حکومت کے ظالمانہ لاک ڈاؤن کا ایک سال اور جمہوری ملک میں عوام کا استحصال

 

 

 ذوالقرنین احمد

 

گزشتہ سال آج ملک کی عوام پر جبراً 21 دن کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا جو بڑھتا گیا اور اب ایک سال مختلف پابندیوں کا مکمل ہوچکا ہے۔ تمام ممالک نے جو اس کھیل میں شامل تھے اس عالمی وبا کے نام پر فائدے حاصل کیے ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی میں خواتین کا تاریخی احتجاج شروع ہوا تھا لیکن حکومت نے جبراً اسے بھی پولس کے ذریعے توڑ کر احتجاج ختم کروا دیا، اسی طرح حکومت کی ناکامیوں کے خلاف تما‌م قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یعنی حکومت ‌نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے کرونا وائرس ، لاک ڈاؤن کو اپنا سرکشا کوچھ بنا لیا ہے جب بھی حکومت کو خطرہ‌ محسوس ہوتا ہے تو حکومت کرونا وائرس کا خوف پھیلانا شروع کردیتی ہے۔ 

فلحال ملک میں پھر سے کچھ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں کرونا وائرس کو گودی میڈیا کے ذرت تیزی سے پھیلایا جارہا ہے عوام کے دلوں سے اس کا خوف ضرور نکل چکا ہے لیکن ریاستی حکومتیں یہ پریشر بنا رہی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے دباؤ میں ہے اس لیے سب مجبوراً کرنا پڑ رہا ہے یعنی اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت اور‌ اقتدار کی خاطر عوام کی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیاجارہا ہے۔

 غریب مزدوری کرنے والے اور سڑکوں پر سبزی فروٹ وغیرہ بیچنے والوں کی ہر 15 دن میں کرونا کی جانچ کی جارہی ہے ورنہ انہیں تجارت کرنے سے روکا جارہا ہے، بڑے بڑے شہروں میں داخل ہونے سے قبل انٹری پوائنٹ پر کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کی جارہی ہے اور نیگیٹیو رپورٹ کی بعد داخل ہونے دیا جارہا ہے۔ ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ باقاعدہ سیاست دان عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں، ٹیکہ لگوانے کیلئے تیار کر رہے ہیں اور حکومت کو تو عوام کی اتنی فکر ہیں کہ انکے لیے مارکٹ میں کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کیلئے کیمپ لگائے جارہے ہیں۔

ان جھوٹی ہمدردیوں سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے ورنہ حکومت کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں تو اپنے ہندو راشٹر کے ایجنڈے کو ملک میں کسی بھی طرح سے نافظ کرنا ہیں چاہے پھر وہ اپنی ہی عوام کی لاشوں پر کیوں نہ ہو گزشتہ سال ہزاروں لوگوں کو بے جا موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کسی کو کرونا کے نام سے دہشت زدہ کرکے مار دیا گیا اور اکثر افراد دیگر بیماریوں کے بروقت دوائیں علاج نہ ملنے کی وجہ یا غربت کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئے اسی طرح وہ لاکھوں مزدور جو اپنے گاؤں اور ریاستوں کو چھوڑ کر دو وقت کی روزی روٹی کیلئے شہروں کی طرف ہجرت کرکے آئے ہوئے تھے انکے پاس غذا اور خرچے کی آمدنی نہ ہونے کی بنا پر یکدم سے لاک ڈاؤن لگنے کے بعد آمد و رفت کے بند ہونے کی وجہ سے پیدل ہی اپنا بوریا بستر لے کر اپنے بچوں گھر والوں کے ساتھ اپنے اپنے گاؤں کی طرف لوٹ گئے جس میں کئی غریب مزدوروں کی موت واقع ہوگئی اورنگ آباد میں ریل کی پٹریوں پر سفر سے تھکے ہوئے مزدور رات میں نیند کی آغوش میں تھے اور مال گاڑی نے نیند کی حالات میں درجنوں مزدوروں کو روند ڈالا اسطرح کے کئی المناک واقعات ہوئے لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

اب ملک کے موجودہ حالات یہ بنے ہوئے ہیں کہ کے جب سے بھاجپا حکومت قابض ہوئی ہے ملک کی معیشت کو انتہائی خطرو لاحق ہے ملک کی جی ڈی پی گر چکی ہے پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں سرکاری اداروں کو حکومت کارپوریٹ گھرانوں کو بیچ رہی ہے۔ ایک ایک سیکٹر کا پرائیویٹائزیشن کیا جا رہا ہے مہنگائی نے عام انسان کی مگر توڑ دی ہے پٹرول ڈیزل، رسوئی گیس سفر کا کرایا، ریلوے ٹیکٹ، ضروری دواؤں، کھانا‌ کا تیل، غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن کا کردار معزور لنگڑی لومڑی کی طرح ہوچکا ہے۔ جو صرف غصہ دیکھا سکتی ہے لیکن کر کچھ نہیں سکتی ہے۔ عام عوام پر جبراً ایسے قانون مسلط کیے جارہے ہیں جو انکے حقوق کو غصب کرنے والے ہیں کسانوں کے حقوق کو چھینے کیلئے ذراعی ترمیمی قانون کو پاس کیا گیا ہے اور دہلی میں تقریباً گزشتہ تین مہینوں سے کسان قانون واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکومت اپنی طاقت اور سرکاری پاور کا غلط استعمال کرتے ہوئے کسانوں پر ظلم کر رہی ہیں انکی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ جس طرح سے شاہین باغ کی خواتین کے احتجاج پر حملے کروائے گئے فائرنگ کروائی گئی جھوٹے الزامات لگائے گئے، اور دہلی کے جعفرآباد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا گھروں کو نظر آتش کیا گیا مسلمانوں کی املاک کو لوٹا گیا ظلم و تشدد کیا گیا اور ملک کی حکومت اور وزراء 2 سے 3 روز تک تماشائی بن کر دیکھتے رہے ، تبلیغی جماعت پر کرونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا گیا کیجریوال نے تبلیغی جماعت کے مرکز پر ہوئے اجتماع کے اوپر الزامات لگائے کے 30 فیصد کرونا وائرس کے کیسز تبلیغی جماعت کی وجہ سے پھیلے ۔ لیکن اسکے بعد سپریم کورٹ ہائی کورٹ نے اس کی تردید کی اور تبلیغی جماعت کے افراد پر لگے جھوٹے الزامات کو یکسر مسترد کردیا ،اتنی نفرت میڈیا نے گزشتہ سال دیگر کمیونٹی کے افراد کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف پھر دی کہ اس کا ازالہ کرنا بے حد مشکل ہوچکا ہے۔ 

آج ملک میں اگر امن و امان اور قانون و انصاف کو زندہ رکھنا ہے تو انصاف پسند عوام کو آگے آنا بے حد ضروری ہے حکومت کی پالیسیوں سے ملک کے امن کو خطرہ لاحق ہے اور ظلم و جبر ناانصافی پر مبنی اقتدار کا خواب اب حکومت دیکھ رہی ہے۔ عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے قانون پاس کیے جارہے جو غریب مزدور اور ایک عام میڈل کلاس انسان کے حق میں خطرناک ہیں۔ اپر کاسٹ برہمنوں کو اقتدار میں اور ملک کے ہر سیکٹر میں قابض کیا جارہا ہے تاکہ تمام دیگر عوام کو برہمنوں اور کارپوریٹ گھرانوں کا غلام بنادیا جائے جس طرح انگریزوں نے کیا تھا۔ آج ضرورت ہے ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف تمام افراد متحد ہو کر ایک زبردست محاذ بی جے پی کے خلاف کھڑے کریں اور حکومت سے سڑکوں پر اتر کر اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کریں اور تمام پارٹیوں کو ملکی سطح پر متحد ہوکر مضبوط اپوزیشن پارٹی کا قیام کرنے کی ضرورت ہے۔

 اگر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کیلئے یہ سب نہیں کرتی ہے تو پھر عوام کو اپنی طاقت اور اتحاد کے بل پر بھاجپا کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہونے کی بے حد ضرورت ہے ورنہ پھر کرونا وائرس کا خوف دکھا گر احتجاج کے حق کو بھی چھین لیا جائے گا اور اسکی تیاری باقاعدہ جاری ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے شاہین باغ اور کسان اندولن کے تعلق سے آرہے ہیں وہ قابل افسوس ہے کہ عوام احتجاج کرنے کیلئے مستقل طور پر عوامی راستوں کو بند نہیں گر سکتی ہے۔ کیا احتجاج اور ریلیاں کرنے کیلئے اپنی نارضگی جتانے کیلئے بھی حکومت سے اجازت طلب کرنا پڑتا ہے اگر عوام احتجاج کرنا چاہتی ہے تو پھر کیا وہ حکومت سے پوچھ کر حکومت کے خلاف احتجاج کرینگی عجیب بات ہے۔ اسی طرح کیا عوام ایسی جگہوں پر بیٹھ کر احتجاج کرینگی جس کے وجہ سے حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے ایک طرف بیٹھ کر احتجاج کرینگی پھر اس احتجاج کا فائدہ ہی کیا تم اگر برسوں بیٹھے رہے حکومت کو کوئی اثر نہیں پڑنے والا ضرورت ہے کہ حکومت کے خلاف کھل کر احتجاج کیا جائے احتجاج ایسا ہونا چاہیے جس سے حکومت کو عوام کو پرائیویٹائ سیکٹر کو بڑے بڑے کاروپوریٹ گھرانوں کو احساس ہوسکے اور وہ غریب عوام کی پریشانیوں اور مشکلات غربت معاشی تنزلی ، نا انصاف و حقوق کا استحصال، جیسے مسائل سے واقف ہوسکے۔ عوام کو ملکی سطح پر احتجاج چھیڑنے کی ضرورت ہے اور اس وقت تک جاری رکھنا ہے جبتک حکومت استعفیٰ نہیں دیتی یا پھر جمہوری حکومت کو جمہوری نظام پر قائم نہیں کرتی ہے۔ یہی مسائل کا حل ہے۔

 

مضمون نگار کی رائے سے اداارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

مائیک سے اذان پر پابندی : مذہبی رواداری کے خلاف

کون کہتا ہے کہ احساس ہمارا جاگ اٹھا……. تلخ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے