مادر وطن اور اس کے نام نہاد رکھوالوں نے جہاں ضرور ت محسوس کی وہاں ریاستی پولیسوں اور پی اے سی اہلکارو ں کے ذریعے اندھا دھند گولیاں چلوا دیں اورکروڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہاں گجرات ،مالی گاؤں ،جے پور ، بھیونڈی اور مظفر نگر جیسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں ٹارگیٹ کر کے اقلیتی فرقے کے نوجوانوں ،بچوں ،بوڑھوں اورعورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور اس طرح یہ وارداتیں انجام دی گئیں کہ قاتلوں کا سراغ تک نہ لگ سکا ،یا اگر لگا بھی تو انھیں ’’بری ‘‘کر دیا گیا۔اسی طرح کا ایک واقعے کا فیصلہ ان دنوں مسلمانان ہند پر ایک بجلی بن کر گر ا ہے۔وہ واقعہ ۲۸؍ سال پرانا واقعہ ہے اور اتنا دردناک کہ آج بھی اس کی زد میں آنے والے لوگ کانپ اٹھتے ہیں ۔
وہ۲۱؍مئی ۱۹۸۷ء کی ایک تاریک رات تھی جسے مزید تاریک کر نے کے لیے اتر پردیش پی اے سی کے جوانوں نے مزید اندھیرا کر دیا اور اس اندھیرے میں ۴۲؍مسلم نوجوانوں کو لائن سے لگا کر گولیوں سے بھون ڈالا اور ان کی لاشوں کوقریب ہی واقع گنگ نہر میں ڈال دیا گیا ۔
پولیس اور اس وقت کی کانگریس حکومت کے لیے یہ بہت آسان سی بات تھی لیکن مسلمانان ہند کے لیے کسی قیامت سے ہرگز کم نہ تھی،چنانچہ انھوں نے ’’عدالت پربھروسہ ‘‘کر کے’’انصاف کی گہار ‘‘لگائی ، عدالت نے عام معاملوں کی طرح اس معاملے کو اپنے کھاتے میں درج کیا اور پھر عدالت در عدالت ہوتے ہوئے جب یہ معاملہ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ پہنچا تو اس نے جو فیصلہ سنایا اس کی کسی کو توقع نہیں تھی،اس نے ۲۸؍سا ل کے طویل انتظار اور دیر کے بعد اندھیر مچا دی ۔اس نے ۲۸؍ سال سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے متاثرین کے اہل خانہ اور رشتے داروں کے سینوں میں سلاخیں ٹھونک دیں ….’’معزز ‘‘عدالت نے تمام ملزمین اور پی اے سی اہلکاروں کویک قلم بری کر دیا اور ملک کے مسلمانوں کے گلوں پر چھری چلا دی۔
کورٹ نے سیدھے اور دو ٹوک لفظوں میں کہا :’’ثبوت نہ کافی ہیں اس لیے ملزمین کے خلاف قصور ثابت نہیں ہوتا اور ان کو باعزت بری کیا جاتا ہے‘‘….گویا اب عدالت انصاف نہیں کر ے گی،غلط سلط گواہی جو کچھ اسے بتائے گی اس پر ہی وہ اپنا ہٹلری حکم سنائے گی ….افسوس ہے ایسی عدالتوں پر اور افسوس ہے ایسے قانون پر جس کی نظر میں’’ آہ‘‘ کی نہیں ’’واہ‘‘ کی اہمیت ہے۔
آہ!ہاشم پورہ…..ہم شرمندہ ہیں ،آہ شہیدان ہاشم پورہ ،ہم مجبور اور معذور ہیں ،ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا ،ہمیں ہرگز ایسی امید نہ تھی …ہمیں تو یہ امید تھی کہ تمھاری سرزمین پر گر نے والا مظلوموں کا خون ضرور رنگ لائے گا …..مگرتمام آرزوئیں دم توڑ گئیں اور اب کہنا پڑ رہا ہے….
قانون دے رہا ہے گواہی پہ فیصلہ
انصاف رو پڑا بڑی بے بسی کے ساتھ
اور کہاں کہاں انصاف کو نہ رونا پڑا ؟بلکہ میں تو کہوں گا کہ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں انصاف کی جیت ہوئی ہو،بھاگلپور،مرادآباد،موانہ ،ملیانہ،بریلی،فیض آباد،حیدر آباد ،اجمیر ،آگرہ،سہارنپور کتنی جگہیں ابھی ایسی ہیں جن کی فائلیں برسوں بعدآج بھی عدالتوں کے سرد خانوں میں سڑ رہی ہیں اور کتنے معاملات ایسے ہیں جن کا فیصلہ آیا تو ایسا آیاکہ ہم سو جانیں دیدیں مگر ایسا فیصلہ نہ لیں ۔بابری مسجد کا فیصلہ’’ آستھا ‘‘کی بنیادپر آیا جیسے مسلمان اپنی عبادت گاہوں سے عقیدت نہ رکھتے ہوں اور یہ حق صرف ہندوؤں کو ہی حاصل ہو….مگر مسجد تین ٹکڑوں میں بٹ گئی ۔عسکری مسجد گر دوارہ بننے والی ہے اور قلندری مسجد عدالت کے حکم سے شہید کرکے ’’جندل گروپ‘‘کے حوالے کر دی گئی ۔
آہ ہاشم پورہ!ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی تاریخ ناانصافی اورخون سے لکھی گئی ہے اور سرزمین ہند نے مسلمانوں کا لہو ہی سب سے زیادہ پیا ہے۔اس لیے صبر کر صبر کر ….اسی کی تلقین ہمیں گزشتہ ۶۹؍برسو ں سے کی جارہی ہے ….میں بھی تمھیں اسی کی تلقین کروں گا کہ کیوں کہ عدالت کے آگے بڑے بڑے سورما احتراماًسر جھکا دیتے ہیں اور اس کا ہر فرمان ،انھیں تسلیم ہوتا ہے ،چاہے وہ ان کے مذہب ،دھرم،روایات و اقدار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔عدالت کا فرمان ہندوستان میں وحی الٰہی سے کم نہیں ماناجاتا اور عدالتیں شیطانوں سے بھری پڑی ہیں۔
ہاشم پورہ !کیاتمھیں پتا ہے کہ عدالت نے کیا سوچ کر یہ فیصلہ دیا ہے ؟شایدنہ ہو، لہٰذا غور سے سنو!
عدالت کا کہنا ہے کہ ان ۴۲؍مسلمانوں کو پی اے سی نہیں مارا بلکہ وہ خود ہی مرگئے اور الزام معصوم پی اے سی کے سرڈال دیا۔چوں کہ پی اے سی عوامی خدمت کے لیے ہوتی ہے لہٰذا اس کی گر دن پر الزام رکھنا آسان تھا مگر عدالت اس معاملے کو دیکھ رہی تھی ،اس نے اس معاملے میں دیر ضرور کی لیکن اندھیر نہیں کی اور اپنے تمام جیالوں کو بچا لیا….شاید یہ بات تمھارے گلے سے نہ اترے،کسی کے بھی نہیں اترے گی مگر اندھا قانون اور اپاہج عدالت سارے زمانے میں یہی باور کرارہی ہے۔آہ ہاشم پورہ تو ان سے امید انصاف کر ے ہے ،جو انصاف کی حقیقت تک سے واقف نہیں ہیں ،مگر اس میں تیرا کیا قصور ؟جس نے تجھے قتل کیا ہے وہی تیرا مصنف بن کر آیا ہے تو تجھے اس سے فریاد کرنی ہیپڑے گی،یہی دستور ہے اور یہی رواج عام ہے۔
ہاشم پورہ! اب کچھ مسلمانوں کے نام نہاد ہمدردوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے کہ وہ اس معاملے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک لے جائیں گے اور عدالت عالیہ سے انصاف کی گہار لگائیں گے ،حالاں کہ پہلے ان کو کسی نے منع نہیں کیا تھا،وہ پہلے بھی اس کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ لے جاسکتے تھے مگر ان کے کمیشن کا کیا ہوتا ؟اور دوسری بات یہ کہ اگر یہ معاملہ مذکورہ اور مجوزہ عدالتوں میں چلا گیا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہاں سے انصاف ضرور مل جائے گا ۔اولین تو عدالت عالیہ کے مہنگے مقدمے اور پیروی کے خوف سے کسی کی ہمت نہیں ہو گی دوم اگر کسی جیالے نے ہمت کر بھی لی تو سپریم کورٹ سے امید انصاف ناممکن ہے ،وہ تو الٹا تمھارے مظلومین کو ان کی قبروں سے اکھاڑ کر پھانسی پر لٹکا دیگی ۔اس نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے لہٰذا اس کا حال قابل اعتبار نہیں ہے۔
جواب دیں