علم وعمل اور حق گوئی وبے باکی کانیر تاباں رخصت ہوا
مفتی سید ابراہیم حسامی قاسمیؔ
استاذجامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد و ناظم مدرسہ تعلیم القرآن بورابنڈہ
علمائے ربانین ٖکا سوئے آخرت سفر تیز ی کے ساتھ جاری ہے،ہر تھوڑے تھوڑے وفقہ سے ایک بڑی علمی وعملی او رصاحب فیضان شخصیت داغ مفارقت دئیے جارہی ہے،21/ربیع الثانی/1442ھ مطابق7/ ڈسمبر/2020ء دوشبنہ کے روز جب یہ آتش فشاں خبرپھیل گئی تو بدن کا رواں رواں کھڑا ہوگیا کہ علم وعمل کا ایک نیرتاباں،محبوب مومناں، عالم یزداں،جبین خنداں، علوم شریعت کا بحربیکراں،نبی کا ثناخواں،بہترین تفسیر داں،محدث درخشاں، علم الہی کا رمزداں، ملت جس پر تھی نازاں و فرحاں، احقاق حق وبطال باطل میں نمایاں،قافلہ علم وعمل کا میرکارواں، جرأت وہمت کا نشاں، جامعہ احسن العلوم کراچی کا روح رواں، کئی اداروں وتنظیموں کا نگراں، حضرت مولانا مفتی محمد زرولی خاں صاحب ؒکا انتقال پر ملال ہوگیا۔
نمایاں خصوصیات
یقینا مولانا زرولی خاں صاحبؒ ایک عالم بے بدل اور شیخ بافضل تھے، ہزاروں لوگ ان کے ارادت منداورلاکھوں لوگ ان کے عقیدت مند تھے،وہ سچائی پسند تھے،وہ کسی شخصیت کے ادا بند نہیں تھے؛ بلکہ فیصلہئ الہی کے رضامند تھے،معرفت الہی کے ایک قَند تھے اورعلامہ بنوری ؒ کے روحانی فرزند تھے، وہ ایک بڑے باکمال انسان تھے، انہوں نے اپنی زندگی صداقت وامانت، ریاضت وعبادت اور علمی مشاغل و مصروفیت میں گزاردی،دنیا اور اہل دنیا سے بے انتہا مستغنی تھے، وہ صابر وشاکر اور بڑے مدبر ومفکر تھے۔
علم وفضل، ذکاوت وذہانت، مطالعہکی وسعت،حاضر دماغی ودور اندیشی، قوت بیانی و قوت استدلالی، زہد وتقوی، عبادت وریاضت، سیاسی بصیرت اور نکتہ آفرینی،یہ ان کی زندگی کے خاص نقاط تھے جن پر سیکڑوں صفحے لکھے جاسکتے ہیں، انہوں نے ایک عالم وفاضل، لائق مفتی، سنجیدہ طبیعت، قابل انسان، محقق ومدبر اور ایک شیوابیان خطیب کی حیثیت سے اپنے معاصرین پر زبردست فوقیت حاصل کرلی تھی،ان کے ملک وبیرون ملک میں ہزاروں شاگرد اور لاکھوں عقیدت مندموجود ہیں۔
پیدائش، تعلیم و فراغت
مفتی زرولی خاں صاحبؒ1953/55میں جہانگیرہ صوابی خیبر پختونخواہ پاکستان میں پیدا ہوئے،قرآن کریم کی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی،عالمیت وفضیلت یگانہئ روزگار شخصیات سے حاصل کی، جن میں علامہ یوسف بنوریؒ، علامہ عبداللہ کاکا خیلؒ،شیخ عبدالحنانؒ، شیخ لطف الرحمنؒ، مولانا احمدالرحمنؒ وغیرھم شامل ہیں،ان کی فراغت بنوری ٹاؤن سے 1977/78ء میں ہوئی۔
جامعہ عربیہ احسن العلوم کا قیام
فراغت کے بعد ہی 1398ھ میں ایک دینی ادارہ کی بنیاد جامعہ عربیہ احسن العلوم کراچی کے نام سے ڈالی، جو بڑی قلیل مدت میں فوز طویل حاصل کر گیا اور علمی حلقوں میں اپنی نمایاں مقبولیت کی چھاپ بٹھادی، تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ چھوٹا سا دینی ادارہ ایک شجرہ ئ طوبیٰ اور ایک بڑے جامعہ کی شکل اختیار کرگیا اور 1988ء سے وہاں پر باضابطہ درس نظامی کے تحت دورہئ حدیث شریف کا آغازہوگیا اور اس ادارہ سے سند فراغت حاصل کرنے اور بالخصوص مفتی زرولی خاں صاحبؒ سے استفادہ کرنے والوں کا تانتا بندھنا شروع ہوگیا، ہزاروں تشنگان علوم دین نے اس میکدہئ علم وعمل سے جام طہور نوش کیا اورنہ صرف اپنی علمی پیاس بجھائی؛ بلکہ اس درجہ سیراب ہوئے کہ دوسروں کے لیے بھی پیمانے بھر لے گئے اور ہزاروں علم دین کی پیاس رکھنے والوں کی سیرابی کا سامان کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔
پورے ملک میں تفسیر کا ایک نشاں
مفتی زرولی خاں صاحب ؒ کمال درجہ کے مفسر تھے، فن تفسیر میں ان کو یدطولیٰ حاصل تھا، وہ تفسیرکی فنی مہارت میں جدا تھے، ان کا انداز بڑا نرالا تھا، سب سے الگ اور اچھوتے اندازکی تفسیر کرتے اور ایسے نکات درآمد کرتے کہ سامع اور طالب عش عش کرنے لگ جائیں، جو ایک مرتبہ ان کے درس تفسیر میں بیٹھ جاتا توہمیشہ ان کی تفسیر کے رنگ و آہنگ کا دیوانہ ہوجاتا، گویا وہ ایک تفسیر کا جادوئی کرشمہ اپنے جلو میں رکھتے تھے، اپنے ادارہ کی تعطیلات میں دورہئ تفسیر قرآن کا اہتمام فرماتے، اس دورہئ تفسیر کی پور ے ملک میں ایک دھوم تھی، سیکڑوں متلاشیان حق و ہاں پہونچتے اور اپنی تسلی کا سامان کرتے، کوئی کوئی تو ہر مرتبہ شریک ہوتا اوراس کا اشتیاق بڑھتا ہی چلا جاتا، ہر کوئی باربار درس میں حا ضری کی تمنالیے رہتا، ایک عجیب کیف ان کے درس کاہوتا تھااور قرآنی علوم پر اطمینان کی کیفیت حاصل ہوتی چلی جاتی اور ایمان بالقرآن میں اضافہ تو ہر کوئی محسوس کرکے رہتا۔
علم حدیث کا مقبول استاذ ومنفرد شارح
مفتی زرولی خاں صاحبؒ بڑے درجہ کے محدث بھی تھے، انہوں نے درس نظامی کے تحت اکثر کتابوں کی تدریس کی اور فن حدیث وتفسیر کو اپنا شغل خاص بنایا اور درس نظامی کے تحت رائج تمام کتب حدیث کی تدریس ان کے حصہ میں آئی، صحاح کو ان کو خوب پڑھایا اور اپنے ہی ادارہ جامعہ احسن العلوم کے وہ شیخ الحدیث بھی تھے، وہ علم حدیث کے فن سے اچھی طرح واقف کار تھے، انہوں نے احادیث رسول اللہ کی منفرد انداز سے توضیح وتشریح کی ہے، وہ رٹی رٹائی تقاریر کے عادی نہیں تھے، ہر حدیث کو ایک نئے اور البیلے انداز سے سمجھانے کا ہنر رکھتے تھے، احادیث رسولﷺ سے استنباط کی بڑی ماہرانہ صلاحیت رکھتے تھے، اپنی تحقیق پر ان کو رسوخ و اعتماد حاصل تھا، شک وتردد سے گریزاں تھے،تقریباً تین دہائیاں انہوں نے مسند حدیث کو زینت بخشی ہے اور ان کے درس حدیث کو کمال درجہ کی مقبولیت حاصل تھی، طلبہ کشاں کشاں چلے آتے اور بخاری شریف کا ان سے درس حاصل کرتے،ان کے درس میں ایک بلا کی تاثیر اور مقناطیسی کیفیت تھی، طلبہ کبھی بیزار نہیں ہوتے، ہر درس ایک عالمی اور تقابلی جائزہ ہوا کرتا تھا، ان کے درس میں ہر اچھے کی اچھائی اور غلط کام کرنے والی کی غلطی نکھر کر سامنے آجاتی اور وہ کھل کر اپنے طلبہ کے سامنے اس کو بیان کرنے میں عار بھی محسوس نہیں کرتے تھے۔
علم وتحقیق میں مرکزی مقام
مفتی زرولی خاں صاحبؒ ایک عظیم محقق بھی تھے، ان کی تحقیق پر ان کو بھی اعتماد تھا اور اکابر علماء کو بھی، اگر چہ ان کے کچھ تفردات تھے اور کچھ مسائل میں عموم وجمہور سے ہٹ کر الگ رائے بھی رکھتے تھے؛ مگر ان کے اہل حق و اہل سنت ہونے میں کسی کو کوئی اشکال نہیں اور ان کے مخلص ہونے میں سب کو یقین کامل حاصل تھا، اس لیے ان کے تفردات پر زیادہ نکیر کرنے کے بجائے علمی جواب دے کر نظر انداز کردیا جاتا تھا؛ مگر وہ اپنی رائے پر بھر پور اعتمادرکھتے اور اس کو پورے رسوخ کے ساتھ بیان کرتے اور قوت بیانی میں بھی بے بدل ہونے کی بناء پر اپنی رائے کو بڑے زور اور قوت سے بیان کرتے اور علمی دلائل سے اس کو ثابت بھی کرتے۔
حق گوئی وبے باکی کا ایک جلی عنوان
حق پسندی وسچ گوئی ان کے مزاج کا لازمہ تھی،اظہار حق کی جرأت ان کے رگ وریشہ میں پیوست تھی، ان کی حق گوئی و صاف بیانی کی کئی مثالیں موجود ہیں، جس بات کوانہوں نے کو سچ اور حق سمجھا اس کے اظہار میں اپنے اور بیگانہ کی کوئی پرواہ نہیں کی، اظہار حق پر دوست واحباب بگڑ گئے، نیاز مندوں کوگرانی ہوئی، ساتھیوں کے دل غبار آلود ہوئے؛ مگر اظہار حق کے لیے مفتی صاحب نے سب کچھ گوارا کر لیا، کبھی احقاق حق سے ایک قدم بھی خود کو پیچھے نہیں ہٹایا،کسی کی شہرت یا کسی کی دولت ان کے اظہار حق میں مانع بننے کی جرأت نہ کرسکی،وہ کسی پر تنقید کرتے تو بڑی مضبوط اور کھل کر کرتے اور کسی کی اچھائی بیان کرنا ہوتو بے دریغ بیان کرتے، ان کے پاس ملمع سازی کا کوئی تصور نہیں تھااور نہ ہی چاپلوسی و مداہنت کا، وہ صاف گو اور صاف عمل تھے، جو بیان کرتے وہی عمل سے ظاہر کرتے، اپنے کسی دوست و تعلق بر دار میں بھی کوئی برائی محسوس کرتے تو فوراً ٹوک دیتے، عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ٹوکنے کا کوئی برا نہیں مانتا تھا؛ بلکہ ان کی کڑوی کسیلی کو لوگ بڑی محبت سے سنتے اور اس پر توجہ بھی کرتے۔
خطابت کی نمایاں شان
مولانا زرولی خاں صاحب ؒ ایک خاص مزاج کے خطیب تھے، بڑے کہنہ مشق واعظ تھے، اپنے خطاب کو کتاب وسنت سے آراستہ کرتے، احوال زمانہ کی نظیریں خوب بیان کرتے، عمومی غلطیوں اور دینی غلط فہمیوں کو خوب کھول کر بیان کرتے، ایسی بعض کوتاہیاں جو عموم بلویٰ کی شکل اختیار کر گئی ہیں لوگ اس پر نکیر کرنا نہیں چاہتے، مفتی صاحب ایک خاص انداز سے ان کو بیان کرتے اور ان کے مفاسد کا تذکرہ بڑے اچھوتے انداز میں کرتے، ان کے خطاب ووعظ کا ایک نرالا انداز تھا، محسوس کرنا مشکل ہوتا کہ وہ درس دے رہے ہیں یا شب جمعہ کی مجلس سے خطاب کر رہے ہیں یا خطبہئ جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں، بیان کا ایک تسلسل ہوتا تھا، اور اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں کرتے، کبھی کبھی اشعار کو بڑے لطف لے کرپڑھتے اور کبھی ترنم میں پورے سوز کے ساتھ اشعار پڑھتے اور ان کا ترجمہ و تشریح کرتے، ان کی آواز میں بلا کی چاشنی اور وزن تھا، ایک کھنچاؤ کی کیفیت تھی، ایک درد تھا اور ایک اندورن کا احساس تھا جو ہر کسی کو ان کی جانب مائل کردیتا، ان کے بیانات کے چھوٹے چھوٹے تراشے خوب ارسال کئے جاتے تھے، اور اس میں اصلاح وتبدیلی کی بڑی عمدہ اور کامیاب باتیں ہوتی تھیں، وہ پشتو زبان میں بھی تقریر کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی اس زبان میں اشعار پڑھا کرتے تھے اور سامعین کی ضرورت کی بات کرتے، علمی بات کو بھی بڑی سادگی کے ساتھ بیا ن کرتے اور سامع کے مزاج کو سمجھ کر گفتگو کرنے کا بڑا ملکہ اپنے اندر رکھتے تھے۔
تصنیف وتالیف میں منفرد مقام
مولانا زرولی خاں صاحبؒ ایک صاحب طرز ادیب ومصنف بھی تھے، ان کی کئی علمی کاوشیں منظر عام آچکی ہیں، ان کے مقالات کے مجموعے چھپ چکے ہیں، ان کی تقاریر کو محفوظ کرکے بالترتیب شائع بھی کیا گیا، کئی علمی و فقہی موضوعات پر ان کی اپنی الگ رائے پر مشتمل تحقیقی تصانیف بھی منظر عام پر آئی ہیں اور اصلاحی عناوین پر بھی ان کی کتابیں موجود ہیں۔
فقاہت کا امام
مفتی زرولی خاں صاحبؒ عظیم فقیہ بھی تھے، ان کی فقاہت پر سب کو ناز تھا، ان کی فقیہانہ شان سے سب متعارف تھے،وہ فقہی سیمناروں کی ایک جدا شان ہوا کرتے تھے، ان کے فقہی مقالات کو نظر تحسین حاصل تھی، انہوں نے فقہ وفتاوی کا خوب کام کیا تھا، ان کے کئی فتاوی مرتب بھی ہوچکے تھے، ان کی فتوی نویسی پر علماء اعتماد کرتے تھے، اگر چہ کچھ کچھ مسائل میں وہ جمہور سے بالکل مخالف رائے رکھتے تھے؛ مگر تحقیق بڑی عمدہ پیش کرتے تھے، آپ حنفیت کے ترجمان تھے، فرق ضالہ کا خوب رد کرتے تھے۔
پژمردہ قلوب کی تازگی
مفتی زرولی خاں صاحب ؒاصلاح وتربیت کا بھی بڑاکام کرتے تھے، ہزاروں لوگ آپ سے وابستہ تھے، آپ کے حلقہئ ارادت سے کافی لوگ وابستہ تھے اور اپنی روحانیت کو جلا بخشتے تھے، ہر شب جمعہ آپ کی اصلاحی نشست ہوتی تھی، جمعہ سے قبل بھی خطاب فرماتے تھے، آپ اپنے ادارہ کی مسجد میں خود امامت فرماتے تھے۔
وفات حسرت آیات
اتنی ساری خصوصیات و کمالات کا ایک جامع انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں سے امت کی خوب خدمت اور دین متین کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ انجام دے کر 21/ربیع الثانی/1442ھ مطابق7/ڈسمبر/2020ء کوہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گیا اور 8ڈسمبر کوبوقت ظہر یہ علم وتحقیق کا نیرتاباں عالم فانی سے عالم باقی کی طرف روانہ ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
09دسمبر ۲۰۲۰
جواب دیں