چپ تھے تو برا کررہے تھے بولے تو اور برا کردیا

مودی صاحب سے بیان اس پر دینے کے لئے کہا جارہا تھا کہ وہ مندر کے اس پجاری اور ان ہزاروں ہندوؤں سے کیا کہتے ہیں؟ جنہوں نے 2014 ء میں ایک ایک ووٹ انہیں دے کر وزیر اعظم بنایا تھا اور جن کا نعرہ ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس لیکن مودی صاحب نے بارہ دن کی مجرمانہ خاموشی کے بعد جو بیان دیا ہے اس میں انہوں نے دادری کے ظالم ہندوؤں ور اسی گاؤں کے مظلوم مسلمانوں کو برابر کا ذمہ دار قرار دے کر فرما دیا کہ ’ہندو مسلمان غربت سے لڑیں آپس میں نہ لڑیں بہت اچھا ہوتا اگر مودی صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ صرف اس بقرعید کے موقع پر پورے ملک میں مسلمانوں نے کتنی جگہ ہندوؤں پر حملہ کیا اور کتنے ہندوؤں کو قتل کیا؟
این ڈی ٹی وی انڈیا کے ممتاز نیوز ایڈیٹر رویش کمار کئی دن سے بذات خود بہار میں ہیں۔ وہ 7 اکتوبر کو دن بھر نتیش کمار کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر ہر جلسہ میں گئے اور ہم سب کو بھی دکھایا کہ بھیڑ کتنی ہے اور نتیش کمار کس طرح کہہ رہے ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں؟ انہیں بہار سے اس لئے تو دلچسپی ہے ہی کہ وہ ایک فیصلہ کن الیکشن ہے لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ وہ خود بہاری ہیں۔ اس کے طفیل میں ہم سب نے بھی بہت کچھ دیکھ لیا۔ اپنی زندگی کے کئی برس سیاسی سرگرمی میں گذرے ہیں۔ برسراقتدار وزیر اعلیٰ کی تقریر سننے سے بہت کم لوگوں کو دلچسپی ہوتی ہے اور جب کوئی وزیر اعلیٰ دس برس سے برابر بول رہا ہو تو لوگ گھر بیٹھے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ وہ کیا کہے گا؟ لیکن رویش کمار صاحب نے نتیش کمار کے چار جلسے دکھائے اور سنوائے۔ سننے والی بھیڑ کی تعداد نے ثابت کردیا کہ انہیں اپنے وزیر اعلیٰ سے واقعی محبت ہے۔ شاید یہی سبب تھا کہ کہیں بھی وہ آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ انہوں نے مودی کے بیانات کا جواب ضرور دیا لیکن نہ گلا پھاڑا نہ گھونسہ دکھایا نہ کوئی ناشائستہ بات کہی۔ لیکن انہوں نے یہ ضرور معلوم کیا کہ دو سال پہلے وہ لوک سبھا کے الیکشن کے موقع پر بہار کے لوگوں سے جتنے وعدے کرگئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی کیا پورا کیا؟ اور انہوں نے لڑکیوں کو مودی کی طرف سے اسکوٹی دیئے جانے پر یہ بھی معلوم کرلیا کہ ان غریب لڑکیوں کو جو صرف ہوا بھرواکر سائیکل سے اسکول آتی ہیں ان کی اسکوٹی کے لئے پیٹرول کون دے گا؟ اور یہ تمام سائیکلیں نتیش کمار نے دی ہیں۔
ہم نے بار بار نتیش کمار کو سنا ہے لیکن انتخابی تقریریں الگ ہوتی ہیں ان میں بھی نتیش کمار نے اپنی کسی تقریر میں چاند ستارے، زمین اور آسمان دینے کے جھوٹے وعدے نہیں کئے۔ بس یہ کہا کہ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ کسی بہاری کی شرم سے گردن جھکے اور نہ میں آئندہ ایسا کوئی کام کروں گا۔ میں نے جتنا کیا وہ سب دیکھ رہے ہیں اگر مرکزی حکومت دشمنی نہ کرے اوار ایمانداری سے جو بہار کا حصہ ہوتا ہے وہ دے دے تو ہم کم پیسوں میں بھی وہ کردیں گے جو ہم سے چار گنا رقم سے بھگوا سرکاریں نہ کرسکیں۔ اور 8 اکتوبر کا پورا دن رویش کمار نے مودی کے ساتھ گذارکر ان کی چار ریلیاں دکھائیں اور سنوائیں۔ وہ وزیر اعظم ہیں لیکن کام وہ کررہے ہیں جو امت شاہ کو کرنا چاہئے تھا جیسے ہر الیکشن میں حکومت منموہن سنگھ چلاتے تھے اور الیکشن سونیا اور راہل لڑاتے تھے۔ اسی دوہرے بوجھ سے وہ آپے سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ وہ نتیش کمار کے ہر انتخابی وعدوں کو دہراکر اپنے سستے انداز میں معلوم کرتے ہیں کہ بتاؤ یہ پورا کیا؟ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے جو صرف 17 مہینے پہلے دن ہی سامعین سے وعدہ کیا تھا کہ ہماری سرکار بنتے ہی مہنگائی ختم ہوگئی ہے۔ لیکن وہ اتنی بڑھ گئی کہ دالیں دولت والوں کے کھانے کی ہوگئیں اور سبزی غریب بھول گئے۔ اب عام گھروں میں چٹنی چاول کھایا جارہا ہے اور ہر کوئی یہ سنتے جارہا ہے کہ شاید 15 لاکھ والے وعدہ کی کوئی نئی تاریخ مودی صاحب بتائیں گے جبکہ ہر ٹی وی والا بتا رہا ہے کہ وہ کالا دھن آگیا اور ہر کسی کے حصے میں 18 روپئے آئے ہیں جس میں 100 گرام دال مل جائے گی۔
جس دن جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ گائے کا گوشت تو میں بھی کھاتا ہوں اور آئندہ بھی کھاؤں گا کسی کی ہمت ہو تو روک لے۔ اسی دن سیکولرازم کا سب سے بڑا نمونہ لالو یادو بھی بول پڑا تھا کہ ’’کیا ہندو گوشت نہیں کھاتا؟‘‘ مودی کی فوج نے اسے دانتوں سے دبا لیا اور پورے بہار میں شور مچا دیا کہ لالو بھی کھاتے ہیں اور سب ہندوؤں کو ماس کھانے والا کہا ہے۔ ہم اس وقت حیران رہ گئے جب وزیر اعظم نے شری لالو اور گائے کے مسئلہ پر زبان کھول دی اور انہوں نے ثابت کردیا کہ انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ بہار کا الیکشن اُن کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے معلوم ہے کہ ملک کی آٹھ ریاستوں میں گائے کھائی جاتی ہے جن میں گوا بھی شامل ہے اور داخلہ کے اسٹیٹ منسٹر بتا چکے ہیں کہ وہ بھی کھاتے ہیں ور کسی کو حق نہیں ہے کہ ن کے کھانے پر پابندی لگائے۔
’’ہندوازم اور ہندو دھرم کے سب سے بڑے مبلغ سوامی وویکانند جی کہتے ہیں کہ ’’آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ قدیم ہندو ریت رواج کے مطابق جو آدمی بڑے کا گوشت نہیں کھاتا وہ اچھا ہندو نہیں ہوسکتا۔‘‘ (سوامی وویکانند کے مضامین جلد سوم باب 5 صفحہ 36 )
آزاد ہندوستان کا جب دستور بنایا جارہا تھا تو آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی پارٹیوں نے یہ کہہ کر اس کی سخت مخالفت کی تھی کہ ہمارے پاس منو اسمرتی موجود ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی دستور کی ضرورت نہیں ہے اسی کو بھارت کا دستور بنا لیا جائے منو اسمرتی کے پانچویں باب اشلوک نمبر 30 میں لکھا ہے کہ۔ ’غذا کے لئے استعمال کئے جانے والے جانوروں کا گوشت کھانا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان جانوروں اور ان کا گوشت کھانے والوں دونوں کو بھگوان نے ہی پیدا کیا ہے۔
مہاراشٹر میں نئی حکومت بننے سے پہلے سب سے زیادہ گائے وہاں کاٹی جاتی تھی اور سنبھل کے ایک سیخ کباب بنانے والے اور ان کے کاریگر پونے میں گائے کے گوشت کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتنا اچھا گوشت انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور جب انہوں نے ایک شادی کی دعوت میں کباب بنائے تو یہ دیکھ کر اور زیادہ حیران ہوئے کہ ایک ہندو شوہر اور مانگ میں سیندور بھرے اس کی پتنی نے جی بھر کے کباب کھائے اور تعریف بھی کی۔ انہیں بعد میں بتایا گیا کہ مرہٹہ قوم کھانے میں سب سے زیادہ گوشت کھاتی ہے اور ان کی ہی حمایت کی وجہ سے بال ٹھاکرے نے مرہٹہ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کو اپنا بنا لیا اور ستمبر میں جب جینیوں کی دھمکیوں کی وجہ سے بی جے پی حکومت نے آٹھ دن گوشت نہ بکنے اور نہ کھانے کا حکومت سے حکم دلوایا تو اودھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے ہی میدان میں آئے اور پابندی پہلے چار دن پھر دو دن کرادی اور پھر وہ بھی ختم ہوگئی۔ ایسی حالت میں مودی صاحب کو اتنی نیچی سطح پر اُترکر الیکشن لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی ہار نظر آرہی ہے۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے