آڑے ترچھے آئینے

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہرکس وناکس ان میں سے بہت سے اداروں کی زمامِ صدارت سنبھالے بیٹھا تھا اور جس کے نام کا یہ قرعہ نہیں نکلا وہ کسی نہ کسی پرچے کا مدیر بن بیٹھا۔ اس طرح ان بے تہہ حضرات نے ، جو علمی ذوق سے معریٰ اور فکرونظر کی دولت سے محروم محض تھے، بٹیروں اور پتنگوں کی جگہ اپنے جیسے نوجوان گدھوں کو بخشی اور ان کی سرپرستی کرکے نئے زمانے کے نئے بٹیروں کو لڑانے میں مصروف ہوگئے اور بٹیربازی کا یہ پیشہ زیادہ سے زیادہ توجہ کامرکز بن سکے اس کے لیے یہ ضروری ٹھہرا کہ ان بٹیروں کو شہرت بھی دی جائے۔ اس کارِخیر کو انجام دینے کے لیے نسخہ یہ تجویز کیا گیا کہ نئے بٹیر اپنے بارے میں فرضی مراسلے تقسیم کروائیں، اِدھر کی باتیں اُدھر کریں،اپنے نام سے انٹرنیٹ پر طرح طرح کے بلاگ بنائیں، اپنے پیش رو بٹیروں میں سے بعض کی علمی بے مایگی سے فائدہ اٹھاکر ان کے پرچوں میں اپنی  ذات گرامی  پر گوشے چھپوائیں اور اپنے جیسے معصوموں کی انجمنین بناکر نئے نئے پرچوں کا اجرا کروائیں اور ان کے سرورق پر اپنی تصویریں چھپواکر ہمارے ادبی و تہذیبی زوال کے تقریبا مکمل ہوجانے کا نوحہ سنائیں۔ غرض یہ چہل پہل تو ہو مگر یہ چہل پہل نوحۂ غم ہو، نوحۂ شادی نہ ہو۔ اردو کے موجودہ منظرنامے پر یہ صورتیں اس حدتک نمایاں ہیں کہ نئی نسل میں جو ایک آدھ سنجیدہ لوگ ہیں بھی تو ان کی طرف یا تو نظر نہیں جاتی یا جاتی ہے تو پہلا گمان ان پر بھی یہ گزرتا ہے کہ وہ بھی کہیں اسی ابتذال کا حصہ نہ ہوں۔
پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی نے آڑے ترچھے آئینے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ:  ہمارے تمام اہم رسالوں کے مدیر علمی اور ادبی دنیا میں اپنی منفرد حیثیت رکھتے تھے اور ان کی شخصیت کا نقش بھی مضامین کے انتخاب، موضوعات اور ترتیب پرہوتا تھا۔  اور یہ درست ہے مگر اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے اور یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ہمارے رسائل کے بیش تر مدیران وہ حضرات ہیں جو ادبی تربیت سے محروم ہیں اور ان کے  فرمودات عالیہ  کا متحمل کوئی اچھا رسالہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انھوں نے کسی رسالے کا اجرا کرکے اپنی تشہیر اور اپنے جیسوں کی تطہیر کا سامان مہیا کرلیا اور راتوں رات نامور ادیب اور دانشور بن گئے۔نتیجتا ان ناخواندہ حضرات کی بن آئی جوجانتے ہیں کہ کتنا جھک کر کسے سلام کریں لیکن پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔اردو رسالوں کے مدیر نیازفتح پوری ہوتے تھے،شاہداحمددہلوی ہوتے تھے،جوش ملیح آبادی ہوتے تھے،میراجی ہوتے تھے،صلاح الدین احمدہوتے تھے،آلِ احمد سرور ہوتے تھے،کلیم الدین احمد ہوتے تھے،قاضی عبدالودود ہوتے ہوتے تھے اور محمدحسن ہوتے تھے۔اسی لیے وہ رسالے رجحان ساز ہوتے تھے۔ جوابر وہاں سے اٹھتا تھا وہ سارے جہاں پربرستا تھا۔ پروفیسرمحمدحسن کا رسالہ  عصری ادب اردو کا ایک ایسا رسالہ تھا جس پر محمدحسن کی شخصیت اور ادبی مزاج کی گہری چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی تھی ۔اس رسالے کا ایک اہم اور تقریبا مسلسل کالم آڑے ترچھے آئینے  تھا۔جس میں اکثر وبیشتر محمدحسن اور کبھی کبھی کچھ دوسرے ادیب بھی ادبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر تبصرے اور مخصوص انداز میں تبصرے کرتے تھے۔اس کالم کے تحت محمدحسن نے ان موضوعات و مسائل پرجوکچھ لکھا تھا ان کوعبدالسمیع نے  محمدحسن آڑے ترچھے آئینے کے نام سے یکجا کرکے شائع کردیا ہے۔عبدالسمیع نوجوان ہیں، ادب اور ادبی تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت ایک تو اس موضوع کا انتخاب ہی ہے اور دوسرا ثبوت یہ بھی ہے کہ انھوں نے دیویندر ستیارتھی کی تمام کہانیوں کو  شہرشہرآوارگی نام سے دوجلدوں میں شائع کیا ہے۔ یہ دونوں موضوعات ایسے ہیں جن تک ان کی عمر کے ان نوجوانوں کی نظر نہیں پہنچ سکتی جن کی آنکھیں عصرحاضر میں میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ایکسپوژر سے اس حدتک خیرہ ہوگئی ہیں کہ وہ پڑھنے اور غور کرنے جیسے فرسودہ اور روایتی کاموں  میں وقت برباد کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ ان کی جگہ خوشامدانہ راہ ورسم کو اپنی کل کائنات سمجھتے ہیں اور اس سے جو وقت بچتا ہے اس کا استعمال اپنے اوپر  رسالوں کے گوشے  نکلوانے اور ریڈیو پر اپنی عالمانہ تصانیف "پر بزرگوں سے تبصرے کروانے جیسے منفعت بخش کاموں میں کرتے ہیں۔کیونکہ یہ نوجوان وہ ہیں جن کے جدامجد وہ لوگ تھے جن پرمحمدحسن نے  خوشامدانہ ادب کا عروج اور  خوشامدی ادب ۔۔کیوں اور کیسے  کے عنوان سے متواتر دوکالم لکھے تھے۔محمدحسن کے یہ دونوں کالم 1992میں لکھے گئے ہیں، جن میں وہ لکھتے ہیں:
کمال تو یہ ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر اس منزل تک جاپہنچے کہ ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کرقلم نکلے اور لگے آواز ے لگانے،کہ کوئی خوشامدکرالو، کوئی بھٹئی کرالو۔اس راستے میں آگئے بہت سے پڑاؤ ، اردو اکادمیاں ہی نہیں حکومتوں کے انعام و اکرام، راجیہ سبھا کی رکنیت، باہر کے سفراور دورے، عہدے، تقررات،گرانٹ،مفت کے مکانات،دھیرے دھیرے غیرت فن چھنتی گئی اور خوشامدانہ کلچر فروغ پاتا گیا۔اور اس عروج کا اور ان کے جانشین خوشامدیوں کے استغراق کا صرف بیس برسوں میں یہ عالمْ ہے کہ اب وہ آواز ے لگانے کے لیے صبح تک کا انتظار نہیں کرتے!اس کالم کا اختتام محمدحسن نے کچھ اس طرح کیا تھا
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادیب ہی نہیں (کہ وہ ملک کی تہذیبی امانت اور اس کے صورت گر ہوتے ہیں) ہمارا ادب بھی عرصۂ زیست پر نظرڈالے تو تلوک چند محروم کے لفظوں میں یہ شکوہ کرنے پر مجبور ہوجائے کہ عہدجوانی گدہوں کو سلام کرنے اور کتوں کا ادب و احترام کرنے میں گزر گیا 
شرفم بعہدپیری چہ بود کہ درجوانی
بسگاں ادب نمودن بخراں سلام کردن
اس میں شک نہیں کہ ان سطروں سے جس دردمندی کا اظہار ہوتا ہے وہ محمدحسن کے ایک حساس اور ذمہ دار ادیب ہونے پر دلالت کرتی ہے مگر یہ دردمندی ہمارے لیے اور اس زبان کے لیے بھی جس کے محمدحسن ادیب اور استاد تھے، زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتی تھی اگر یہ دردمندی محمدحسن صاحب کے اعمال و افعال سے بھی ظاہر ہوتی مگرافسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اپنی عملی زندگی میں ایسے کچھ لوگوں کی سرپرستی فرمائی جس کا خمیازہ اس زبان کو بھگتنا پڑا اور جواہرلال نہرویونیورسٹی کے شعبۂ اردو کو بھی!اس سرپرستی کی سامنے کی مثالیں نصیراحمدخاں اور محمدشاہدحسین کی شکل میں موجود ہیں،جن کا شمار محمدحسن کی باقیات میں کرتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔
زبان تہذیب اور تراجم کے عنوان سے جو کالم انھوں نے 1970میں لکھا تھا اس میں رومیلا تھاپر، ہربنس مکھیا اور بپن چندرا کی کتاب ہندوستانی تاریخ نویسی میں فرقہ واریت پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے،جس کے تقریباًڈیڑھ صفحے میں نقل کردینا چاہتا تھا کیونکہ وہ سطریں خودمحمدحسن کی تاریخ پر گہری نظر کا ثبوت فراہم کردیتیں مگر میرے اس تبصرے کے لیے جو حدود مقرر کی گئی تھیں میں پہلے ہی ان سے تجاوز کرچکا ہوں۔ اس کتاب میں موجود بیشتر کالم بہت عمدہ ہیں اگرچہ کچھ کا اختصار کھٹکتا ہے مثلاً کلیم الدین احمد کی خودنوشت والاکالم۔ ان کالموں سے پروفیسرمحمدحسن کی ادبی و تہذیبی بصیرت کا اظہار ہوتا ہے اور ان میں سے بیشتر کالم ایسے ہیں جن کا مطالعہ زبان و ادب کے ہر سنجیدہ طالب علم کو ایک بار نہیں، بار بار کرنا چاہیے۔ عبدالسمیع صاحب نے ان کو بہت سلیقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔اس تنبیہ کے ساتھ کہ اس میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے جس کو وہ اگلے ایڈیشن میں درست کرلیں گے

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے