عادل فراز
بہار میں وزیراعلیٰ کے عہدہ سے اچانک نتیش کمارکے مستعفیٰ ہونے کے بعد بی جے پی کے ساتھ مل کر اقتدار پر قابض ہونا عظیم اتحاد کے بانیوں اور حامیوں کی پہلی شکست ہے۔ایسا لگتاہے کہ بی جے پی ۲۰۱۹ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور عظیم اتحاد اپنے گھر میں موجود لنکا ڈھانے والے بھیدیوں سے ہی ناواقف ہے ۔ایسے حالات میں ۲۰۱۹ میں عظیم اتحاد کی کامیابی کے سپنے دیکھنا خود کو جھوٹی تسلی دینے کے متراد ف ہے۔عظیم اتحاد کے گھرمیں بی جے پی کی یہ پہلی سیندھ ہے ۔۲۰۱۹ کے انتخابات میں کامیابی کے لئے بی جے پی ہر حد پارکرنے کی تیاریوں میں ہے لہذا ابھی یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ عظیم اتحاد پر مزید کتنے شب خون مارے جائیں گے ۔لیکن ایک حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بی جے پی کو ۲۰۱۹ میں ناکامی کا خوف ستارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہرسیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرنے پر آمادہ ہے ۔کہتے ہیں سیاست طوائف کی طرح ہوتی ہے جو ہردن نئے گاہک کی جستجو میں رہتی ہے ۔یہ طوائف آج کل بی جے پی کے کوٹھے پر بھگوا چولا اوڑھ کررقص کررہی ہے اور تمام سیاستمدار مخلص تماشائیوں کی طرح تالیاں بجارہے ہیں۔ عظیم اتحاد کاہدف۲۰۱۹ میں بی جے پی اتحاد کو شکست دینا تھامگر اچانک عظیم اتحاد کی پناہ گاہ سے نکل کر بی جے پی کی گود میں جابیٹھنا نتیش کمارکی سیاسی بازیگری اور دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔بہار میں جن مسائل اور اہداف کو سامنے رکھ کر نتیش کمار نے عظیم اتحاد کے ساتھ بی جے پی کو شکست فاش دینے کے لئے الکشن لڑا تھا آج وہ خود ان مسائل اور اہداف سے نظریں چراکر بی جے پی کے ساتھ ہولئیے۔عظیم اتحاد سے کنارہ کشی کرنا چونکانے والا فیصلہ تھا مگر بی جے پی کے ساتھ گلے مل جانادوغلی پالیسی کا حصہ ہے۔اس فیصلہ کے بعد یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہےکہ صاحبان اقتدار کی نظر میں اقتدارکا حصول ہی سب کچھ ہوتاہے ۔انکے نزدیک تمام اصول و نظریات فقط عوام کو دھوکہ دینے کے لئےہوتے ہیں۔اگر عوام کو انتخاب کے وقت یہ علم ہوتا کہ نتیش کمار کسی بھی وقت موقع دیکھ کر بی جے پی کی گود میں جا بیٹھیں گے تو شاید آ ج بہار میں نتیش کی سرکار نہیں ہوتی ۔نتیش کمار کو لالو کے ساتھ اسی لئے عوام نے برداشت کیا تھا تاکہ بی جے پی کو بہار میں اقتدار پر قابض ہونے سے روکا جاسکے ۔اگر موجودہ حالات کے تناظر میں نتیش کمار عوام کی رائے حاصل کریں اور حلف برداری سے قبل ایک عوامی سروے کراتے تو انہیں آئندہ انتخاب میں اپنی شکست صاف نظر آتی مگر انکی نگاہیں ابھی ریاستی انتخابات پر نہیں بلکہ ۲۰۱۹ میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب پر ہیں ۔وہ موقع کی تاک میں تھے کہ آخر کب اور کس وقت بی جے پی سے کیا سودے بازی کی جاسکتی ہے ۔امید تو یہی ہے کہ نتیش کمار ۲۰۱۹ کے لئے بی جے پی کے ساتھ پوری سودے بازی کے بعد ہی آئے ہیں۔نائب وزیر اعطم کی کرسی اس سودے بازی کا اہم حصہ ہے ورنہ نتیش کمار بھی جانتے ہیں کہ بی جے پی کی حمایت یافتہ سرکار بناکر وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ماررہے ہیں۔ میڈیا نتیش کمار کے استعفیٰ کا بنیادی سبب تیجسوی یادو کو بتارہاہے جبکہ تیجسوی یادو خود سکتہ میں ہیں کہ یہ اچانک کیا ہوگیاہے ۔لالو پرساد یادو اور انکے ہم نوائوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ نتیش کمار انہیں زور کا جھٹکا دھیرے سے دینگے ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ نتیش کمار تیجسوی یادو کی بدعنوانی اور من مانی سے تنگ آکر مستعفیٰ ہوئے ہیں اور مہا گٹھ بندھن سے نکل کر بی جے پی کی گود میں جابیٹھے ہیںتو پھر نتیش کمار سے پوچھا جائے کہ وہ ایسی پارٹی سے کیسے اتحاد کرسکتے ہیں جسکے وزیر اور کارکنان پر ویاپم گھوٹالے کا داغ ہے ۔شیوراج سنگھ چوہان ویاپم گھوٹالے کے داغ چھپانےکے لئے درجنوں بے گناہوں کی بلی چڑھا چکے ہیں اور تاحال بی جے پی کے منظور نظر ہیںایسی پارٹی کی حمایت حاصل کرکے اقتدار پر قابض ہونا بدعنوانی کے خلاف اٹھایا ہوا قدم کیسے ہوسکتاہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ نتیش کمار سمجھ چکے تھے کہ عظیم اتحاد ۲۰۱۹ میں بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ عظیم اتحاد کے پاس کوئ مضبوط لائحۂ عمل نہیں ہے اور نہ ابھی تک عظیم اتحاد کسی ایک انتخابی منصوبہ پر کام کررہاہے ۔دوسرے یہ کہ عظیم اتحاد کی طرف سے ابھی تک وزیر اعظم کی کرسی کے لئے کسی امیدوار کا نام طے نہیں تھا ۔نتیش کمار جانتے تھے کہ انہیں اس کرسی کا مضبوط دعوایدر نہیں سمجھا جارہاہے ۔انتخاب سے ٹھیک پہلے سونیا گاندھی ،راہل ،لا لوپرساد یادو،ملائم سنگھ یا کسی اور کو وزیر اعظم کا امیدوار منتخب کردیا جاتا تو نتیش کمار کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ۔لہذا نتیش کمار نے دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے عظیم اتحاد سے ناطہ توڑ کر بی جے پی سے رشتہ جوڑ لیا ۔ایسی صورت میں اب نتیش کمار ۲۰۱۹ میں نائب وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے مضبوط دعویدار ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ بغیر کسی معاہدہ اوربنا کسی شرط کے نتیش کما بی جے پی کے ساتھ متحد ہوئے ہونگے ۔نتیش کمار کی ساری سیاست مفاد پرستی اور موقع پرستی پر ٹکی ہوئی ہے ۔ممکن ہی نہیں ہے کہ نتیش کمار نے اتنا بڑا فیصلہ بغیر کسی امید کے لیا ہو ۔یہ امید ہی انہیں ۲۰۱۹ میں نائب وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچائے گی مگر بہار کے عوام کی امیدوں پر انہوں نے پانی پھیر دیاہے ۔ بی جے پی کے ساتھ متحد ہوکر بہار میں اقتدار کی کرسی پر قابض ہونا کئ اہم سوالوں کو جنم دے رہاہے ۔پہلا سوال یہ ہے کہ آیا نتیش کمار بہار میںبھی اسی سیاسی لائحۂ عمل کے تحت کام کرینگے جو بی جے پی کے زیر انتظام ریاستوں میں نافذالعمل ہے؟۔ اگر ایسا ہوتاہے تو پھر بہار کے عوام کو بھی گئو رکشا کے لئے اور دلتوں کے خلاف ہتھیار اٹھالینے ہونگے ۔ذات پات اور قوم و مذہب کی سیاست کے لئے ذہنی و جسمانی طورپر آمادہ رہنا ہوگا کیونکہ بی جے پی کے پٹارے میں اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔گئو ماتا کے نام پر اب تک سیکڑوں افراد کا بہیمانہ قتل کیا جا چکا ہے مگر سرکار فرضی گئو رکشکوں کو صرف انتباہ دیکر اپنا پلہ جھاڑنےکی کوشش کرتی ہے ۔عملی میدان میں اسکے تمام دعووں کی حقیقت کھوکھلی ثابت ہوتی ہے۔لاء اینڈ آڈر کی حفاظت کے نام پر غنڈوں اور قاتلوں کو فقط انتباہ دیکر مزید جری بنایا جارہاہے کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ جس ایجنڈے کے تحت بی جے پی اقتدار میں آئ ہے اس ایجنڈے کے خلاف قدم اٹھاکر بی جے پی اپنی کرکری نہیں کروائے گی اس لئے وزیر اعظم کے بار بار انتباہ کے باجود گئو رکشک دستے اور قاتل قانون شکنی سے باز نہیں آرہے ہیں۔کم و بیش یہی حالات بہار میں پیدا ہونے والے ہیں ۔بہار اب تک ایسے انسانیت سوز واقعات سے محفوظ تھا مگر بی جے پی سے اتحاد کے بعد بہار میںبھگوا ایجنڈہ نافذ نہیں ہوگا یہ یقینی نہیں ہے ۔یہ سیاسی اتحاد بہار کے لئے اس لئے خطرناک ہے کیونکہ اس بار بی جے پی کی پشت پناہی آرایس ایس کررہی ہے ۔ بی جے پی اقتدار میں ضرور ہے مگر ایجنڈہ سنگھ پریوار کا نافذالعمل ہے ۔اگر نتیش کمار سنگھ پریوار کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے بہار کو بھی جہنم بنانے پر تلے ہیں تو پھر انہیں بھی اپنے برے انجام کا یقین کرنا ہوگا کیونکہ بہار کی عوام اگر بی جے پی کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی تو انہیں بی جے پی سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ۔نتیش کا یہ فیصلہ عوام پر تھوپا ہوا فیصلہ ہے ۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
جواب دیں