از: محی الدین بشار رکن الدین شیکرے 16 جولائی 2020 کی شام بعد نماز عصر وہ غم ناک خبر موصول ہوئی جس سے اہلیان بھٹکل کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ،اس خبر نےپوری قوم کو ایک اور دفعہ یتیمی کا احساس دلایا، وہ خبر یہ تھی کہ […]
آہ قاضی شہر بھٹکل و صدر جامعہ مولانا اقبال صاحب ملا ندوی
از: محی الدین بشار رکن الدین شیکرے
16 جولائی 2020 کی شام بعد نماز عصر وہ غم ناک خبر موصول ہوئی جس سے اہلیان بھٹکل کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ،اس خبر نےپوری قوم کو ایک اور دفعہ یتیمی کا احساس دلایا، وہ خبر یہ تھی کہ استاذ الاساتذہ قاضی شہر بھٹکل حضرت مولانا اقبال صاحب ملا ندوی دارِ فانی سے کوچ کرگئے انا للہ وانا الیہ راجعون مولانا کئی دنوں سے علیل تھے، وفات کے دن مولانا کی کورونا رپورٹ منفی آنے کی وجہ سے لوگ سکون کی سانس لے ہی رہے تھے کہ یہ المناک خبر موصول ہوئی اللھم اغفرلہ وارحمہ یوں تو دنیا میں روزانہ کئی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کئی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں لیکن چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں ، مولانا کی شخصیت بھی انہی میں سے ایک تھی جن کو اہلیان بھٹکل کبھی بھلا نہیں پائیں گے کئی سال قبل شہر کی جامع مسجد میں جماعت المسلمین بھٹکل کی جانب سے ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا اس وقت کیمرہ کا بھی استعمال اس غرض سے کیا جا رہا تھا کہ مسجد بھرنے کی صورت میں باہر موجود مجمع کو اسکرین پر جلسہ دکھایا جاسکے لیکن جب قاضی صاحب آئے اور مسجد میں کیمرے کو دیکھا تو ناراضگی کا اظہار کیا اور واپس چلے گئے اور فرمایا اگر کیمرہ ہو گا تو میں نہیں آؤں گا، اس وقت راقم نے ان سے صحیح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے سوچا کہ یہ بڑے میاں زمانے سے پیچھے چل رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے دور ہیں لیکن بفضل اللہ امسال راقم کو جب مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا تومیں نے دیکھا کہ مولانا ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہت فا ئق تھےاور اس سے کس طرح اسلام کی خدمت واشاعت کی جائے اس سلسلے میں کوشاں رہتے تھے ، مولانا کے لیپ ٹاپ میں جتنے نادر سافٹ ویئر اور پی ڈی ایف کتابیں تھیں شاید ہی بھٹکل میں کسی اور کے پاس ہوں،کیمرے کا مسئلہ چونکہ مختلف فیہ ہے تو موصوف دلائل کی بنیاد پر اس سے پرہیز کرتے تھے یہ میری خوش قسمتی تھی کہ امسال مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ ساتھیوں کو مولانا کے گھنٹے کا بڑا انتظار رہتا تھا مولانا دوران درس مختلف چٹکلے پرانے واقعات اور علمی نکات وغیرہ بیان کرتے اور فرماتے اسی وجہ سے طلبہ ہمارے گھنٹے کا انتظار کرتے ہیں،مولانا کا انداز تدریس بے تکلفانہ تھا، طلبہ سے گھل مل جاتے تھے خاص طور پر جنائز وغیرہ کے مسائل میں ایک ساتھی کو میت کی شکل دیتے اور پھر تمام چیزیں عملی طور پر سکھاتے تھے، اس دن کے مناظر آج بھی ذہن ودماغ کے دریچوں میں محفوظ ہیں فقہ پر کامل عبور کے ساتھ ساتھ مولانا حدیث نبوی میں عالی سند کے بھی حامل تھے اس طور پر کے مولانا اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے درمیان صرف چند واسطوں ہی کا پل تھا چند ماہ قبل جب درجے کے چند ساتھیوں نے مولانا سے اجازت حدیث کی سند حاصل کی توراقم کو بھی اس کا شوق پیدا ہوا لیکن لوک ڈاؤن کی وجہ سے اس کا موقع نہ مل سکا رمضان کے بعد جب مولانا کے گھر حاضری کا موقع ملا تو راقم نے مولانا سے اس خواہش کا اظہار کیا تو مولانا نے فرمایا کہ سندیں ختم ہوگئی ہیں جب دوبارہ پرنٹ ہو کر آئیں گی تب چند اور ساتھیوں کے ساتھ آنا میں اجازتِ حدیث مرحمت کروں گا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا آہ! تقدیر کا لکھا کون بدل سکتا ہے مولانا میانہ قد تھے سنت نبوی سے معمور چہرہ ،سر پر پگڑی ، ہاتھ میں عصا ، پر گوشت بدن اور متواضع شخصیت کے حامل تھے مولانا فقہ شافعی کی باریکیوں پر بھی عبور رکھتے تھے اور اس میدان میں اپنی مثال آپ تھے علم الھیئۃ ہو یا علم الفلکیات ان علوم میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا اور ہندوستان گیر پیمانے پر آپ ان علوم میں دسترس رکھنے والی شخصیات میں سے تھے آپ نے تقریبا گیارہ سال شہر بھٹکل کی مسند قضاءت کو زینت بخشی اور اس کا پورا پورا حق ادا کیا ،مولانا اصول کے پابند اور وقت کا بڑا خیال رکھنے والے تھے ، خودداری حق گوئی اور بے باکی مولانا کی خاص پہچان تھی ،شہر بھٹکل کو اسلامی رنگ دینے اور بدعات و خرافات سے پاک کرنے میں آپ کا بڑا کردار ہے اللہ تعالی نے آپ کو ذہانت کے ساتھ ساتھ فراست بھی دی تھی اور قائدانہ صلاحیت بھی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،سادگی اور تواضع میں بھی مولانا اپنی مثال آپ تھے۔ آج مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کے اچھے اخلاق، صفات اور خوبیاں ہم زندوں کے دل و دماغ میں زندہ ہیں جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے تمھاری نیکیاں زندہ تمہاری خوبیاں باقی تمہیں کہتا ہے مردہ کون تم زندوں میں زندہ ہو مولانا کی نمازہ جنازہ شہر میں دو جگہوں پر ادا کی گئی اور دونوں جگہوں پر حاضر متعلقین و محبین دیکھ کر بے اختیار زبان پر یہ شعر آگیا موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے آج وہ چلے گئے کل ہماری باری ہے ہر مرنے والا اس دنیا کی بےثباتی اور فنا کا پیغام دے کر جاتا ہے اور قرآن کی زبانی یہ کہتا ہے کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ قوم و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کے تمام کاموں کو شرف قبولیت سے نوازے رفع درجات کا سبب بنائے اور اپنی شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں