تو بھی ذرا میری یہ داستاں سن لے

ایسے کھلاڑی بھی ہر موڑ پر برساتی مینڈک کی طرح دکھائی پڑ رہے ہیں جنہوں نے اس کھیل کا کوئی مطلب بھی نہیں سمجھا ہوگا اور شاید انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا آخر کن اصولوں کو اپنا کر سیاست کے ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے،اس میں اپنے بھی ہیں اور غیر بھی جانے پہچانے چہرے بھی ہیں اور انجان مکھڑے بھی ،عوام سے محبت کا دم بھر نے والے بھی ہیں اور نفرت کی سیاست کرنے والے مکروہ لوگ بھی ،جی حضوری کرنے والے بھی ہیں اور مفاد پرست و ابن الوقت بھی ،وہ بھی ہیں جن کی پیشانیوں پر سیکولر کی مہر لگا دی گئی ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ اپنی سیاست کی روٹی سینکنے کے لئے نفرت و تعصب اور فرقہ پرستی کی بھٹی کا استعمال کرنے کے عادی ہیں ،اور اگر تھوڑا سنجیدہ ہوکر دیکھئے تو گنے چنے چند چہرے ایسے بھی آپ کو سیاست کے اسٹیج پر مل جائیں گے جو ذاتی مفادات کے لئے کسی بھی گندے لقمے کو اپنے حلق سے اتار لینا اپنا فن سمجھتے ہیں،ظاہر ہے کہ اس پورے منظر نامے کوبہار کے خوش آئند مستقبل کی علامت قرار دے دینا کسی بڑی خوش فہمی سے کم نہیں ،عالم تو یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو عوام کا محبوب بنانے اور ان کے کندھے پر بیٹھ کر اپنے آپ کو سیاسی منجھدار سے باہر نکالنے کے لئے گلی گلی چکر لگا نے کے ساتھ سڑکوں کی دھول پر سر رگڑ رہا ہے اور اگر آپ ان کو روک کر اپنی غیرت کو محفوظ نہ کریں تو یہ سیاسی بہروپئے آپ کی قدم بوسی میں بھی اپنے لئے شرم محسوس نہ کریں گے ،اور ہاں میں تو بھول ہی گیا کہ مسلمانوں کو اپنا بنانے اور اپنا سمجھنے کی وہی پرانی روش ایک بار پھر اختیار کی جا رہی جس کے مناظر آزادی کے بعد سے آج تک سینکڑوں نہیں ہزاروں بار دیکھے جا چکے ہیں اور ہمیشہ مسلمان اپنی وفاداری کے بدلے بے وفائی اور ظلم و نا انصافی کا درد جھیلتا رہا ہے ،بڑی عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ بھی بہروپئے کی طرح مسلم قوم کے سامنے بھیک کا پیالہ لے کر کھڑے ہیں جن کو بھیک دینا بھی اس قوم کے نزدیک جرم کی حیثیت رکھتا ہے ،اور وہ صرف اس لئے نہیں کہ وہ غیر ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے ہاتھ ان معصوموں کے خون سے رنگے ہیں جو اپنی توتلی زبان سے رحم کی بھی مانگتے مانگتے موت کا قدم چوم لیا۔
خیر یہ ہے بہار کے اندر جاری سیاست کی زمینی تصویر ، ایسی حالت میں آپ نے کیا سوچا ہیاور اس حوالے سے آئندہ کیا کر نا چاہتے ہیں وہ فیصلہ جلد کیجئے ،کہیں اس میں تاخیر نہ ہو جائے اس بابت میں آپ کو کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہوں کہ کہیں آپ اسے ایک سیاسی گالی سمجھ کر بکھر نہ جائیں لیکن دیکھئے بغیر دانشمندی کے کوئی بھی قدم بہار کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، کیونکہ معاملہ اس وقت صرف سیاست کا نہیں بلکہ قوم کے پر امن مستقبل کا ہے اور تمام تر سیاسی اصولوں کو اپنے پاوں سے روندتے ہوئے فرقہ پرست جماعتیں جس مہم میں سرگرم ہیں اس نے ہر کسی کی پیشانیوں پر سوالیہ لکیر کھینچ دی ہے ،خطرہ صرف یہ نہیں کہ آنے والے وقت میں بہار کی عوام کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر مہاتما بدھ کی اس دھرتی پر پھر سے نفرت کی بیج بونے کی کوشش کی جائے گی اور ماحول کو پراگندہ بنانے کے حیلے اور بہانے تلاش کئے جائیں گے بلکہ خوف تو یہ ہے کہ کہیں اس پورے سیاسی منظر نامے پر فرقہ وارانہ فسادات کی چادر نہ اوڑھا دی جائے ،جس کے اشارے وقفے وقفے سے ملتے رہے ہیں ،اس لئے بڑی ہوشیاری سے اپنے لئے کوئی سیاسی سمت طے کر نے کی ضرورت ہے تاکہ مایوسی و افسر دگی کے حالات دیکھنے کے لئے آپ کو مجبور نہ بنا یا جا سکے

«
»

صلیب اورمذہب مسیحیت

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام قرآن میں اور ان کی قربانیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے