مسلم مُکت بھارت کا منصوبہ ، ابتدا بہار سے

بجرنگ دل ، شیو سینا ، وشو ہندو پریشد ، درگا وا ہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا ، رام چرتر سینا، ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی، ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے منافرت اورفرقہ واریت سے بھرے غیر اخلاقی، غیر آئینی ا ور غیر جمہوری بیانات ، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ ایسے لغوبیانات کو عام طور پر ہذیان سے تعبیر کر نظر انداز کر دیتے تھے اور ایسا کرنا بھی چاہئے کہ ایسے غیر اخلاقی، غیر منصفانہ اور غیر مہذب بیانات کا مقصد ایک خاص طبقہ کو مشتعل کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے ۔ 
لیکن ابھی ابھی یوم آزادی کے موقع پر ریاست بہار ،جہاں بس چند ماہ میں ریاستی انتخاب ہونے والے ہیں،اس کے مد نظر حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات وزارت کی جانب سے ایک ایسا اشتہار بہار کے اخبارات میں شائع کرایا گیا ہے ، جسے دیکھ کر لوگ چونکنے پر مجبور ہو گئے ۔ یہ اشتہار انجانے میں نہیں ، بلکہ بہت سوچی سمجھی پالیسی کے تحت جاری کیا گیا ہے ۔ اس اشتہار میں ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے مختلف ادوار کے دس قابل فخر مجاہدین آزادی کی تصاویر ہیں ۔ ان دس مجاہدین آزادی اورمعمار بہار میں بابو کنور سنگھ ، راجندر پرساد، شری کرشن سنہا، جئے پرکاش نرائن ، بابو جگجیون رام، کرپوری ٹھاکر، بھولا پاسبان شاستری اور ان کے ساتھ ساتھ ہندی کے تین مشاہیر ادب رام دھاری سنگھ دنکر، پھنیشور ناتھ رینو اور بابا ناگرجن کی چھوٹی چھوٹی تصاویرکو وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی بڑی تصویر عقیدت سے پرنام کرتی نظر آ رہی ہے ، اور اس کے نیچے لکھا ہے…….
’’ یہ پاون دھرتی ہے ان کی ، جن سے اپنا اتہاس بنا ۔ نمن ان سپوتوں کو جن سے بھارت کا نرمان ہوا‘‘ 
حقیقت یہ ہے کہ ایسے سرکاری اشتہارات پر لوگوں کی نگاہ کم ہی ٹھرتی ہے ۔بس ایک اوجھل سی نگاہ ڈال کر لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ لیکن ریاست بہار میں ہونے والے انتخاب کے باعث ہی اس اشتہار پر کچھ لوگوں کی توجہ مرکوز ہو گئی اور یہ دیکھ کر ویسے لوگ جو ہندو مسلم اتحاد واتفاق ، ایکتا ویکجہتی پر یقین رکھتے ہیں اور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آزادئ ہند کی لڑائی میں، جہاں ایک جانب بہار کے ہزاروں مسلمانوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے ، وہیں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے وطن عزیز کے لئے اپنی متاع حیات کی قربانیاں دی ہیں ۔ دارو رسن کی صعوبتیں کو ہنستے ہنستے برداشت کیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس فسانے (اشتہار) میں ایک بھی کسی مسلم مجاہد آزادی یا معمار بہار کی تصویر کو جگہ نہیں دی گئی ہے ۔ 
؂ ہم نے کیا خون جگر سے جسے رنگین میرا ہی فسانے میں کہیں نام نہیں ہے
بہار کے مسلم شہیدان وطن اور ملک کے لئے جان و مال لٹانے والوں کو اس طرح ذلیل و رسوا کیا جائیگا اور حرف غلط کی طرح اس طرح مٹانے کی منظم کوشش ہوگی ، ایسا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ جن لوگوں کی تصاویر اس اشتہار میں شامل ہیں ، بے شک ان کی وطنی و قومی خدمات اور ان کے ایثار و قربانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اشتہار ترتیب دینے والا یہ کیسے فراموش کر گیا کہ بابو کنور سنگھ کے ساتھ ساتھ مادر وطن کے لئے لڑنے والی بہار کی جھانسی کی رانی حاجی بیگم بھی تھیں ۔ ان کے بارے میں مشہور تاریخ داں پروفیسر آلوک مدھوک نے ایک جگہ لکھا ہے… 
” No one know the heroic struggle of Haji Begum of sasaram against british forces. If history is written today

«
»

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ہندو پاک امن دشمن کون۰۰۰؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے