آگ بجھی ہوئی نہ جان آگ دبی ہوئی سمجھ

ہمارے پاس خبر کا ذریعہ ٹی وی تھا یا اخبارات جس کا ہر چینل مدرسہ کی گنبد و مینار سے سجی ہوئی عمارت دکھلا رہا تھا۔ ایک جوان لڑکی کے منھ پر کپڑا ڈالے ہوئے دکھا رہا تھا اور ہلکی سی جھلک ایک ذمہ دار کی دکھلا رہا تھا۔ انتہائی زور شور اور جذباتی انداز میں کہا جارہا تھا کہ مدرسہ میں اس لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ ہوا۔ زور زبردستی سے اس کا مذہب تبدیل کردیا گیا۔ اس سے زبردستی دستخط کرائے گئے ایک چینل پر اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ آپریشن کرکے اس کے دونوں گرُدے نکال لئے گئے اور ایک چینل پر ایک مہاشے کو زور دار تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا جو کہہ رہے تھے کہ مدرسہ میں تیس (30) لڑکیاں ہندو اور تھیں جنہیں سعودی عرب بھیجا جارہا تھا ان کو بچا لیا گیا۔
کیا ہم مان لیں اور دوسروں سے بھی کہیں کہ وہ بھی تسلیم کرلیں کہ ہندو اتنا ہی بے وقوف ہوتا ہے جتنا میرٹھ کے معاملہ میں نظر آرہا ہے اور سوشل میڈیا اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے یا مسلمانوں کو بے وقوف سمجھ لیا ہے کہ وہ کسی سازش کو سمجھ نہ پائیں گے۔ ہم پہلے سوشل میڈیا کے ذمہ داروں سے کہنا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے سن لیا تھا کہ جبر کرکے دھرم تبدیل کردیا گیا تو کسی سے کیوں نہیں معلوم کیا کہ دھرم زبردستی کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ اور اگر کسی کاغذ پر کچھ لکھ کر اس پر زبردستی دستخط کرالئے جائیں تو اس سے مذہب پر کیا فرق پڑتا ہے؟ مذہب کوئی ساڑی نہیں ہے جو بدل دی ہوگی نہ کسی کو زبردستی کلمہ پڑھواکر مسلمان یا عیسائی یا پارسی بنایا جاسکتا ہے جیسے کوئی ہمارے سینہ پر گولی رکھ کر کہے کہ کہو جے شری رام کہو رام بھگوان تھے یا کہو میں ہندو ہوں تو ہم جان بچانے کے لئے کہہ دیں گے لیکن ہم مسلمان ہی رہیں گے اور ہمارے مذہب پر کوئی داغ نہیں لگے گا۔ پھر اگر ایک لڑکی سے کچھ کہلا لیا گیا یا کچھ لکھ کر اس کاغذ پر اس سے دستخط کرالئے گئے تو مذہب کیسے تبدیل ہوگیا اور وہ کون گدھے افسر اور رپورٹر ہیں جنہوں نے زبردستی مذہب تبدیل کرانے یا نہ کرانے پر بات کرکے ثابت کیا کہ وہ بالکل جاہل ہیں؟
اسی طرح سے آپریشن کرکے گرُدے نکالنے کی بات اور وہ بھی اس کے متعلق جو چل رہی ہے پھر رہی ہے اور تیس لڑکیوں کو سعودی عرب بھیجنے کی بات جیسے لڑکیاں نہ ہوں پیاز اور آلو کے بورے ہوں کہ جہاز میں بھرکر بھیج دیا جائے۔ کیا ان شاطروں اور ملک کے دشمنوں کو معلوم نہیں ہے کہ پہلے پاسپورٹ اور پھر سعودی ویزے۔ کیا یہ بھی ان دُکانوں پر مل جاتے ہیں جہاں بھگوا جھنڈے، کمل کے پھول، ٹوپیاں اور مودی جی کا مکھوٹا بکتا ہے؟ ان تمام باتوں میں کیا کوئی ایک بات ایسی ہے جس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیا جائے اور مجمع میں کھڑے ہوکر یا ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھ کر بکربکر بک دیا جائے؟ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسر اتنے اندھے کیوں ہوگئے اور جنہوں نے گرُدے نکالنے اور سعودی عرب بھیجنے کی باتیں چیخ چیخ کر کہیں ان کا منھ کیوں نہیں توڑ دیا اور کیوں صفائی دی کہ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ غلط تھا کیا واقعی یہ ایسی باتیں تھیں جن کی ان افسروں کو تحقیق کرانا پڑی؟
آر ایس ایس کا سب سے بڑا ہتھیار جھوٹ ہے اور یہ انتظام کہ ایک ہی وقت میں پورے ملک میں بولا جائے یہ آج موبائل اور نیٹ کے زمانہ میں نہیں اس وقت سے ہے جب بیل گاڑی کا زمانہ تھا۔ سنگھ نے ساٹھ برس برداشت کیا ہے اور اب جبکہ پورا ملک اس کی مٹھی میں ہے وہ اپنے اندر کا سارا زہر اُنڈیل دینا چاہتا ہے اور موہن بھاگوت کا یہ بیان کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو ہندو کہنا چاہئے اس کی ابتدا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب ہر آدمی کو ہندو کہلانا ہو تو ملک کا نام ہندوستان ہوجاتا ہے ورنہ بھارت ورش یا انڈیا۔ بھاگوت صاحب نے کہا ہے کہ امریکہ والوں کو امریکی، چینی، جاپانی، جرمنی یا پاکستان والوں کو پاکستانی کہا جاتا ہے ایسے ہی ہندوستان والوں کو ہندو کہا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ پابندی لگ جائے کہ سرکاری کاغذ میں جو اپنے کو ہندو نہ لکھے اُسے ردّ کردیا جائے گا۔
ہمارے مدارس سنگھ کے نشانہ پر ہیں دہشت گردی کی تربیت اور عرب ملکوں سے پیسے لانے کے الزامات تو اب تک لگتے ہی رہے ہیں اب مذہب کی تبدیلی کو ایک بڑا فتنہ بنایا جاسکتا ہے۔ ملک میں سب سے بڑا کام تبلیغی جماعت کررہی ہے لیکن وہ صرف مسلمانوں کو پکا اور سچا مسلمان بنانا چاہتی ہے ہندوؤں میں مذہب کی تبدیلی اس کا موضوع نہیں ہے لیکن کچھ لوگ اسلام قبول بھی کرتے ہیں، ان میں وہ بھی ہوں گے جو واقعی اسلام کو سچا مذہب مانتے ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں اور ایسے ہی لوگ کسی بھی وقت آگ لگاسکتے ہیں اس لئے کہ ان کا مقصد صرف عیاشی ہے اور ہمارے ناسمجھ مولوی شان بگھارنے کے لئے ایسی سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔
1963 ء میں ہماری موجودگی میں مراد آباد کی عیدگاہ کے امام صاحب کے پاس دو بہت اپٹوڈیٹ حضرات آئے۔ ایک صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے تھے امام صاحب نے ان سے بات کی پھر اُنہیں وضو کرایا اور کلمہ پڑھوایا اور ایک سارٹی فکیٹ دے دیا جو اُن کا اصل مقصد تھا ہمیں اسی وقت یہ خیال آیا تھا کہ یہ صرف عیاشی کے لئے ہے اور امام صاحب کو انہوں نے بے وقوف بناکر اپنا کام نکال لیا۔ اب میرٹھ کے بعد یہ لکھنے کی ہمت کررہے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء جن کی ملک میں سیکڑوں شاخیں ہیں انہیں یہ ہدایت جاری کردینا چاہئے کہ اگر کوئی اسلام قبول کرنے کے لئے آئے تو اُسے لکھ کر کچھ نہ دیا جائے اور نہ اپنے کسی رجسٹر میں اندراج کیا جائے اس لئے کہ یہ ضروری بھی نہیں ہے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ انہیں ہندی میں چھپی کوئی کتاب دے دی جائے جس میں اسلام کی ضروری باتیں ہوں اور بس۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے