سونے کی چڑیا اور کولمبس ….!! کہاں ہے میرا ہنروستان میں اس کو ڈھونڈھ رہا ہوں‎

اس کے باوجود ہم امریکہ سے ایک ہزار سال پیچھے ہیں اور آذادی کے بعد سے مسلسل زوال پذیر ہیں تو کیوں -اس کا بھی جواب آپ کو اسی مضمون میں مل جائے گا کہ ہندوستان جس وقت سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اس وقت یہاں پر مغلوں کی حکومت تھی اور انہوں نے نہ صرف انفرادی اور قبائلی زندگی بسر کرنے والی منتشر قوموں کو متحد اور منضبط کیا اس پورےخطے میں عدل و انصاف اور مذہبی رواداری کی فضا قاںُم کرتے ہوےمختلف فلاح وبہبود کے کام کے ساتھ ہندوستانی معاشرے کو تہذیب و اخلاق کے ایک نںُے رنگ میں ڈھال دیا -ان کی تعمیر کی ہوئ خوبصورت عمارتیں آج بھی پوری دنیا میں تعمیراتی علوم اور امور پر تجربہ کرنے والے آرکیٹکٹ اور سول انجینئرنگ کے طالب علموں کیلئے یونیورسٹی اور تجربہ گاہ کا درجہ رکھتی ہیں اور دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ آخر ایک ایسے دور میں جبکہ نہ تو اس وقت جدید ٹکنالوجی تھی اور نہ ہی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے میر کارواں سرسید احمد اور علی گڈھ تحریک کا وجود ہی تھا تاج محل اور لال قلعہ جیسی خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کیسے ممکن ہو سکیں-انگریز حکمرانوں کی اخلاقی غیرت اور فراخ دلی کو سلام کیا جانا چاہیے کہ جس طرح سے انہوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی اگر وہ چاہتے تو مسلمانوں کی دشمنی میں ان عمارتوں کو بھی اسی طرح بارود کا ڈھیر لگا کر نیست و نابود کر دیتے جیسے کہ 6 دسمبر 1992 میں ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں پانچ سو سالہ پرانی عمارت بابری مسجد شہید ہو گئ -مگر انہوں نے ان تاریخی عمارتوں کو آثارقدیمہ کے طور پر رجسٹرڈ کر کے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا -بعد میں انگریزوں نے پورے ملک میں خود بھی اہم سرکاری عمارتیں تعمیر کیں اور ہر طرف جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوےُ ریلوے لاںُنوں کا جال بچھا دیا اور سونے کی چڑیا ہندوستان کی شان و شوکت جوں کا توں برقرار رہی – اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پورے دور کو غلامی کا دور کہتے ہیں اور ہر سال جشن آذادی بھی مناتے ہیں-ہم یہ جشن کیوں مناتے ہیں اور اس آذادی سے ہمیں کیا حاصل ہوا اس کا بھی جواب ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ ہماری آستھا ہے اور ہم اپنی اس خوبصورت دیوی آستھا کے آگے ہر روز کسی نہ کسی پنسارے -دابھولکر اور اخلاق کے خون کا بلیدان پیش کرتے رہتے ہیں – جبکہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان آذادی سے پہلے جتنا آذاد

«
»

دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے آخر کون۰۰۰؟

موہن بھاگوت: ہوئے تم دوست جس کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے