عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
استخلاصِ وطن کی خون آشام تحریک میں جن قلم کاروں اور شاعروں نے اپنی سحر انگیز صحافت اور ولولہ خیزشاعرانہ تخیل کےذریعہ مجاہدین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر شمعِ حریت کو فروزاں رکھا، ان میں جوش ملیح آبادی کا نام سر فہرست ہے۔جوش نے اپنی بلند پایہ شاعری کے ذریعہ خوابیدہ ضمیرکو بیدار کرنے اور پژمردہ قلوب کو جھنجھوڑنے کاوہ انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیا کہ"شاعر انقلاب"ان کے نام کا جزو لاینفک بن گیا ۔اُن حالات کے پس منظر میں اُن کا یہ شعرغیر معمولی مقبول ہوا اور مسلسل زباں زد خاص و عام رہا ؎
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب
موجودہ حالات میں بھی حکومت کی پیہم ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں کے خلاف انقلاب کے علم برداروں نے اسی شعر کو اپنی سوچ وفکر کا محور بنایااور احتجاج کو انقلاب کا پیش خیمہ بتاتے ہوئےاس پرخطر راہ میں تن من دھن کی بازی لگادی اور دنیائے احتجاج میں ایک نئی تاریخ رقم کرڈالی۔یہ میرا ملی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ میں سب سے پہلے ان تمام طلبہ اور طالبات کو بہ صمیم قلب مبارک باد پیش کروں جنہوں نے پوری جرئت مندی و جفاکشی کے ساتھ اس تحریک کانہ صرف آغاز کیا؛بلکہ خون جگرسےاسے تا ہنوز تر و تازہ رکھا۔سرپر کفن باندھےجذبۂ شہادت سے سرشار جامعہ کے نوجوانوں کو سلام،پولس سے برسرپیکار ناز و نعم میں پلی قوم و ملت کی بیٹیوں کو سلام،ملک کے طول و عرض میں آئین کی حفاظت کےلیے نکلنے والے انسانی سروں کے سمندر کو سلام، خرد کو غلامی سے آزاد کرنے والی ہر تحریک کو سلام ، تیر کے مقابلے میں جگر آزمانے والی ہر تنظیم کو سلام،ستم گر کو گل دستۂ محبت پیش کرنے والی ہر خاتون کوسلام، لاقانونیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہر فرد کو سلام۔۔۔۔
آج ضرورت ہے احتجاج کے ذریعہ اپنےجائز حقوق کووصول کرنے کی،ملکی سالمیت کو درپیش خطرات سےبچانے کی اور وطن عزیز کو ایک بار پھر آزادی دلانے کی ۔مگرکیا کیاجائے کہ سادہ لوحی کی بھی انتہا ہے ۔ہم سے پوچھا جارہاہے کہ احتجاج کس بات پر؟دلاسے دیے جارہے ہیں کہ آپ کو ملک بدر نہیں کیاجائے گا ؟طرح طرح سےباور کرایاجارہاہےکہ کسی کی شہریت نہیں چھینی جائے گی ؛لیکن میں بتادوں کہ ہم یہ نوبت آنے ہی نہیں دیں گے!ہم احتجاج کریں گے اور پوری قوت کے ساتھ احتجاج کریں گے! شہریت ترمیمی بل کے خلاف۔۔ این آر سی کے نفاذ کے خلاف۔۔ ظلم کے بڑھتے سیل رواں کے خلاف۔۔دستور میں جبراً تحریف کے خلاف۔۔ دہلی کے جنتر منتر پر،بنگال کے کوچے کوچے میں ،دیوبند و لکھنوء سے بنگلور و کرلا تک، بند کمروں سے لےکر شاہ راہ عام تک ،جامعہ ملیہ و علی گڑھ سے جامعہ عثمانیہ اور مولانا آزاد تک۔احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور ہم ظلم و ستم ظریفی کے خلاف اس حق کا بھرپور استعمال کریں گے۔
احتجاج کی اس عمومی اور انقلاب آفریں فضا کے باوجود کچھ ریاستیں، کچھ شہر اور کچھ اضلاع وہ ہیں جہاں اب تک پر اثراحتجاج کا بگل نہیں بجایا گیا،اس کی معقول یا غیر معقول جو بھی وجہ ہو؛ مگر ان پر آشوب حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمشیر بکف دشمن کے مقابلے کےلیے ہوش مند قیادت کے بدلے سر بکف سیادت کی ضرورت ہے جو خرد کی گتھیاں سلجھانے کے بجائے جنون و عزم کی ہم رکاب ہو اور تیر آزمانے والے ستم گروں کا جواب جگر آزما کر دے سکے۔
اب تک زبانی ڈھکوسلےاور پدرم سلطان بود کے نعرے بہت ہوگئے، مصلحت کی دبیز چادریں اتارپھینکیے، سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالیے،کریڈٹ حاصل کرنے کی منافقت چھوڑدیجیے،تعصب و اختلاف کی قبائیں تار تار کیجیے، جرائم کا پٹارہ کھلنے اور دنیا کے آگے شرم سار ہونے کا خوف مت کیجیے،اب دماغ کی نہیں دل کی صدائےبازگشت پر لبیک کہیے!نمرود وقت کی شعلہ زن آگ میں بے خوف و خطر کودپڑیے، آواز سے آواز اور قدم سے قدم ملاکر آگے بڑھیے! اور بہ بانگ دہل یہ اعلان کردیجیے ؎
ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے
تجھ کو جیتے ہیں تو غم ناک نہ ہونے دیں گے
ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے
جی میں ٹھانی ہے یہی جی سے گزر جائیں گے
کم سے کم وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے
اب مشورے بہت ہوچکے،غور و فکر بہت ہوچکا،یہ رائے عامہ ہموار کرنے کا وقت نہیں،کچھ کر گزرنے کا وقت ہے۔احتجاج کے لیے اجازت طلب کرنےکا وقت نہیں، بے جگری کے ساتھ دشمن سے مقابلے کا وقت ہے۔
آئیے! ہم اپنے شہر کے مردہ حتجاج میں اک نئی روح پھونکیں،خواب خرگوش میں مست عوام کو بیدار کریں، ایک بار پھر تازہ دم ہوکر میدان عمل میں کود پڑیں ۔
یہ کس درجہ خوش آیند بات ہے کہ پندرہ یوم کےمسلسل احتجاج سے برسر اقتدار جماعت اقدام کے بلند بام سے دفاع کے پائیدان پر آچکی ہے۔جلسے جلوسوں،اخباری اشتہاروں،ٹی وی پروگراموں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون اور مردم شماری رجسٹریشن کے حوالے سے مرکزی وزراء کی بیان بازیوں؛ بل کہ گمراہیوں کا سلسلہ عروج پرہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنے متضاد بیانات کے ذریعہ میڈیا میں مستقل بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ "ہندوستان کے دیش واسیوں" سے لےکر "مسلم بھائیو بہنوں!" تک کا طویل سفر بی جے کےلیے بہت دشوار اور کٹھن ثابت ہوا ہے۔
لہذا ان امید افزا حالات میں ہم اپنے جذبات کو ہرگز سرد نہ ہونے دیں! پوری قوت و توانائی کے ساتھ، پورے جوش و ولولےکے ساتھ اور بھرپور نظم و ضبط کے ساتھ ادنی تساہل کےبغیر اپنا احتجاج درج کرواتے رہیں ! اگر ہم کوتاہ دستی سے کام لیں گے یا گرم جوشی کے بجائے سرد مہری دکھائیں گے تو اب تک کا کیا دھرا اکارت و بے کار جائے گا اور ہماری مثال اس جلد باز خرگوش کی ہوگی جو ذرا سی کامیابی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جائے اور جسے انجام کار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔
یہاں ایک عاجزانہ درخواست معاصر اہل قلم اور جذباتی صحافیوں سے یہ ہے کہ ہم کام کے سلسلہ میں ایک دوسرے کا موازنہ کرنے، قیادتوں کے عدم تعاون کا رونا رونے اور بعض اکابر کی خاموشی اور کھل کر میدان میں نہ آنے کا شکوہ کرنے کے بجائے حسب استطاعت جو بن پڑا کرتے رہیں؛ اس لیے کہ یہ وقت تنقید و تنقیص کا نہیں ہے؛ بلکہ یکجٹ و متحد ہوکر کام کرنے کا ہے۔اخیر میں ڈاکٹر کلیم عاجز ؔمرحوم کے ان معنی آفریں اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ
عشق ہر شخص کے بس کا نہیں، پیارے جاؤ
یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ !اس وقت کہ جس وقت پکارے جاؤ
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
02جنوری2019(فکروخبر)
جواب دیں