اس میں لینڈمافیاکے مقدمے لڑنے اورایل پی جی گیس کوٹے کے دوچلے ہوئے کارتوس رکھ کرسابقہ وزیرداخلہ اورحالیہ سینٹ کے قائدحزب اختلاف اعتزازاحسن کے سرکانشانہ لیکرچلادیئے لیکن وہ نشانہ ایساچوکاکہ واپس خودچوہدری نثار ہی اس کانشانہ بن گئے۔انہوں نے اس کاروائی سے پہلے یہ بھی نہ سوچاکہ اس جارحانہ کاروائی کے جواب میں پورس کے ہاتھی کی آنکھ کاایسانشانہ بھی لیاجاسکتا ہے کہ عمربھرکے خواب ادھورے رہ جائیں گے اوربالآخر ’’درگزر‘‘کی ڈھال میں پسپائی اختیارکرناپڑے گی۔
ہرذی شعوردم بخودہوکریہ سوال پوچھ رہاہے کہ ان الزامات کی صحت سے قطع نظر ان کا ملک اور حکومت کو درپیش حالیہ بحران سے کیا براہ راست تعلق تھا اور وہ بھی ایسے وقت جب پارلیمنٹ اور حکومت لب بام دھرنے والوں کے محاصرے میں ہے۔اسی پارلیمنٹ میں جہاں ہرطرف سے نوازشریف کی غیرمشروط حمائت نے ان کی حکومت کوجانبرہونے سے بچایاتھا،چوہدری نثارکے ناکام حملے کے نتیجہ میں اعتزاز احسن اورخورشیدشاہ کی دھواں دار جارحانہ تقریروں نے توکھلبلی مچادی جب چوہدری اعتزاز احسن نے حکومت کوکو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کہ دو بار پہلے آپ کا یہی انجام ہو چکا ہے جسے آج ہم روک کر بیٹھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں اس وقت ایوان سے واک آؤٹ کروں تو تمام حزبِ اختلاف میرے ساتھ واک آؤٹ کرے گا، اور دھرنے والے کامیاب ہو جائیں گے۔میں چاہوں تو سب کو لے جاؤں آج پارلیمان سے، دھرنے کے خلاف مزاحمت ختم کردوں، ختم کردوں اس پارلیمنٹ کو، صرف شاید محمود اچکزئی رہ جائیں‘‘جس کے جواب میں ملک میں موجودہ صورتحال پر بحث کے لیے بلائے گئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کونہ صرف شرمندگی کا سامنا کرنا پڑابلکہ بارہاصفائی دینی پڑی اورقوم کے خزانے پرلاکھوں روپے ایک مرتبہ پھراس دھینگامشتی پرضائع ہو گئے۔ادھر دھرنے والوں کی خوشی کی انتہانہیں رہی جب انہیں پتہ چلاکہ جمہوریت اور آئین پسندوں کا اتحاد کیسے پل صراط پر کھڑا ہے اوروہ جاویدہاشمی کے لگائے ہوئے زخم کوبھول کر ایک دفعہ پھرجشن منانے لگے ۔ کچھ اور ہو نہ ہو اس پارلیمانی تماشے سے باہر کھڑے کنٹینری مقررین کے ہاتھ میں تازہ دم بارودآگیاجس کووہ جی بھرکراستعمال کررہے ہیں اور ٹی وی چینلوں کے اونگھتے ٹاک شوز میں ایک بار پھر زندگی پڑ گئی ہے۔اب یہ سوال سب کوالجھن میں مبتلاکئے ہوئے ہے کہ وزیرداخلہ اپنی حکومت کوبچانے کی بجائے کس کے اشاروں پریہ ٹوپی ڈرامہ کررہا ہے؟
انہی وزیرِ داخلہ نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ لاہور سے آنے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیا جائے گالیکن جب مارچ اپنی منزل کی طرف گامزن ہواتونیاحکم جاری ہوگیاکہ مارچ کو آبپارہ سے آگے کسی صورت نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ پھر ایک اوررعائت دیتے ہوئے کہا کہ ریڈ زون کی لکیر کسی صورت عبور نہیں کرنے دی جائے گی اور اب عالم یہ ہے کہدھرنے والوں نے دھڑلے سے ریڈلائن عبورکرتے ہوئے نہ صرف کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے سے لٹکا دیئے بلکہ پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں صابن مل کے نہانا شروع کر دیا اورتازہ دم ہوکرپی ٹی وی پریلغارکردی اوروہاں ملک کے وزیرداخلہ جوکہ ملکی افواج کاآئینی نمائندہ ہے،کے جاری بیان کے دوران تاریں کاٹ کرساری دنیامیں پی ٹی وی کی اسکرین کو تاریک کرکے وہاں بعدازاں کینٹین میں کھانا بھی اڑایا اور ملک کے وزیرِ داخلہ کوان واقعات نے ہیروسے زیروبنادیا ۔قابل دیدنی تھاآج کایہ منظرکہ آج بھی وزیرِ داخلہ کا طنطنہ کسی جنرل رومیل سے کم نہیں تھامگرحکومت کاسربراہ وزیرِ اعظم پارلیمنٹ میں سر جھکا کے ہر تقریر سن رہاتھا۔
ساری قوم کواس بات کابھی علم ہے کہ انہی وزیرداخلہ نے اپنے بڑے بھائی اور سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ)چوہدری افتخار علی خاں مرحوم کے ساتھ مل کے منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کا نام بطور چیف آف آرمی سٹاف وزیرِاعظم کے سامنے رکھا تھا کہ( اینہوں بنا لو، سدھا سادھا اردو سپیکنگ بندہ لگدا جے)اسے بنالو،سیدھاسادااردوبولنے والاآدمی لگتاہے۔اسی مشرف کے ہاتھوں ہی منتخب وزیراعظم کی جودرگت ہوئی وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔میاں برادران کوجہاں جلاوطنی کاسامناکرناپڑاوہاں ان کے ساتھیوں کے ساتھ جوسلوک ہواوہ بھی تاریخ کاایک حصہ ہے بلکہ جماعت کے سب سے زیادہ وفادارساتھی جاویدہاشمی کے ساتھ جوروح فرساسلوک ہواوہ قابل تحریربھی نہیں لیکن موصوف تو نظربندی کے دوران بھی اسلام آباد،راولپنڈی کے بازاروں میں دیکھے گئے اورگرمیوں میں کوہسارمری کابھی لطف اٹھاتے رہے۔
یہ وہی چوہدری نثارصاحب ہی توہیں جب راولپنڈی شیعہ سنی فساد سے جل رہا تھاانہوں نے میڈیاکی حکومت پرہونے والی زبردست تنقیدکارخ موڑنے کیلئے جنرل پرویز مشرف پر عین اس روز آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدم بغاوت چلانے کا اعلان کردیالیکن اس کے باوجودتنقیدکادباؤ کم نہ ہوسکالیکن نجانے کیوں چودھری نثاراچانک بغاوت کی فردِ جرم عائد ہونے کے بعد مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت پربھی آمادہ ہوگئے۔جب وزیراعظم نے ان کی یہ بات نہ مانی توروٹھ کرایسے گھرمیں بیٹھ گئے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ان کا فون ساری رات بند رہا۔
یہ کارنامہ بھی تووزیرداخلہ کے کھاتے میں جاتاہے کہ اچانک دھرنا بحران میں فوج کی ثالثی کی خبرنشرکروادی جس سے ملک کی ساری اپوزیشن ہیجان میں مبتلاہوگئی ۔اس سے پیشتر کے پارلیمان میں اپوزیشن اپنی حمائت واپس لیتی کہ وزیرِ اعظم کو بھری پارلیمان میں اس مبینہ کردار کی تردیدکرنی پڑی اور پھر فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کو ایک علیحدہ بیان جاری کرنا پڑ گیا۔کسی مہذب ملک میں ایسی کارکردگی کے بعدتووزیرداخلہ کبھی کااپنی ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دیکر سیاست کے میدان سے بھی توبہ کرچکاہوتا۔آخریہ افواہ کیوں یقین کی حدوں کوچھورہی ہے کہ چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے کہ فوج اور میاں برادران کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک براہِ راست مضبوط رابطہ کارہیں شائداسی مجبوری کی بناء پرجاویدہاشمی کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیاگیا۔اگرایساہے توکیاہماراوزیراعظم اب بھی کچھ معاملات میں بے اختیارہے؟
میاں برادران کودھرنوں کے سیاسی بحران کے علاج کیلئے بالآخرانہیں رائے ونڈکے وسیع وعریض محل میں سابقہ صدرزرداری کوجومدعوکیاتھایقیناان سے طویل صلاح ومشورے کے بعدکوئی اسٹرٹیجی توطے پائی ہوگی لیکن زرداری کے دورِ حکومت پرہی نظردوڑالیتے توانہیں سیکھنے کاکافی سامان مل جاتاکہ کس طرح این آراوجیسے بدنام زمانہ کمزورقانون کاسہارالینے کے باوجودپانچ سال کاپرآشوب دورِ حکومت گزارا۔انہوں نے ایک نیااندازِ سیاست اختیارکرتے ہوئے انتقامی سیاست کو خیر بار کہہ کر مصالحت اور در گزر کی سیاست کو اپنایا ۔ سندھ میں ایم کیوایم کی سخت مخالفت کے باوجودان کوخودسے الگ نہیں ہونے دیااور الطاف حسین کے بار بار روٹھ جانے پررحمان ملک کومستقل طورپراپنامصالحتی ایلچی مقررکردیا۔مولانافضل الرحمان سے جہاں شیر وشکررہے وہاں اے این پی کوبھی رفیق کاربنائے رکھا۔ق لیگ کوقاتل لیگ اورپرویزالہٰی پردرجنوں الزامات کی بوچھاڑکے باوجودان کاہاتھ ایساتھاماکہ بے اختیار ڈپٹی پرائم منسٹر کاعہدہ انہیں سونپ دیااوربالآخرجب طاہر القادری نے پیپلز پارٹی کے دور میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا ، شجاعت حسین ان مذاکرات میں پیش پیش تھے اور سیاست کے ذریعے طاہر القادری کا دھرنا ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے ،یہ الگ بات ہے کہ آج نہ صرف ان دھرنوں کے محرک ہیں بلکہ کھلے عام فوج کوملک کی باگ ڈورسنبھالنے کی استدعاکررہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں نواز شریف ابھی تک پرانی روایتی اورانتقامی سیاست سے چمٹے ہوئے ہیں۔چوہدری برادران توشیخ رشید کے ہمراہ اپنی پوری جماعت کے ساتھ شامل ہونے کوتیارتھے لیکن ضداورہٹ دھرمی نے آج وہ وقت دکھایاکہ ان دنوں یہ افرادطاہرالقادری اورعمران کے دھرنوں کے محرک ہیں اورخودنوازشریف کااندازِ سیاست انہیں آج اس مقام پرلے آیاہے کہ ان کے خلاف پہلے سال کے اختتام پرہی لانگ مارچ اوردھرنوں نے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔شائداسی خوف کی بنیادپروہ ملک کیلئے کوئی متحرک سیاسی صدرکاانتخاب بھی نہیں کرپائے جوآج ان کی مددکیلئے کارگرثابت ہوتااوراسی خوف کی بنیادپرانہوں نے اپنی کابینہ اورحکومت میں بیشتراہم عہدے اپنے ہی خاندان کے افرادکے سپردکررکھے ہیں جس کی بناء پرانہیں بادشاہ کے لقب کاطعنہ بھی سننے کومل رہاہے۔مجھے ڈرہے کہ اگرانہوں نے اپنی اس پالیسی کونہ بدلاتومستقبل کے پاکستان میں ان کیلئے کچھ نہیں بچے گا۔
جواب دیں