یہ صرف شام کا معاملہ نہیں ہے

یہ حملہ آور ابھی تک مقبوضہ ممالک کو تاراج کیے ہوئے ہیں۔ رہے کالے ، تو وہ ان کی پروپیگنڈہ مشین کے زیر اثر وہی بولی بول رہے ہیں جو یہ جارح حملہ آور چاہتے ہیں۔
شام پر حملہ ہونا اتنا واضح ہے کہ معروف نیوز ایجنسی رائٹر نے روسی نیوز ایجنسی انٹر فیکس کے حوالے سے خبر جاری کی ہے کہ شام میں تارتس کے ساحلی مقام پر موجود روسی اہلکاروں نے اپنا نیوی کا مستقر خالی کرنا شروع کردیا ہے۔ تمام اہلکار فوری طور پر ایک زیر مرمت جہاز پر منتقل ہوگئے ہیں جبکہ فوجی تنصیبات کو بھی بتدریج وہاں سے ہٹانا شروع کردیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی جہاز شام پر فضائی حملہ کریں گے۔ یہ صرف فضائی حملہ نہیں ہے ، جس کا اتنا خوف ہے کہ روسی بحریہ نے شام میں موجود اپنا فوجی مستقر خالی کرنا شروع کردیا ہے۔ فضائی حملے کرنا نہ تو اتحادیوں کے لیے نیا ہے اور نہ ہی ان کے شکار ممالک کے لیے۔ امریکا روز پاکستان، افغانستان اور یمن پر فضائی حملے کرتا ہے اور اپنے اہداف کو دن و رات آزادانہ نشانہ بناتا ہے مگر کہیں پر نہ تو کوئی خدشات ہیں اور نہ ہی کوئی شور شرابہ۔ خودشام میں امریکا کئی ڈرون حملے کرچکا ہے مگر اس کا اب تک کہیں پر کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسرائیل عراق، مصر، شام اور سوڈان میں فضائی حملے کرچکا ہے مگر سب خاموش رہے، کوئی خوف کی علامت کہیں پر بھی نمودار نہیں ہوئی۔ اب ایسا کیا ہے کہ سب شور مچارہے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا تقسیم ہے۔ کچھ خوش ہیں اور کچھ سراسیمہ۔
اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی اوپر بیان کیا کہ اس وقت شام پر جو حملہ ہونے جارہا ہے اس کی نوعیت افغانستان، عراق اور لیبیاپر حملے جیسی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ افغانستان ، عراق اور لیبیا پر حملے کے نتیجے میں وہ جغرافیائی تبدیلیاں نہیں آئیں جو اب آنے جارہی ہیں۔جب افغانستان، عراق اور لیبیاکو تاخت و تاراج کیا گیا تو شیعوں نے تالیاں بجائیں کہ اچھا ہوا ، ان کو یہی سزا ملنی چاہیے تھی۔ جب پاکستان اور یمن پر روز حملے ہوتے ہیں تو بھی ان شیعوں نے اسی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اب شام پر حملہ ہونے جارہا ہے تو پھر یہی کہانی دہرائی جائے گی اور سنی دنیا خوب تالیاں بجائے گی کہ شام میں نصیریوں کو خوب سبق سکھایا گیا ہے اور پھر اس کے بعد ایرانیوں کی باری آئے گی تو بھی سارے سنی تالیاں بجا کر اور بھنگڑے ڈال کر اپنی خوشی کا اظہار کررہے ہوں گے۔ مگر اس کے بعد جب یہ گدھ مشرق وسطی کے جغرافیہ کو تبدیل کرنے کی طرف بڑھیں گے اور سعودی عرب کے حصے بخرے کریں گے تو اس وقت یہ شیعہ اور سنی کہاں پر کھڑے ہوں گے؟
یہ کوئی مشکل کہانی نہیں ہے جو سمجھ میں نہیں آرہی اور نہ ہی اس میں کچھ بھی خفیہ ہے۔ سب کچھ بہت واضح ہے کہ ون ورلڈ گورنمنٹ کو قائم کرنے والوں کا مقصد نہ توشیعہ اور سنیوں میں سے کسی کا ساتھ دینا ہے اور نہ ہی یہ وسائل کی جنگ ہے۔ دنیا بھر کے وسائل پہلے سے ہی ان کے قبضے میں ہیں۔ نہ ہی یہ روس، چین، امریکا اور یورپ کی بالادستی کی جنگ ہے کہ ان سب ممالک میں ان ہی عالمی بینکاروں کے ایجنٹوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ ان سارے ممالک کو ان بینکاروں نے قرض تلے اتنا دبادیا ہے کہ اب یہ چوں بھی نہیں کرسکتے۔یہ ساری جنگ انسانیت کے خلاف ہے، یہ ساری جنگ اس دنیا پر شیطان کی حاکمیت اعلی کے قیام کے لیے ہے۔ اس امر کو پہچانیے۔ شیعہ سنی کی تفریق سے باہر آئیے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان کی تفریق کو بھی چھوڑیے۔ بس صرف یہ دیکھیے کہ اس شیطانی حکومت کے خلاف کون کھڑا ہے۔ دنیا پر شیطان کی حاکمیت اعلی کے قیام کے خلاف جدوجہد کا پہلا قدم حالات سے آگاہی ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔ 

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے