خلیفہ نے اس کا جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھاتھا۔ہلاکو نے نہ صرف قلعہ الموت فتح کر لیا تھا بلکہ جس بستی نے بھی مزاحمت کی اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔ ستمبر ۱۲۵۷ء میں وہ شاہراہ خراساں پر بغداد کی طرف بڑھ رہا تھا ،اب اس نے خلیفہ کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔اپنے آپ کو فاتح کے حوالے کر دے اور شہر کی بیرونی فصیل گرا دے۔تسلی بخش جواب نہ پا کر منگولوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔
جنوری ۱۲۵۸ء میں حملہ آور فوج کی منجنیقیں بغداد کی فصیل پر گولہ باری کر رہی تھیں۔جلد ہی ایک مینار ٹوٹ چکا تھا اور فصیل ٹوٹ گئی تھی۔حملہ آور شہر میں داخل ہو رہے تھے۔اب ہلاکوخان کو ’’ شہر امن‘‘میں خلل نہ ڈالنے کا صائب مشورہ دیا گیا۔اسے بتایا گیا کہ ’’اگر خلیفہ مارا گیاتو ساری کائنات دگرگوں ہو جائے گی ،سورج اپنا چہرہ چھپا لے گا،بادل برسنا چھوڑ دیں گے اور سبزہ اگنا بند ہو جائے گا۔‘‘ہلاکو خان نے ان خدشات پر ذرہ بھر دھیان نہیں دیا۔دس فروری تک منگول بغداد پر قابض ہو چکے تھے۔خلیفہ اپنے تین ہزار درباریوں کے ہمراہ غیر مشروط طور پر فاتح کے حضور پیش ہوا۔دس دنوں میں وہ سب تہہ تیغ ہو چکے تھے ۔ شہر لوٹ مار کی نذر ہواپھر اسے آگ لگا دی گئی۔نصف سے زیادہ آبادی قتل ہوئی،لاشوں کی سڑاند اور بدبو اتنی تیز تھی کہ ہلاکو خان کو چند روز کیلئے بغداد سے باہر جا کر رہنا پرا۔
سیّد امیر علی نے ابن خلدون کے حوالے سے لکھا ہے کہ چھ ہفتوں پر محیط قتل و غارت میں سولہ لاکھ انسان رزقِ خاک ہو گئے۔خدا معلوم تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا نہیں، بعض واقعات تو گزرے ہوئے سانحات کا عکس نظر آتے ہیں۔موجودہ بغداد کا حشر دیکھئے،ہلاکو خان دور دراز سے وارد ہوا تھا،اسے بغداد سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔تاخت و تاراج،لوٹ مار اور ہوس گیری ہی چڑھائی کے اسباب تھے۔اکیسویں صدی کا ہلاکوخان سات سمندر سے تشریف لایا ہے ۔اس نے صرف بغداد اور کابل کو تاراج نہیں کیا بلکہ اسلام آباد میں بھی ڈیرے ڈال لئے ۔بغداد اور کابل والوں کے میزائل کیا آہیں بھی وہاں نہیں پہنچ سکتیں تھیں مگر پھر بھی گرجتا برستا چلا آیا۔ویسا ہی الٹی میٹم دیا۔صدام نے بھی حاکمِ وقت خلیفہ المستعصم کی طرح لیت و لعل سے کام لیا۔ہو سکتا ہے میدانِ کربلا میں برپا ہونے والے معرکہ حق و باطل کا منظر بھی اس کے پیشِ نظر رہا ہو،خلیفہ کو زندگی سے پیار تھا،کسے نہیں ہوتا،زندگی کا تو تقاضہ ہی جئے جانا ہے مگر شرفِ انسانی کا اپنا معیار ہے۔اس کی میزان میں شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اگر یوں نہ ہوتا تو ٹیپو سلطان شہید کا نام کب سے مٹ چکا ہو۔وہ نہ صرف آج بھی تاریخ کی کتابوں میں زندہ اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں بس رہا ہے بلکہ ان کی قبر بھی زندۂ جاوید ہے۔حضرت سلطان باہو نے فلاح اور کامیابی کی پہچان ہی یہ بتائی ہے کہ ہاتھ انہیں کے کچھ لگا’’قبرجنہاں دی زندہ ہو‘‘سرنگا پٹم کے قریب چھوٹی سی ندی کے کنارے واقع مزار شہید پر جنہیں حاضری دینے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کے دل گواہی دیتے ہیں کہ شہید نے طوقِ غلامی کے عوض طوالتِ عمر کا سودا نہ کرتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا تھا۔
یہ سنہری روایت بھی کتنی شاندار تھی۔نواسۂ رسول اکرم ﷺنے اپنے اور اپنے خانوادۂ کے خونِ مطہر سے قرطاسِ عالم پر یہ فرمان لکھ دیا تھاکہ جان جاتی ہے تو جائے،مومن کا ہاتھ ’’یزید کے ہاتھ ‘‘میں نہیں جائے گا۔سچ ہی تو ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔کربلا کیا ہے ،یہ فیصلے کی وہ گھڑی ہے جو غیور انسانوں سے اپنی جان اور اس سے بھی عزیز ترمتاع کی قربانی مانگتی ہے تاکہ سب کچھ دینے والے کا حق ادا ہو سکے۔فنا ہو جانا بچوں کا کھیل نہیں،زندگی دوام چاہتی ہے۔ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ ہزاروں سال جئے اور ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزار۔۴ مئی ۱۷۹۹ء کی صبح سرنگا پٹم کے قلعے میں محصور ٹیپو سلطان نے بھی یہی چاہا ہوگا۔اس کی عمر ہی کیا تھی!اس وقت ۴۸ سال ۵ ماہ اور ۱۴ دن ‘ جوانی بھی نہیں ڈھلی تھی،بہار جوبن پر تھی۔ہنگامِ سفر ٹل بھی سکتا تھا۔جنرل ہارس نے ۲۲ اپریل۱۷۹۹ء کو سرنگا پٹم پر گولہ باری شروع کرنے سے پہلے مصالحت کی پیشکش کی تھی،شرائط البتہ کڑی تھیں۔سلطان سے کہا گیا تھا کہ’’آدھی سلطنت چھوڑ دو‘دو کروڑ تاوان ادا کرو،چار بیٹے اور چار جرنیل یرغمال دو۔‘‘جواب چوبیس گھنٹے کے اندر مانگا گیا تھا۔طاقت کے نشے میں چور حملہ آور ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوارآتے ہیں جوشکار کو چند سانسوں کی مہلت دینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔تہذیب و تمدن نے لاکھ ترقی کی ہومگر نہ طاقت کے نشہ میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ اس کے طور طریقے بدلے ہیں۔
سلطان کی غیرت نے گردن جھکادینے کی اجازت نہ دی ،مردانہ وار مقابلہ کیا۔انگریز چومکھی لڑتا تھا،جنگ میں سب کچھ روا تھا۔دشمن کے عمائدین پر ڈورے ڈالنااس کا محبوب مشغلہ تھا۔بشری کمزوریوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ طے کرتاکہ کس کس پنچھی پر جال پھینکا جائے۔ان کی چالیں بالکل اسی طرح کامیاب رہتیں جس طرح آج کے دور میں امریکہ بہادرکی بڑے لوگوں کو خریدلینے کی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔۴ مئی کی صبح کو بھی یہی ہوا۔’’پورنیا‘‘دشمن کے پاس بک گیا تھا۔انگریزی فوج قلعے میں داخل ہو گئی تھی۔سلطان دوپہر کے کھانے کیلئے ابھی بیٹھا ہی تھا،کہتے ہیں پہلا لقمہ اٹھایا تھاکہ دشمن کے قلعے میں داخل ہونے کی اطلاع ملی۔ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا’’ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں‘‘۔اٹھے اور چند جانبازوں کے ہمراہ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔طاقت کے غیر معمولی عدمِ توازن سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔دفاع کرتے کرتے جامِ شہادت نوش کیا۔انا اللہ و اناالیہ راجعون۔
بے پناہ ننگی جارحیت ایک ایساسیلابِ بلا ہے جس کا دھارا رکے نہیں رکتا جب تک اس کے مد مقابل اس سے بڑی طاقت خم ٹھونک کر کھڑی نہ ہو جائے۔مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔جن میں دم خم ہے وہ اپنی اپنی مصلحتوں کے پیشِ نظرخطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔تیسری دنیا بیچاری تو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے جس پر مغربی استعمار نے چند ’’گڈریئے‘‘ مقرر کر رکھے ہیں جن میں سے کئی ایک رکھوالوں کے روپ میں بھیڑیئے ہیں۔ریوڑ میں سے جو بھیڑبکری ذرا سا بھی سر اٹھائے اس کی وہ درگت بنتی ہے یہ آنیوالی نسلوں کیلئے بھی نشانِ عبرت بن جاتی ہے۔یہی الزام پہلے افغانستان پر تھاپھر عراق اس الزام میں دھر لیا گیا اور درپردہ ابھی تک پاکستان پر اپنے خوں آشام دانت گاڑنے کے منصوبے جاری و ساری ہیں۔کہنے کو تو فاتحین کرام ببانگِ دہل یہ ارشاد فرماکرافغانستان میں داخل ہوئے تھے کہ عالمی امن کو ان دہشت گردوں سے خطرہ ہے اورعراق میں داخل ہوتے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ محکوم ومجبور اہلِ عراق کو آزادی کا تحفہ عطا کرنے آئے ہیں،حکومت بدلتے ہی وہ آزاد شہری ہونگے،ان کی اپنی حکومت ہو گی ،وہ عراق کی دولت کے خود مالک ہونگے، اپنی تقدیر خود بنا سکیں گے،اپنے بچوں کا مستقبل خودسنوار سکیں گے اور جبکہ پاکستان کو اس بات سے ڈرایاگیا کہ یہ دہشت گرد کہیں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کرکے ساری دنیا کا امن نہ تباہ کر دیں۔ہم جہاں پاکستان کو اس خطرے سے نکلنے میں مدد کریں گے وہاں پاکستان کے غریب عوام کی تقدیر بدلنے میں بھی ان کی مدد کریں گے۔آہ!کتنے شیریں ہیں تیرے لب؟پھول ہی پھول جھڑتے ہیں ان سے!
تاریخ کی گواہی البتہ ایسے خوشنما وعدوں پر اعتبار کرلینے میں مانع ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد فاتح انگریز جرنیل نے بھی بغداد میں مژدہ سنایا تھاکہ وہ عراق پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔فقط اس پر موقوف نہیں ہے،جس فاتح نے بھی وہاں قدم رنجہ فرمایااس نے وہیں اپنے خونی پنجے گاڑ دیئے۔کون جابراپنی مرضی سے کبھی مفتوحہ علاقوں سے گیا ہے؟ ہاں، حالات اور مقامی آبادی کا جذبۂ حریت انہیں تشریف لیجانے پر مجبور کر دے تو اور بات ہے؟
بڑی پریشانی کا دور ہے،بے گناہوں کو تڑپ تڑپ کرجان دیتے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سوچنا بھی گوراہ نہیں کہ وہ اپنے وطنِ عزیز کادفاع نہ کریں۔الجھن ہی الجھن ہے ،بیکس انسانوں کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کیا کرے؟کدھر جائے؟حالیہ انتخابات میں بشمول بلوچستان کروڑں لوگ سڑکوں پر امڈ آئے اوراپنی اس ناکامی کے بعد اب ان مٹھی بھرملت فروش اور عیاردشمن کے مسلط کردہ ایجنٹوں کوایک نئے ایجنڈے کے ساتھ سرگرم کردیاگیا ہے ۔ حافظ شیرازی کا بھی ایسے ہی حالات میں دل دکھا ہو گا۔وہ لسان الغیب بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند‘‘(اپنی سلطنت کے رازبادشاہ ہی جانتے ہیں)اس لئے کسی ’’گدائے گوشۂ نشیں‘‘(جھگی والے فقیر)کو شور و غوغا نہیں کرنا چاہئے لیکن ہم کب تک جھگی والے فقیربنے بیٹھے رہیں گے۔بیداری کا احساس جن مربی دوستوں کو ہے وہ توبرملا ان سانپوں کاسرکچلنے کا مشورہ دے رہے ہیں بہر حال اشرافیہ اگر اب بھی نہیں سمجھتی تو جان لے کہ ’’تیری بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘۔
اب تویہ بھی طشت ازبام ہوچکاہے کہ را،سی آئی اے اورموساد نے کس تیزی کے ساتھ عراق اور افغانستان کے بعد ’’این آراو‘‘کی چھتری تلے بالخصوص بلوچستان میں عراق اورافغانستان سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرکے کن خطرناک ارادوں سے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کیلئے خونی پنجے گاڑنے کی ازحدکوشش کی تھی اوربعض اوقات تویوں لگ رہاتھا کہ اس بار جو میدانِ جنگ سجنے جا رہا ہے اس میں ان بے سروسامان پاکستانیوں کوشائد خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے،انہیں خود ہی ان بن بلائے مہمانوں کو دربدر کرنا پڑے اور فلوجہ، نجف،بغداد اور کابل‘ قندھار اور غزنی کے عوام کی طرح لڑنا ہمارا مقدر ٹھہرے گا بہرحال جو این آر او کے تحت ہم پر مسلط کئے گئے تھے موجودہ انتخابات میں عوام نے ان کابسترتوگول کردیاہے لیکن بلوچستان میں حالیہ دہشتگردی کی لہرنے وطن دشمن طاقتوں کے عزائم کاپول کھول دیاہے۔ اب ضروری ہوگیاہے کہ اس سے پہلے کہ شکاری اپنی مچان بنانے میں پوری طرح کامیاب ہو جائے ،اسے پوری قوت کے ساتھ اس دھرتی سے دربدر کرنا ہو گاورنہ پھر کسے علم اس کے نشانے کی زد پرکس کا گھر ہو،کس کا بیٹا ہو ، باپ ، ماں یا بہن ہو۔ماتم کرنے سے پہلے سیلاب کو روکنا بہت ضروری ہے وگرنہ وہی سحر جو خونِ صد ہزار انجم سے پیدا ہوتی ہے ،ڈرہے کہیں یہ غسلِ خون بھی رائیگاں نہ چلا جائے!!!
ادھرقصرِ سفید کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرے گااورپہلی ملاقات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اگلے چند دن میں متوقع ہے۔ گزشتہ برس برطانوی اخبار گارڈین نے خبر دی تھی کہ امریکہ طالبان کے مطالبے پر گوانتاموبے کے قید خانے سے طالبان دور کے وزیرِ داخلہ ملا خیر خواہ اور سابق گورنر نور اللہ نوری کو رہا کرنے پر رضامند ہے لیکن وہ طالبان حکومت کے فوجی کمانڈر ملا فضل اخوند کو رہا کرنیکی بجائے قطر حکومت کی تحویل میں دینے پر رضامندہے۔قطری حکام کے ساتھ دوحہ میں سیاسی بیوریو کھولنے کے بعد طالبان کے نمائندے محمد نعیم نے میڈیا کو بتایا کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں البتہ چغہ پوش مسخرے کرزئی سے ملاقات کومستردکردیاہے ۔حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اورعیاردشمن کواس کی خبرہے کہ پاکستان کی قسمت کاپانسہ پلٹنے والا ہے لیکن کیاموجودہ حکومت نے اس کی تیاری کررکھی ہے؟
جواب دیں