دہشت گرد آدمی کا ہے کو خواب ہے دیوانے کا

ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ایک پورا دن اس پر بحث ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ اور کون کیا کرنے کے بعد دہشت گرد ہوجاتا ہے؟ مثلاً ایک تو دہشت گردی وہ ہے جو گرداس پور میں پاکستان سے دو لڑکے ایک لڑکی آئی اور فائرنگ کرتے عام انسانوں کو زخمی کرتے تھانے میں گھس گئے اور پوزیشن لے کر جو لائے تھے اسے پھونکنا شروع کردیا اور ایک ایس پی، ان کی پولیس کے سپاہیوں اور دو شہریوں کو مارکر خود بھی موت کی نیند سوگئے۔ وہ اپنے نزدیک جنت میں گئے اور اسلام کے نزدیک جہنم کی بدترین جگہ ڈال دئے گئے ہوں گے۔
سب سے پہلے دہشت گردی کی تعریف اور تفصیل طے ہونا چاہئے کہ وہ کیا ہے؟ پاکستان بننے کے بعد جو لاکھوں مسلمان پاکستان گئے وہ صرف اس لئے کہ انہیں خوف اور ڈر تھا کہ وہ ہندوستان میں رہے تو یا ماردیئے جائیں گے یا وہ پورے اور اچھے مسلمان بن کر نہ رہ سکیں گے۔ لیکن ان میں ہم جیسے مسلمان بھی تھے جو کروڑوں تھے ہمارے والد بہت بڑے عالم تھے۔ پاکستان والوں نے ان کو اور مولانا علی میاں کو نہ جانے کتنی بار بلایا۔ مال روڈ لاہور پر دو کوٹھیاں دونوں کے لئے ایک برس تک اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن ہمارا سارا گھرانہ نیشنلسٹ کہا جاتا تھا یعنی پاکستان کے مخالف۔ ہم والد کے ساتھ مغرب یعنی لاہور کے بجائے مشرق یعنی لکھنؤ آگئے صرف اس لئے کہ جو مسلمان یہاں اپنی غربت کی وجہ سے یا نظریہ کی وجہ سے رہ رہے ہیں وہ بے سہارا نہ ہوجائیں۔ یہی پاکستان میں ہوا کہ نہ جانے کتنے ہندو اور سکھ اسی ڈر سے ہندوستان آگئے۔ لیکن یہ دہشت گردی نہیں تھی یہ ایک انقلاب تھا اور ہر انقلاب کی کہانی لکھنے کے لئے خون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی تھا بہرحال وہ کہانی ختم ہوگئی۔ اب وزیر داخلہ راج ناتھ صاحب یہ بتائیں کہ 1961 ء میں جبل پور میں 1963 ء میں جمشید پور راوڑ کیلا اور کلکتہ میں کئی ہزار مسلمان ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گئے وہ کیا تھا؟ بات یہ نہیں ہے کہ غلطی کس کی تھی؟ بات یہ ہے کہ جب وہ ہزاروں آدمی مار دیئے گئے تو وہاں پولیس بھی تھی کانگریس کی حکومت بھی تھی وزیر بھی تھے وزیر اعلیٰ بھی تھے اس کے باوجود کسی بھی مارنے والے کی گرفتاری ہوئی نہ مقدمہ چلا نہ سزا ہوئی۔ پھانسی کا لفظ بھی کسی کی زبان پر نہیں آیا۔ وزیر داخلہ وہ ہیں کہ ہر فائل اُن کی وزارت میں موجود ہے اب وہ بتائیں کہ وہ کیا تھا؟ اور اگر دہشت گردی تھی تو دہشت گرد کون تھا؟ کیا وہ افضل یا یعقوب جیسا تھا یا کرنل پروہت اور پرگیہ ٹھاکر جیسا؟
اس کے بعد بھاگل پور پھلواری، گیا اور نہ جانے کہاں کہاں؟ 1978 ء میں سنبھل 1980 ء میں مراد آباد 1987 ء میں میرٹھ 1964 ء میں گجرات پھر 2002 ء میں مودی کے گجرات میں جو کچھ ہوا کیا ان تمام پچاس ہزار مسلمانوں کے قاتلوں میں دہشت گرد کوئی نہیں تھا؟ نہ بال ٹھاکرے نے سامنا میں زہر پاشی کی نہ کسی ایک ہندو کے منھ سے آواز آئی کہ پکڑو قاتلوں کو اور پھانسی دو سالوں کو۔
اور قریب آجائیے کہ مظفر نگر میں جاٹوں نے مسلمانوں کو مارا وہ غریب تھے کمزور تھے کچھ مرگئے باقی اپنے گھر، وہ جیسے بھی تھے سب چھوڑکر بھاگ آئے اور دو برس ہوگئے اس لئے نہیں گئے کہ جاٹوں نے کہہ دیا کہ ہمارے گاؤں میں نہیں رہو گے۔ ہر حکومت کانگریس کی ہو یا جس کی بھی اتنی ہمت نہ دکھا سکی کہ اگر وہ ان کا مکان ہے وہ مالک ہیں ان کی زمین اپنی ہے تو کس جاٹ کی طاقت ہے جو کہے کہ گاؤں ہمارا ہے؟ لیکن سب کو ہم مسلمانوں نے نئے مکان دیئے اور وہ گاؤں ان کے لئے دشمنوں کا ملک ہوگیا۔ کیا ان کو دہشت گرد جاٹ نہیں کہا جاسکتا؟ ہریانہ کے ایک گاؤں اٹالی میں مٹھی بھر مسلمان تھے وہ صرف مسلمان بن کر رہنا چاہتے تھے اپنے پیسوں سے مسجد بنا رہے تھے۔ جاٹوں نے مسجد میں آگ لگادی، مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگادی سب کو مارا اور مارکر گاؤں سے بھگا دیا وہ کئی مہینے تھانے میں پناہ لئے پڑے رہے۔
وزیر اعلیٰ مودی صاحب کے لنگوٹیا یار ہیں اسی لئے اس کرسی پر بیٹھے ہیں حکومت کا کوئی تجربہ نہیں۔ بس جو مودی کہیں وہ حکومت ہے۔ رویش کمار اپنے یونٹ کے ساتھ اٹالی گئے ہریانہ اور مغربی یوپی کے جاٹوں کا رہن سہن ایک جیسا ہوتا ہے۔ چوپال میں کئی بزرگ بیٹھے تھے کالے بال والے بھی تھے۔ رویش ایک ٹی وی ایڈیٹر ہیں انہوں نے معلوم کیا کہ سفید بال والوں نے کہا کہ مسلمان خود گئے ہیں خود آجائیں کالے بالوں سے آواز آئی کہ اس شرط پر آسکتے ہیں کہ گرفتاری کوئی نہیں ہوگی۔ راج ناتھ ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ اب وہ بتائیں کہ مظفرنگر کے جاٹوں مسلمانوں اور اٹالی کے جاٹوں اور مسلمانوں میں کوئی دہشت گرد ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کون؟ کیا مظفرنگر کے جاٹوں اور اٹالی کے جاٹوں کو یہ حق ہے کہ وہ غریب مسلمانوں کو چاہیں تو گاؤں میں آنے دیں اور اس شرط پر کہ وہ کسی اس ہندو جاٹ کے خلاف جس نے انہیں مارا تھا نہ رپورٹ لکھائیں گے اور نہ گواہی دیں گے اور نہ کسی جاٹ کی گرفتاری ہوگی اس نے چاہے جتنے جرم کئے ہوں؟ کیا یہ وہی تو نہیں ہے کہ جو احمد آباد میں ہوا تھا کہ ہزاروں مسلمانوں کو قبروں میں سلاکے جب مسلمانوں نے اپنے مکانوں میں واپس آنیا چاہا تو اُن سے کہا گیا کہ وہ محلہ میں مسلمان بن کر نہیں رہ سکتے اگر ہندو بن جائیں تو آسکتے ہیں اور وہ آج تک شرنارتھیوں کی زندگی گذار رہے ہیں۔ شری مودی نے نہ اس وقت انہیں دہشت گرد کہا اور نہ جاکر اُن سے کہا کہ تم مسلمانوں کو آنے دو یا اتنا ہی کردو کہ ان کے مکان کی قیمت دے دو تاکہ وہ کہیں ٹھکانہ بنالیں؟ راج ناتھ جی غور سے دیکھ کر بتائیں کہ یہ بھی دہشت گردی نہیں ہے؟
یہ کہانی مضمون نہیں کتاب چاہتی ہے۔ اس لئے آخری بات پر آجایئے۔ ان کے منھ سے بارہ بم دھماکوں اور 257 کی موت درجنوں بار صرف اسی ہفتہ میں نکلا ہے۔ ٹاڈا عدالت اور سپریم کورٹ کی بات بھی کہی ہے۔ کیا جسٹس کرشنا کمیشن رپورٹ کا نام ایک دفعہ بھی ان کی زبان پر آیا؟ نہیں آیا تو کیا حق ہے انہیں انگلیاں نچا نچاکر دھماکوں کی بات کرنا اور جو دو ہزار مسلمان تڑپ تڑپ کر مرے اور ان ہی دنوں میں مرے اور جسٹس کرشنا کے لکھنے کے مطابق شیوسینا، بی جے پی، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور باوردی پولیس کی بندوقوں، تلواروں، ترشول اور پھرسوں سے مارے گئے ان کا ایک بار بھی ذکر نہ کرنا تقریر میں جوش اتنا دکھانا کہ کھوپڑی پر پسینہ بہتا ہوا نظر آئے اور ناانصافی اتنی کہ ہندو کے مجرم ہونے کا ذکر ایک بار بھی نہیں؟ اور اعلان کہ وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں بی جے پی کے نہیں؟
دہشت گردی غنڈہ گردی جسے کہتے ہیں وہ خوف، ڈر، خطرہ اور Hk; ہے اگر حقیقت یہ ہو کہ پورے ملک میں ہر مسلمان ڈرے تو ہر ہندو دہشت گرد ہے اور مسلمان سے ڈرے تو مسلمان دہشت گرد ہے۔ ایک وزیر داخلہ دس منٹ میں معلوم کرسکتا ہے کہ کتنے مقام ایسے ہیں جہاں مسلمان خوفزدہ ہیں وہاں کے ہندو دہشت گرد ہیں اور جہاں کے ہندو خوفزدہ ہیں وہاں کے مسلمان دہشت گرد ہیں۔ ڈیڑھ بالشت کی ریاست تری پورہ کے گورنر یعقوب کے جنازے کا جلوس دیکھ کر شاید دہل گئے اور کہہ بیٹھے کہ ان میں دہشت گرد ہوسکتے ہیں؟ انہوں نے بے وجہ تکلف کیا انہیں بھی ٹکے ٹکے کے ہندوؤں کی طرح کہنا چاہئے تھا کہ جس نے پھانسی کی مخالفت کی وہ دہشت گرد ہے اور جس نے اس کے جنازے میں شرکت کی وہ سب دہشت گرد ہیں۔ مودی صاحب نے بھی نہ جانے کسے کسے پکڑکر مہامہم بنا دیا ہے؟ اتنی بھی انسانیت نہ ہونا کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کسی بھی مرے کے جنازے یا ارتھی کے ساتھ جانے والے سوگوار یا غمزدہ ہوتے ہیں نہ وہ سیاسی ہوتے ہیں نہ ہندو نہ مسلمان صرف انسان ہوتے ہیں انہیں بھی اگر کوئی ہندو دہشت گرد کہہ دے تو اسے کیوں نہ رام نریش یادو کی طرح باہر کا راستہ دکھایا جائے اور کسی تربیت گاہ میں داخل کرایا جائے کہ وہ مرنے کے بعد کے آداب تو سیکھ لے؟
حقیقت یہ ہے کہ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے چند ہندو دہشت گردوں کے چہرے سامنے لاکر ہر جذباتی ہندو کو مصیبت میں مبتلا کردیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ہر ایک کی زبان پر تھا کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔ کرکرے کے کارنامے کے بعد دہشت گردی ایک معمہ بن گئی۔ کہنا تو یہی چاہتے ہیں کہ ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے لیکن کرکرے کا بھوت کہنے نہیں دیتا۔ راج ناتھ سنگھ بھی گھوم پھر کر یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا حادثہ وہ ہے جو 12 مارچ 1993 ء کو ہوا۔ لیکن وہ جو 57 ہزار سے کہیں زیادہ مسلمان مرے ہیں ان کے مارنے والے دہشت گرد کہاں ہیں ان میں کتنوں کو پھانسی کا ڈرامہ دکھایا کتنوں کے لئے وزیر داخلہ نے صدارتی محل میں خود جاکر کہا کہ رحم کی اپیل مسترد کردو اور جلدی کرو اور کتنوں کے لئے دو بجے سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر چار کھلواکر جلد سے جلد اس لئے فیصلہ کرایا کہ صبح سات بجے کا وقت نہ ٹل جائے اور ملک کی آدھی توجہ سابق صدر کی طرف رہے آدھی میمن کو ملے۔ ورنہ ایک دن ٹل جاتا تو پورا ملک بلکہ پوری دنیا صرف یعقوب کی طرف دیکھ رہی ہوتی۔
جب تک ایک لاکھ مسلمانوں کے ان قاتلوں کو سزا نہیں ہوگی جنہوں نے ملک کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر مارا ہے اور وہ صرف اس لئے مار پائے کہ پولیس اور پی اے سی اُن کی حفاظت پر ہی نہیں بلکہ اُن کے برابر کھڑی ہوکر گولی چلا رہی تھی اور وہ جواب میں دس کو بھی نہیں مار پارہے تھے تو ظاہر ہے کسی ہندو کو یہ کہتے ہوئے شرم آنا چاہئے کہ دہشت گرد مسلمان ہیں۔
ہم تو خدا کی قسم اس وقت سے ڈر رہے ہیں جب مسلمانوں میں سے دس بیس ہزار لڑکے کوئی سرحدی جنگی پکڑکر نہ بیٹھ جائیں اور ملک کے دشمن ان پر اسلحہ اور کارتوسوں کی بوچھار کریں اور عرب امارات سے سونا چاندی بہہ کر آنے لگے تو وہ نکسلیوں اور ماؤ وادیوں سے زیادہ بڑی مصیبت بن جائیں گے۔ وہ ابھی تک نہیں بنے تو صرف اس لئے کہ ہمارے علماء اور ہم جیسے انہیں تھامے ہوئے ہیں اور یقین دلا رہے ہیں کہ خدائے ذوالجلال کی مرضی کے بغیر ایک سوکھا پتہ نہیں گرسکتا۔ تم صرف اس سے روروکر اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور دعا کرو اور صرف اس کی عبادت کرو تاکہ وہ اپنا وہ وعدہ پورا کردے کہ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ اور تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن پوری طرح بن گئے۔ یہ ہم روکے ہوئے ہیں کہ ہر ظلم کے جواب میں مومن اور بڑے مومن بنو۔ پھر تم ہی تم ہوگے اور چاہوگے تو پروردگار اسے ہندو مکت بھارت بنا دے گا۔

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے