۴ مرتبہ ممبر اسمبلی اور ۵ مرتبہ ممبر پارلیمنٹ برق کی قوم وملت کے وقار کی بلندی کے لئے نمایاں خدمات ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلیسنبھل قدیم شہر ہے، اس کو تاریخی دستاویزوں میں ’’سرکار سنبھل‘‘ لکھا گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانہ میں سنبھل کو راجدھانی کا مقام حاصل تھا۔ مغلوں کے دور […]
۴ مرتبہ ممبر اسمبلی اور ۵ مرتبہ ممبر پارلیمنٹ برق کی قوم وملت کے وقار کی بلندی کے لئے نمایاں خدمات
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی سنبھل قدیم شہر ہے، اس کو تاریخی دستاویزوں میں ’’سرکار سنبھل‘‘ لکھا گیا ہے۔ پرتھوی راج چوہان کے زمانہ میں سنبھل کو راجدھانی کا مقام حاصل تھا۔ مغلوں کے دور میں بھی سنبھل کی امتیازی حیثیت باقی رہی۔ متعدد علماء کرام اس سرزمین میں پیدا ہوئے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں، جن میں مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کا ایک اہم نام بھی ہے جنہوں نے ۱۹۳۶کے الیکشن میں نواب عاشق حسین کے مقابلہ میں فتح حاصل کی اور ۱۹۴۶ میں دوبارہ فتح حاصل کرکے ۱۹۵۲ تک سنبھل کے M.L.A رہے۔ مولانا محمد اسماعیل سنبھلی کے سیاست کو خیر آباد کہنے کی وجہ سے شہر سنبھل کے محلہ دیپاسرائے میں ترک برادری سیاسی قیادت سے محروم ہوگئی تھی۔ تقریباً ۱۵ سال کے عرصہ کے بعد اس خلا کو پُر کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے اہلیانِ سنبھل کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور قوم وملت کی خدمت اور سماجی کاموں میںمصروف ہوگئے۔ پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں MLA کے الیکشن کے لئے میدان میں اترے۔ اس مرتبہ نواب محمود حسن خان اور ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کے درمیان انتخاب کی ٹکر کی وجہ سے جن سنگھ پارٹی کے مہیش کومار کو جیت حاصل ہوئی۔ ۱۹۶۹ء کے انتخاب میں ایک بار پھر نواب محمود اور ڈاکٹر برق کے درمیان مقابلہ ہوا، کانگریس سے حاجی اظہر بھی میدان میں تھے وہ بھی دیپاسرائے سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ نواب محمود حسن خان کو جیت حاصل ہوئی۔ ۱۹۷۴ء میں ڈاکٹر شفیق ا لرحمن برق چودھری چرن سنگھ کی پارٹی بھارتیہ کرانتی دل سے تیسری مرتبہ میدان میں اترے اور اب تک تین بار جیت حاصل کرنے والے نواب محمود کو شکست سے دوچار کیا ۔ اس طرح ۱۹۷۴ء میں ڈاکٹر برق پہلی بار اسمبلی میں منتخب ہوکر لکھنؤ پہنچے۔ آپ ایمرجنسی کے دوران ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء تک سیاسی قیدی کی حیثیت سے مرادآباد جیل میں بھی رہے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں نواب محمود اور شریعت اللہ کو شکست دے کر ڈاکٹر برق جنتا پارٹی سے دوسری بار اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء کے الیکشن میں ڈاکٹر برق اور نواب محمود کا پھر مقابلہ ہوا مگر اس مرتبہ دونوں کے درمیان جنگ کا فائدہ اٹھاکر کانگریس کے امیدوار شریعت اللہ منتخب ہوگئے۔ ۱۹۸۵ء میں ایک بار پھر ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے لوک دل پارٹی کا امیدوار بن کر نواب محمود کو شکست دی۔ ۱۹۸۹ء میں ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے جنتادل پارٹی سے الیکشن لڑا، اس مرتبہ نواب محمود کے بیٹے نواب اقبال مقابلہ میں تھے جس میں نواب اقبال کو شکست سے دوچار ہونا پڑا، اس طرح ڈاکٹر برق چوتھی مرتبہ MLA منتخب ہوکر لکھنؤ پہنچے۔ اس دوران ڈاکٹر برق وزیر (منسٹر) بھی بنائے گئے۔ ۱۹۹۱ء کے الیکشن میں ڈاکٹر برق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، نواب اقبال پہلی بار اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۳ کے انتخاب میں ڈاکٹر برق اور نواب اقبال میں سخت مقابلہ ہوا جس کا فائدہ بی جے پی پارٹی کے امیدوار ستیہ پرکاش گپتا کو ہوا۔ڈاکٹر برق دوسرے اور نواب اقبال تیسرے نمبر پر رہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے ڈاکٹر برق پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ۱۹۹۶ء میں ان کو مرادآباد پارلیمنٹ سیٹ سے امیدوار بنایا۔ ڈاکٹر برق نے سنبھل سے باہر پہلے ہی الیکشن میں کامیاب ہوکر ثابت کردیا کہ صرف سنبھل میں ہی نہیں بلکہ وہ ہندوستان کے ہر گوشے میں پہچانے جاتے ہیں۔غرضیکہ ۱۱ ویں لوک سبھا میں مرادآباد سیٹ سے جیت حاصل کرکے ڈاکٹر برق نے لکھنؤ کے بجائے ملک کی راجدھانی (دہلی) کی طرف رخ کیا۔ صرف دو سال بعد ۱۹۹۸ء میں دوبارہ الیکشن ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر مرادآباد سیٹ سے ڈاکٹر برق نے جیت حاصل کی۔ دونوں مرتبہ ڈاکٹر برق نے بی جے پی کے امیدواروں کو شکست دی۔ ۱۹۹۹ کے انتخاب میں مرادآباد سے ڈاکٹر برق کو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا، لیکن ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں جیتے ہوئے MP کو بڑے فرق سے شکست دے کر ۱۹۹۹ کی شکست کا بدلہ لیا۔ اس طرح ڈاکٹر برق تیسری مرتبہ MP منتخب ہوکر دہلی پہنچے۔ ۲۰۰۹ کے پارلیمنٹ کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی نے سنبھل سے نواب اقبال کو امیدوار بنادیا جس پر ڈاکٹر برق پارٹی سے ناراض ہوگئے اور BSP کا ٹکٹ حاصل کرکے عوام میں اپنی مقبولیت کی وجہ سے سنبھل سیٹ سے جیت حاصل کرکے ڈاکٹر برق نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ اس الیکشن میں نواب اقبال کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ ملائم سنگھ یادو کو بھی سبق مل گیا کہ ڈاکٹر برق جیسے عوامی لیڈر کی ناراضگی سے پارٹی کو صرف نقصان ہی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ سے کہ ۲۰۲۴ء کے الیکشن کے لئے عام انتخابات کا ڈنکا بجنے سے پہلے ہی جن ۱۶ امیدواروں کے نام کا اعلان پارٹی کی طرف سے کیا گیا تھا اس میں سب سے پہلا نام شیر سنبھل ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا ہے جو ۹۴ ویں سال کی عمر کے باوجود ایک نوجوان سے زیادہ قوم وملت کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر سماجوادی پارٹی نے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کو سنبھل پارلیمنٹ سیٹ سے میدان میں اتارا اور جیت بھی تقریباً طے ہوگئی تھی، ووٹوں کی گنتی آخری مرحلہ میں تھی کہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے ڈاکٹر برق مسجد چلے گئے، واپسی پر معلوم ہوا کہ بی جے پی امیدوار کو صرف پانچ ہزار ووٹوں سے کامیاب قرار دے دیا گیا ہے، جس پر ڈاکٹر برق اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج بھی درج کیا مگر الیکشن کمیشن کے آخری فیصلہ سے ڈاکٹر برق جیت کے قریب پہنچ کر بھی جیت حاصل نہ کرسکے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں ایس پی اور بی ایس پی کا ایک ساتھ الیکشن لڑنے کی وجہ سے سنبھل سیٹ سے ڈاکٹر برق نے ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے تقریباً پونے دو لاکھ ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ ۲۰۱۹ء کے ان عام انتخابات میں بی جے پی نے اترپردیش کی ۸۰ سیٹوں میں سے ۶۲ سیٹیں حاصل کی تھیں، جبکہ سماجوادی پارٹی کو صرف پانچ سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی جس میں ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کی بڑی کامیابی بھی شامل تھی۔ ڈاکٹر برق ۱۱ جولائی ۱۹۳۰ء کو سنبھل کے محلہ دیپاسرائے میں حافظ عبدالرحمن صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ کا نام ہاجرہ بیگم ہے۔ اہلیہ مرحومہ قریشہ بیگم ایک نیک خاتون تھیں جو ۲۰۱۷ء میں دارِ فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئیں۔ ڈاکٹر برق کے صرف ایک ہی بیٹے مولانا مملوک الرحمن برق ہیں، جو قرآن وحدیث وفقہ کی تعلیم حاصل کرکے احکام الٰہی وسنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مولانا مملوک الرحمن برق کی پانچ صاحبزادیاں ہیں، جبکہ ایک صاحبزادے ضیاء الرحمن برق ہیں جو دادا محترم کی سیاسی زندگی کی مکمل ترجمانی کررہے ہیں۔سنبھل سیٹ سے ۲۰۰۷ میں MLA کے پہلے ہی الیکشن میں ضیاء الرحمن برق نے ۶۰ ہزار ووٹ حاصل کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ دادا محترم کی سرپرستی میں بآسانی کامیابی کے منازل طے کرلیں گے۔اور یہی ہوا بھی کہ صرف ۳۴ سال کی عمر میں ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں شہر سنبھل سے تقریباً ۳۰ کیلومیٹر واقع ’’کندرکی‘‘ سیٹ سے تقریباً پچاس ہزاروں ووٹوں سے فتح حاصل کی۔ برق صاحب نے اپنی تمام پوتیوں اور پوتے ضیاء الرحمن برق کے نکاح کے فرائض اپنی سرپرستی میں انجام دلائے۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق ایک تعلیم یافتہ شخص تھے، انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے BA کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا شمار ہندوستان کے اُن اہم ملی سیاسی قائدین میں ہوتا ہے جو پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک حق بات کہنے میں گھبراتے نہیں تھے۔ ہر اہم مسئلہ میں اپنی رائے رکھتے تھے خواہ وہ حکمراں پارٹی یا خود اُن کی پارٹی کے مزاج کے خلاف ہو۔ پسماندہ طبقات خاص کر مسلم کمیونٹی کے مسائل پارلیمنٹ میں اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے۔ پارلیمنٹ میں وندے ماترم کے خلاف یہ کہہ کہ ہمیشہ آواز بلند کی کہ یہ اسلام اور ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔ برق صاحب کا یہ قول کہ مسلمان صرف اللہ سے ڈرتا ہے کسی اور سے نہیں، متعدد مرتبہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں چرچہ کا سبب بنا۔ طویل عمر کے باوجود آپ کی پارلیمنٹ میں حاضری تقریباً صد فیصد رہا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ اگست ۲۰۲۳ء کو لال قلعہ کے فصیل سے ہندوستان کے وزیر اعظم نے ڈاکٹر برق کی تعریف کی اور ۱۸ ستمبر ۲۰۲۳ء کو ایک بار پھر ملک کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں برق کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق غریبوں اور کمزوروں کی بات سنتے تھے حتی کہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد بھی کرتے تھے۔ اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برق صاحب نے طویل سیاسی زندگی کے باوجود کبھی رشوت نہیں لی۔ حکم واقتدار کے بعد جن گناہوں کے عموماً سیاسی لوگ شکار ہوجاتے ہیں ، برق صاحب نے شراب نوشی، جوا اور بے حیائی کے کاموں سے ہمیشہ اپنی ذات کو کوسوں دور رکھا، بلکہ آپ نے تقویٰ والی زندگی بسر کرکے پوری قوم وملت کو اپنے قول وعمل سے یہ دعوت دی کہ کبھی اپنے ایمان سے سودا نہ کرنا۔ دیہاتوں کی مساجد کی تعمیر میں آپ خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ آپ کی بے شمار خوبیوں میں سے دو اہم خوبیاں خاص طور پر قابل تقلید ہیں، ہر چھوٹے بڑے کے انتقال پر شرکت کے علاوہ شادی وغیرہ کے موقع پر ضرور حاضری دیتے تھے۔ ۹۴ ویں سال کی عمر میں بھی آپ چشمہ کے بغیر پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اخبار پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر برق صاحب کی انفرادی زندگی بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ عموماً آپ رات کو جلدی سونا پسند کرتے تھے اور رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوکر نمازِ تہجد ادا کرتے تھے۔ بیماری کے صرف آخری ایام کے علاوہ پانچوں نمازیں کھڑے ہوکر ہی ادا کرتے تھے۔گزشتہ سال رمضان کی مکمل تراویح قیام کی حالت میں ادا فرمائیں۔ نماز کی پابندی کے ساتھ رمضان کے سارے روزے رکھتے تھے اور وقتاً فوقتاً نفلی روزوں کا بھی اہتمام فرماتے تھے۔ کھانے میں انتہائی سادگی آپ کی امتیازی خوبی تھی، اور اسی سادگی میں آپ کی صحت کا راز مضمر تھا۔ ہاں کپڑے پہننے کا بڑا ذوق وشوق تھا کہ کوشش کرتے کہ جب بھی گھر سے باہر نکلیں تو ایسا محسوس ہو کہ شیر سنبھل آرہا ہے۔ ۱۵ اگست اور ۲۶ جنوری کو قومی تہوار کی طرح مناتے اور صبح سویرے اٹھ کر عید کی طرح کپڑے پہن کر سنبھل کے اہم مقامات پر جاکر پرچم کشائی میں شریک ہوتے۔ النور پبلک اسکول اور القلم پبلک اسکول کی انتظامیہ کو بڑا فخر حاصل ہے کہ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود ہمارے دونوں اداروں میں پرچم کشائی اور ہر اہم پروگرام میں شرکت کے لئے ضرور حاضری دیتے۔ ڈاکٹر برق ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ بہت عمدہ کلام پیش کیا کرتے تھے۔ مشاعروںکی محفل میں بڑی دلچسپی اور دلجوئی کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ برق آپ کا تخلص تھا جس کے معنی آسمانی بجلی کے ہیں۔ آپ کے تخلص’’ برق‘‘ کے معنی کا مکمل اثرآپ کی شخصیت پر موجود تھا، چنانچہ آپ کبھی باطل طاقتوں سے ڈرتے نہیں تھے۔ اسی وجہ سے قوم وملت خاص کر اہلیانِ سنبھل آپ کی ہر پکار پر لبیک کہنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ آپ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ممبر تھے۔ آپ نے بابری مسجد کی حفاظت کے لئے متعدد تحریکیں چلائیں۔ اللہ والوں کی قبر کی زیارت کے لئے پابندی سے جایا کرتے تھے۔ مولانا مظفر حسین کچھوچھوی ؒ سے آپ کا خاص تعلق تھا۔ ۲۰۰۴ میں حج کی ادائیگی بھی کی، اس کے علاوہ متعدد عمرے بھی کئے۔ ۱۹۹۸ء سے ۱۹۹۹ تک اور ۲۰۰۴ سے ۲۰۰۹ تک حج کمیٹی کے ممبر رہے۔ مختلف ممالک کے سفر کئے۔ صرف دو ماہ قبل ۱۷ دسمبر ۲۰۲۳ء کو آپ حیدرآباد بھی تشریف لے گئے تھے۔ ہندوستانی فلمی دنیا کے مشہور ایکٹر امیتابھ بچن نے بھی اپنے مشہور پروگرام (کون بنے کا کروڑپتی) میں ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کی شخصیت سے متعلق سوال پوچھ کر اپنے پروگرام کی رونق بڑھائی۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے اور انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں