آہ! مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ
از: محمد نصر الله ندوی
آج جمعہ کی نماز کے بعد جیسے ہی واٹس ایپ کھولا،تو کلیجہ دھک سے ہوگیا،ہر گروپ پر انا للہ۔۔ کی صدا کسی اندوہناک خبر کی طرف اشارہ کر رہی تھی،غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ مادرعلمی کے مؤقر استاذ مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی اس دارفانی سے کوچ کر گئے،مولانا ایک عرصہ سے بیمار تھے،مسلسل علاج کیلئے دلی میں اپنے فرزند براردر عزیز عطاء الرحمن ندوی کے یہاں قیام پذیر تھے،مرض جان لیوا تھا اور علاج بہت ہی گسل تھا،تا ہم مولانا صبر ورضا کے پیکر بنے ہوئے تکوینی نظام کے سہارے زندگی گزار رہے تھے،لیکن آخر کار موت کا پروانہ آگیا اور تقدیر تدبیر پر غالب آکر رہی اور مولانا سفر آخرت پر روانہ ہو گئے
مولانا کی پوری زندگی تعلیم وتعلم سے عبارت تھی،جب تک جسم میں طاقت رہی،تعلیمی سلسلہ جاری رکھا،ان کے بے شمار تلامذہ ہیں،جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں،کتنے طلبہ کو انہوں نے قلم پکڑنا سکھایا،عربی کی نوک وپلک درست کرائی،انگریزی کے رموز سکھائے،سنسکرت کے آداب بتائے،ہندی کی باریکیاں سمجھائیں،اصول فقہ کی گتھیاں سلجھائیں،فرنچ سے واقف کرایا،اردو کے قواعد وضوابط سے آگاہ کیا،صرف ونحو کے مسائل حل کئے،انشاء وادب کا طریقہ سمجھایا،تفسیر اور فقہ کا ہنر سکھایا،غرض وہ علوم وفنون کا ایک دریا تھے،جس سے متعدد نہریں نکلتی ہیں اور تشنگان علم اپنے اپنے ذوق کے مطابق سیرابی حاصل کرتے ہیں،وہ زندگی کے آخری لمحہ تک،جب تک ندوہ میں رہے علم وفن کی سوغات لٹاتے رہے،اور طالبان علوم نبوت کو فیضیاب کرتے رہے
مولانا ایک بے مثال معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ،ماہر تعلیم بھی تھے،تعلیم کے میدان میں ان کے نت نئے تجربات تھے،وہ مروجہ نظام تعلیم کے خلاف تھے کہ،اس میں طلبہ کا بہت وقت لگتا ہے،اور حاصل بہت کم ہوتا ہے،تعلیمی نظام کے بارے میں ان کا ایک ویژن تھا،ان کا خیال تھا کہ طلبہ کو ایک ہی فن کی متعدد کتاب بار بار پڑھانے کے بجائے،ان کو فن کی بنیادی تعلیم دی جائے اور کسی کتاب کا پابند نہ بنایا جائے،اس طرح مختصر وقت میں وہ کئی فنون میں مہارت حاصل کرتے ہیں،اور کم وقت میں بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں،اپنے مخصوص ویژن کے مطابق وہ ایک مثالی مدرسہ قائم کرنے کیلئے کوشاں تھے،لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے منصوبے کو زمین پر نہیں اتار سکے،تاہم تعلیمی میدان میں کام کرنے والے افراد کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے،اور لوگ ان کے نظریات سے خوب فائدہ اٹھاتے تھے،افسوس کہ وہ چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا،جس کی لو سے نئے تعلیمی میدان میں روشنی تھی،اور جس کے دم قدم سے تعلیم وتربیت کے چمن میں بہار تھی،جو نئی نسل کیلئے ایک آئیڈیل استاذ تھا اور جس کے منہج تعلیم سے ایک زمانہ مستفید ہو رہا تھا،وہ ایک روایتی معلم نہ تھے،بلکہ وہ تعلیم کے میدان میں نئے نئے طریقے آزماتے اور طلبہ کو زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے کیلئے تیار کرتے،دن رات محنت کرتے اور جب تک اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوجاتے،اس وقت کوشش جاری رکھتے
ان کی زندگی سادگی اور تواضع کا نمونہ تھی،ایسی سادگی کہ بہت سے لوگ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ،یہ ندوہ کے اتنے قابل استاد ہیں،ان کی سادگی ،ان کی شخصیت کیلئے حجاب بن گئی،اور ان کی ذات دنیا کے سامنے اس طرح نکھر کر نہیں آسکی جس طرح آنا چاہئے اور ان کو وہ مقام ومرتبہ نہیں مل سکا،جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے،یقینا یہ ہمارے دور کا المیہ ہے،کہ ہم عام طور پر کسی بھی شخصیت کا مقام ،اس کی وضع قطع کو دیکھ طے کرتے ہیں،اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ،گدڑی میں بھی لال چھپا ہوتا ہے
مولانا علم وفن کے بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ، ایک عظیم انسان بھی تھے،ان کے اندر انسانیت کی اعلی قدریں موجود تھیں،مزاج میں نرمی تھی،دوسروں کیلئے خیر خواہی کا جذبہ تھا،چھوٹوں پر شفیق تھے،صبر وقناعت کے پیکر تھے،بہت سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے،مشکل حالات کے باوجود،صبر ورضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے،مہمانوں کا اکرام فرماتے اور ان کی دلجوئی کی ہر ممکن کوشش کرتے،عفو ودرگزر سے کام لیتے،اپنے شاگردوں کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کامیابی پر بے پناہ مسرت کا اظہار کرتے، ان کے قلب میں فراخی تھی اور اخلاق کریمانہ کے حامل تھے،ان کا انتقال علمی دنیا کا ایک بڑا خسارہ ہے،رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔ آمین
جواب دیں