یہ وقت امتحاں ہے ذرا تو سنبھل کے چلنا

نظر اٹھاکر دیکھئے کہ ایک طرف جہاں سیاسی گہما گہمی کا دور میں بہار کی سیاست اپنے نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور تقریبا تمام ہی چھوٹے بڑے اور نئے پرانے سیاسی نمائندے امید کی ٹوپی اپنے سر پر لگائے اپنے مشن میں اس طرح مصروف ہیں جیسے کسی نے ان کے کان میں آکر ا ن کوکامیابی کی بشارت دے دی ہو اور بس یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی منزل کو پانے کے وہ تمام راستے اپنا نے شروع کر دئے ہیں جن پر چلنے سے انہیں اپنی کامیابی کی امید نظر آرہی ہو ، وہیں دوسری طرف ریاست کے مسلمان تمام تر بدلتے حالات سے اپنی آنکھیں موند کر بس تماشائی کا رول ادا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،اور سچ پوچھئے تو سیاسی حصہ داری کے اس منظر نامے میں کم از کم ابھی تک انہوں نے اپنا کوئی ایسا مضبوط رخ واضح نہیں کیا ہے جو ملکی سطح پر انکی سیاسی قیمت کا احساس دلا سکے اور وہ بھی شاید اس لئے کہ اگرچہ مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا دم بھر نے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن انہیں سیاسی گہماگہمی کے اس ماحول میں ایسا کوئی رہنماء دور دور تک نظر نہیں آتا جن کی ایک آواز مسلم قوم کی زندگی کا رخ بدل دے ،یا جس کے مشورے کو عوام کی اکثریت اپنے لئے حکم کا درجہ مانتی ہو عجیب بات یہ ہے کہ ایسی حساس صورت حال میں ان با اثر علماء کی زبان پر بھی خاموشی کے تالے لگے ہوئے جن کے عزم و حوصلے اور جرات وہمت کی گواہی آج تک اس ملک کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے، حالانکہ اگر اس وقت کے سیاسی منظر نامے کا سرسری جائزہ بھی لیا جائیتو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر تقریبا بہار کی تمام قوموں نے ٹوٹے پھوٹے معاہدے کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک اپنی حکمت عملی طے کر لی ہے اور انہوں نے اپنے لئے ایسے رخ اپنانے کا ماحول پیدا کر دیا ہے جس سیان کے کامیاب مستقبل کی امید روشن ہو سکے ،بڑی معذرت کے ساتھ میں یہ عرض کردوں کہ میں بات اس مسلم قوم کی کر رہا ہوں جس کے رعب وہیبت سے کسی زمانے میں یہاں کی سیاسی جماعتوں کے ہوش اڑ جایا کرتے تھے ،اور جن سے آنکھیں لڑانا نہ صرف جرم کی حیثیت رکھتا تھا بلکہ ان کے ایک اشارے سیاست کارخ بدلنے کے لئے کافی سمجھے جا تے تھے ،مگر آج حالت یہ ہے کہ سیاسی حصہ داری کے اس دور میں تمام تر پارٹیاں ان کو اس طرح نظر انداز کر رہی ہیں جیسے اس ملک کے اندر ان کا اپنا کو ئی سیاسی وجود ہی نہیں ہے ،عجیب بات تو یہ ہے کہ اس پالیسی میں صرف وہ جماعتیں ہی پیش پیش نہیں ہیں جو مسلمانوں سے نفرت رکھتی ہیں یا جن کو مسلمانوں کے مفادات سے کچھ لینا دینا نہیں ہو تا بلکہ وہ پارٹیاں بھی اپنے مشکوک کردار کے ساتھ میدان عمل میں ہیں جن کو شاید بولنا چلنا اور سیاست کا ڈھنگ مسلمانوں نے ہی سکھایا ہے بلکہ اگر یہ کہ دیا جائے تو کسی کو اعتراض نہیں ہو نا چاہئے کہ آج اگر یہ پارٹیاں زندہ ہیں اور ان کی رگوں میں سیاست کا خون دوڑ رہا ہے تو یہ ان ہی مسلمانوں خاص کر علماء4 کی کرم فر مائی کا نتیجہ ہیجنہوں نے اپنے ایماندارانہ خون سے ان کو سینچا ہے ،لیکن کیا کیجئے خود اپنی کمزوریوں اور خانہ جنگیوں نے مسلم قوم کو ایسے موڑپر لا کھڑا کر دیا ہے جس پر جتنا سر پیٹا جائے کم ہے ،آج یوں تو ہر کوئی خود کو مسلمانوں کا قائد و رہنما بتاکر عوام کے بیچ اپنی موجودگی درج کرانے کے لئے بے تاب ہیاور اس معاملے میں ایک دوسرے پر بازی لے جا نے کو اپنے لئے فخر کی بات سمجھتا ہے لیکن آپ اگر چراغ لے کر کھوجیں تو ایک بھی ایسا شخص آپ کو نظر نہیں آئے گا جس کے سینے میں قوم کا درد اور ان کے شاندار مستقبل کی فکر ہو اور جو قوم کی فکر کے ساتھ ملک کی شاندار ترقی کا سپنا دیکھتا ہو ،مجھے معاف کیجئے میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو سیاسی مفادات کے لئے مسلم قوم کی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے وقار کا سودا کر نا اور انہیں اپناعملی وفکری غلام بنا کر رکھنانہ صرف اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں بلکہ ان کے قول و فعل کا تضاد ہمیشہ مسلم قوم کی تباہی و بر بادی کا ذریعہ بنتا رہا ہے کیونکہ ایسے لوگ تو آپ کو ہر گلی اور چوک چوراہے پر پوری طرح بے حیائی و بے شرمی کے ساتھ اپنا کالر سیدھا کرتے نظر آ جا ئیں گے لیکن ان سے کسی بھی طرح کی امید خود آپ کی اپنی کمزوری کے مترادف ہوگا ،بلکہ مجھے افسوس تو ان سیاسی و ملی رہنماوں اور دور اندیش علماء4 کے طرز عمل پر ہے جو اگر چہ زندگی کی شب و روز میں مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی کا دعوی تو نہیں کرتے مگران کے دلوں میں قوم کی محبت ہر لمحہ جوش مارتی ہے اور ان کے سینوں میں پائی جانے والی تڑپ و بے چینی ہر وقت انہیں زندہ و فکر مند بنائے رکھتی ہے ،لیکن آج جبکہ اس وقت بہار کی عوام کو ان کے اشاروں کا انتظار ہے اور یہاں کے سنجیدہ و سیکولر مزاج لوگ بارباران کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں انہوں نے خاموشی اختیار کر کے پوری قوم کی پیشانیوں پر فکر کی لکیر کھینچ دی ہے ،حالانکہ کہ یہ احساس تو شاید انہیں بھی ہو گا کہ ان کے اشارے پوری قوم کے لئے حکم کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور مجھے بھی چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ اگر ہمارے رہنماء4 ذاتی مفادات و خود غرضانہ طرز عمل کو چھوڑ کر خالص انسانی فکر و احساس پر مسانوں کے حقوق کی بقا و تحفظ کے لئے ایک ساتھ آواز دیں تو ان کی ایک للکار پورے سیاسی خیمے کی نیند اڑا سکتی ہے لیکن اس کے لِئے سب سے پہلے ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوگی اور ماضی کی خول سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف رخت سفر باندھنا ہوگا ، غور کیجئے آج بہار کے حالات بہت ہی زیادہ بدلے بدلے سے نظر آ رہے ہیں اپنی مضبوط نما ئندگی کا نعرہ دے کر مسلمانوں سے وفاداری کا دعوی کر نے والے کئی لوگ آج میدان میں کود چکے ہیں اور ہر کوئی اپنی قیادت اور اپنی سیاست کی بات کر رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی صف بندی میں ان کی یہ کوشش کس کے لئے سود مند اور کس کے لئے نقصان دہ ہو گی اس پر بحث و تبصرے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس حوالے سے ساری تفصیلات سامنے نہیں آجاتیں ،ادھر بہار کی سیاست میں تیسرے مورچہ کی اچھل کود نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی مضبوط منسوبہ بندی کے سامنے کئی مشکلیں کھڑی کر دی ہیں ،اور ہاں یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس وقت معاملہ صرف سیاست کا نہیں بلکہ پوری قوم کی تقدیر کاہے اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ فرقہ پرست جماعتیں بہار کو توڑنے اور یہاں کے ماحول میں نفرت و تعصب کا زہر گھولنے کی سازشوں میں مصروف ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار کا سیکولر طبقہ حالات کی سنگینی کو محسوس کر کے کوئی ایسا قدم اٹھا ئے جو بہار کے شاندار مستقبل کو یقینی بنا سکے ،مجھے چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ بہار کی یہ وہ سرزمین ہے جو اپنے سیکولر کردار کے لئے ہمیشہ مشہور رہی ہے جسے نفرت کی بھٹی میں جھلسا کر اس کے سیکولر کردار کو مسخ نہیں کیا جا سکتا ،تاہم اس کے جمہوری کردار کی بقا و تحفظ کے لئے سیکولر طبقہ کو اپنی ذمہ داریاں محسوس کر نی ہو گی اور فرقہ پرست طاقتوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے اجتماعی حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہہو گا ۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے