جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو

انہوں نے خود ہی تجویز کردیا ہے کہ اسے سکریٹریٹ یا سچیوالیہ کہلانے کے بجائے منترالیہ کہا جائے اس لئے کہ سکریٹریٹ جیسے لفظ برطانوی حکومت کی یاد دلاتے ہیں۔ شاید اس بات سے کسی کو اختلاف نہ ہو کہ مشورہ دینے سے زیادہ آسان کام کوئی نہیں ہے اور عمل کرنے سے زیادہ مشکل کوئی نہیں۔
ہم اپنے صوبہ کے گورنر شری رام نائک کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ اٹل جی کی حکومت میں پٹرولیم منسٹر تھے اور 2009 ء میں ایک فلم اسٹار گووندہ سے ہار گئے تھے جس کا انہیں برسوں دُکھ رہا۔ وہ جب سے گورنر ہوکر آئے ہیں انہوں نے اپنے بیانات سے ثابت کیا ہے کہ وہ علمی آدمی ہیں۔ رضا لائبریری رام پور سے جیسی دلچسپی کا انہوں نے اظہار کیا اس نے اس بات کی مزید تائید کردی۔ ان کی انہی خوبیوں کی بناء پر شاید انہیں ملک کے سب سے بڑے اور بعض لحاظ سے سب سے زیادہ اہم صوبہ کا گورنر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے ایک عمارت کے نام کو بھی برطانوی دَور کے جیسا ہونا پسند نہیں کیا لیکن خود کو اتنے بڑے گورنر ہاؤس میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس کے پھاٹک سے باتھ روم تک کے ایک ایک فٹ سے برطانوی طرز رہائش کی عکاسی ہوتی ہے۔ نہ تام جھام میں فرق، نہ محافظوں کے انداز میں فرق، نہ ملنے جلنے کی پابندیوں میں فرق اور نہ چپراسیوں کی وردیوں میں فرق؟ ہم رام نائک صاحب سے تو نہیں ملے نہ اُن کے دَور میں اس عمارت میں گئے لیکن اٹل جی کے زمانہ میں جو گورنر رہے یا ان کے بعد یا پہلے رہے ان سے بار بار ملنا ہوا اور ہر مرتبہ یہ احساس ہوا کہ صرف کچھ نام بدل گئے ہیں ورنہ سب وہی ہے۔
مودی صاحب کے محسن اعظم بابا رام دیو نے 2014 ء میں کہا تھا کہ مودی جی سے مجھے اس لئے محبت ہے کہ وہ بھی میری طرح سنیاسی جیسی زندگی گذار رہے ہیں۔ جورو نہ جاتا۔ وہ کمائیں گے کس کے لئے؟ اور بچائیں گے کس کے لئے؟ یہ راز تو اس دن کھلا جس دن بنارس میں انہوں نے نامزدگی فارم بھرا اور بیوی کے خانہ میں ایک نام لکھ کر یہ قبول کیا کہ مہینوں سے جو دگ وجے سنگھ ایک خاتون کو ان کی شریمتی بتا بتاکر انہیں بولنے پر آمادہ کررہے تھے وہ غلط نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بابا رام دیو کے درجنوں بیانات کے بعد ہم بھی سوچنے لگے تھے کہ اگر شری مودی وزیر اعظم بن گئے تو شاید بہت کچھ بدل جائے گا ہوسکتا ہے وہ صدر جمہوریہ کے اوپر ہونے والے کروڑوں روپئے ہونے والے اور گورنروں پر لاکھوں روپئے کے ہونے والے اخراجات میں بہت کچھ تبدیل کردیں گے۔ سادگی سادگی اور وکاس کی مالا جپنے والے وزیر اعظم شاید سب سے پہلے اپنے لئے چھوٹا اور بہت محفوظ مکان پسند کریں گے۔ اس کے بعد حکومت اور حزب مخالف کو عوام کی حالت کا حوالہ دے کر صدر صاحب کے محل اور گورنروں کی لق دق کوٹھیوں کے کھلے میدانوں میں چودھری چرن سنگھ کی طرح سرکاری ملازموں کے لئے زیادہ اچھے اور کم اچھے مکان بناکر دیں گے تاکہ ہر وزیر کا سکریٹری اس کالونی میں رہے۔ لیکن 18 مہینے میں ہر دن یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ ان ہی قدموں کے نشانات پر چلیں گے جو پنڈت نہرو نے انگریز نوازی کے جوش میں بنا دیئے ہیں اور آخری درجہ کی بات یہ ہے کہ انہوں نے جو ڈھول بجاکر کہا تھا کہ میں دنیا کے جس ملک میں جاؤں گا ہندی میں خطاب کروں گا۔ وہ اسے بھی نہ بنا سکے اور انگریزی کے دانشوروں کے کہنے کے مطابق انگریزی میں تقریر کرنے کے شوق میں چاہے غلطیاں بھی کرتے جائیں لیکن بول انگریزی ہی رہے ہیں۔
اور جو اُن کی سادگی کی شہرت تھی اسے انہوں نے ہر قیمت کا سوٹ پہن کر اور سوٹ کے تحفے قبول کر کے ثابت کردیا کہ ؂
مری خودداریاں تھکنے لگی ہیں
میں تحفے پا کے خوش ہونے لگا ہوں
حیرت ہے کہ رام نائک صاحب کو اس وقت برطانوی دَور کی یاد نہیں آئی جب وہ وزارت کا حلف لے رہے تھے یا جب وہ صدر جمہوریہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو برطانیہ کے شاہ یا ملکہ کی طرح اس تام جھام سے خطاب کرنے کے لئے آرہے تھے؟ جن کی بے اختیاری کا عالم یہ تھا کہ وہ جو آٹھ سو ممبروں کے سامنے خطبہ پڑھنے آرہے تھے اس میں ایک جملہ کیا ایک لفظ بھی ان کا نہیں تھا بلکہ وہ سرکار کے افسروں کا تیار کیا ہوا تھا۔ وزیر اعظم کا بھی نہیں لیکن وہ آاس طرح رہے تھے کہ صرف ان کے آنے پر ہی ہمارے جیسے غریبوں کے لاکھوں روپئے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اگر رام نائک صاحب ہمت کریں اور برطانوی روایات کو ٹھوکر مارکر دکھائیں تو خدا کی قسم ہم اُن کی شان میں قصیدہ لکھنے کا ریکارڈ بنا دیں گے۔ وہ اعلان کردیں کہ بجٹ اجلاس میں وہ خطبہ پڑھیں گے جسے وہ خود لکھیں گے اور پڑھنے سے پہلے کسی کو نہیں دکھائیں گے۔ اپنے محافظوں اور چپراسیوں کی وردیاں عام چپراسیوں جیسی کرادیں گے۔ اپنا دربار ہر ایک کے لئے کھول کر پھاٹک پر کھڑے محافظوں کو ہدایت دیں گے کہ صرف تلاشی لے کر ہر آنے والے کو آنے دیں وہ کاروباری ہو، کسان ہو، مزدور ہو، ٹیچر ہو یا طالب علم مرد ہو یا عورت دس بجے سے ایک بجے تک اور شام کو دو گھنٹے دربار عام کریں گے اور ہر فریادی کا مسئلہ متعلقہ وزیر کے سپرد کرکے اور اس کی شکایت دور کرائیں۔
حیرت ہے کہ ہمارے لوک پال مہامہم کو ایک نام میں تو برطانوی دَور کی بدبو محسوس ہورہی ہے لیکن انہوں نے جب گورنر ہاؤس میں قدم رکھا اور ایک مہینہ کی اپنی سرکاری مصروفیت دیکھی تو کیا انہوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ میں جب وزیر تھا تو نہ میری کوٹھی اتنی بڑی تھی نہ اس کے پھاٹک پر توپیں رکھی تھیں نہ میری تنخواہ اور مراعات اتنی تھیں، نہ تام جھام اتنا تھا اور کام اتنا تھا کہ مجھے نہ دن میں فرصت تھی نہ رات میں۔ لیکن یہاں میں جتنا کام کررہا ہوں اور میں جو وصول کررہا ہوں انہیں میں برطانوی دَور کی لفٹوں میں سے ایک لعنت سمجھتا ہوں۔ آپ مجھے یا تو کام دیجئے ورنہ میں جو پارہا ہوں اسے حرام سمجھ کر چھوڑکر گھر چلا جاؤں گا؟
1998 ء میں اٹل جی نے جو حکومت بنائی تھی وہ 28 پارٹیوں کی حمایت سے بنائی تھی۔ ان میں وہ ننگے بھوکے بھی تھے جو سب کچھ وہ کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے نہروجی کے اور اندرا گاندھی کے زمانہ میں دیکھا تھا۔ اس وقت اگر اٹل جی ایسی حکومت اور وزیروں کو جیپ اور موٹر سائیکل پر چلنے کی صلاح دیتے تو بغاوت ہوجاتی اور پھر حکومت ان سے سنبھالے نہ سنبھلتی۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اٹل جی بھی شاید محنت کرتے کرتے تھک گئے تھے اور اس پوزیشن میں آگئے تھے کہ وہ لنگڑی ہو یا کانی اب حکومت سے شادی کرہی لینا چاہئے اور انہوں نے کرلی۔ لیکن اب مودی صاحب کسی معمولی سی تبدیلی کے بجائے خود بھی جب تین سو ممبروں کی حمایت کے باوجود وہی کریں جو نہرو سے سردار جی تک سب نے کیا تو اب ہمارے جیسوں کا خون جلانا کیا اور مہامہم کا ایک لفظ پر اعتراض کرنا کیا؟ ؂
آرام بڑی چیز ہے منھ ڈھک کے سویئے

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے