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ جبکہ نچلے طبقے کے 60 فیصد عوام بمشکل ملک کے صرف 13 فیصد اثاثے پر گزربسر کر ر ہے ہیں، اور دیہی علاقوں میں یہ تصویر مزید بھیانک ہوجاتی ہے۔ یہاں 60فیصد لوگوں کو محض 10فیصد اثاثے پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔یہاں کھتی باڑی پر گزارا کرنے والوں اور مزدوری کرنے والوں کے پاس تو زندگی گزارنے کے بنیادی ذرائع بھی نہیں اور اکثر انھیں فاقہ کشی کی نوبت آتی رہتی ہے۔یونیورسٹی آف ساسکس کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل غریبوں کی آدھی تعداد صرف دو ملکوں میں آباد ہے اور یہ دو ممالک ہیں چین اور بھارت۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں غریبوں کی تعداد 45 کروڑ سے زیادہ ہے۔ وہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور ان کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ماہر اقتصادیات الکائریکا کا کہنا ہے کہ دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی غریب براعظم افریقہ میں رہتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ جب ہم افریقہ کے 26 غریب ترین ملکوں سے بھارت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک میں بھی لوگ اتنے ہی زیادہ غریب اور محرومی کا شکار ہیں جتنا کہ افریقہ کے، بلکہ بھارت میں غربت کی شدت افریقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے،اور یہ پہلو بہت چونکادینے والا ہے۔
جواب دیں