آج بھی انقلاب برپا کرسکتی ہیں ،

معرفت حق:
حضرت مخدوم، معرفت حق کو مومن کی زندگی کا بنیادی سبب سمجھتے ہیں۔ وہ اس پر زور دیتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث سے دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’معرفت مومن کی روح کا جوہر ہے، جس شخص کا خدا کی معرفت میں کوئی حصہ نہیں گویا حقیقتاً اس شخص کا وجود ہی نہیں ہے اور پیدا کرنے والے کی معرفت پیدا ہونے والوں کی معرفت سے ظاہر ہوتی ہے اور پیدا کرنے والے کی معرفت سے عارفوں کو بقا اور نجات حاصل ہوتی ہے۔ معرفت کا پہلا جز، یہ ہے کہ دنیا کی تمام مخلوقات کو مجبور، عاجز اور خدا کا قیدی سمجھے اور سب چیزوں سے اپنے لگاؤ اور نسبت کو توڑ دے اور سمجھے کہ بس ایک ہی خدا ہے۔ اس کی ذات ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی اور اس کے صفات بھی ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں۔‘‘ (۴۵واں مکتوب)
عرفاء کے نزدیک اللہ کی معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ذات میں کامل یقین ہو۔ حضرت مخدوم نے اس کے بعد ایک اور راستہ بتایا ہے معرفت کا۔ یہ ہے مصنوع کے ذریعے صانع کی پہچان کا۔ ہر چیز اپنے بنانے والے کے متعلق بتاتی ہے۔
ہر ذرہ چمکتا ہے انوارِ الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدائی ہے
ہماری اپنی ذات بھی ہمارے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ مخدوم لکھتے ہیں:
’’اور دوسرا راستہ صانع اور خالق تک پہنچنے کے لیے اپنے نفس کی پہچان ہے جیسا کہ کہا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ (جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا)۔ خدائے برتر نے پہلے پہل اپنی قدرت آسمانوں کی پنہائی میں پیش
کی۔ یعنی پیدا کرنا اور پھر نیست و نابود کرنا اور مخلوقات کی حالتوں کا بدلنا، جیسے رات اور پھر دن کا ہونا اور کسی چیز کی زیادتی اور پھر کمی، کشادگی اور تنگی اور دنیا اور اس کے سوا جو کچھ کہ دنیا کی حالتوں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے تاکہ خدا کی وحدانیت کے پجاری ان میں غور سے دیکھیں اور خدا کی معرفت حاصل کریں۔‘‘ (ایضاً)
عرفانِ ذات بھی معرفت خداوندی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر انسان اپنی ذات کو پہچان لے تو یقیناًخالق کی ذات کو سمجھنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا۔ ہمارے جسم کا نظام آخر کیسے بنا؟ اور پھر کس طرح یہ برسوں سے بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر رہا ہے؟ کیا دنیا کی کوئی مشین اس کا متبادل ہو سکتی ہے؟ کیا لاکھ کوششیں کر کے انسان اس کا ثانی پیدا کر سکتا ہے؟ سر سے پیر تک ہمارے جسم میں لاکھوں عجائبات ہیں۔ اگر کسی ایک عجوبے پر بھی غور کیا جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر DNA کو لیا جا سکتا ہے۔ اس دنیا کے کروڑوں افراد کے ڈی این اے میں محض 0.01 فیصد کا فرق ہوتا ہے۔ مگر اسی فرق سے ہر شخص ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ نہ تو دو آدمیوں کی شکلیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور نہ عقلیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ہر فرد کی جسمانی بناوٹ ایک دوسرے سے الگ، سب کی آنکھیں ایک دوسرے سے جدا، سب کی ناک ایک دوسرے سے مختلف۔ حد یہ ہے کہ دو افراد کی انگلیوں اور ہتھیلیوں کی لکیریں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں۔ جسم کے خلیات مماثلت نہیں رکھتے۔ اگر دو افراد کا Blood Group ایک ہوتا ہے تو بھی Blood Cells مختلف ہوتے ہیں۔ ایک انسانی جسم خدا کی لاکھوں حکمتوں کا پتہ دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت شیخ شرف الدین منیری علیہ الرحمہ عرفانِ نفس کو معرفت خدا وندی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’…اور طریقت والے لوگ معرفت کے راستہ میں اپنی ذات میں کھو جاتے ہیں اور اپنے وجود ہی سے تلاش کی ابتدا کرتے ہیں اور اپنی ذات ہی سے کثیف اور لطیف کی کل باتیں ڈھونڈتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی معرفت کی دلیلیں اور نشانیاں پا لیتے ہیں۔ ان فی ذلک لذکریٰ لاولی الالباب۔ (اس میں خاص لوگوں کے لیے ذکر و فکر کا موقع ہے)۔‘‘ (ایضاً)
معرفت حق کے لیے تلاش و جستجو اور غور و فکر لازم ہے بشرطیکہ یہ غور و فکر درست سمت میں کی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے طبیب، حکیم اور سائنسداں انسانی جسم، مخلوقات کے بدن اور کائنات کے ذرے ذرے میں غور و فکر کرتے ہیں مگر وہ معرفت سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کا تدبر درست سمت میں نہیں ہوتا۔ انسانی جسم کو جو لوگ خدا کی کارسازی، ہنرمندی، فنکاری اور حکمت کا نمونہ سمجھنے کے بجائے گوشت پوست کا لوتھڑا سمجھ کر غور و فکر کریں گے وہ کیسے نور معرفت تک پہنچ سکتے ہیں؟
خدا تعالیٰ کی معرفت کے لیے عقل کے ساتھ ساتھ اس کا فضل بھی درکار ہے۔ اس دنیا میں ایک چیز ایسی نہیں جو خدا کی ذات کی معرفت نہ کراتی ہو مگر عجیب بات ہے کہ روزانہ اسے دیکھنے والے، اس میں تدبر کرنے والے معرفت سے محروم ہیں۔ اس لیے معرفت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل بھی انسان پر ہو۔ حضرت مخدوم تحریر فرماتے ہیں:
’’…اور پانے کا سبب جستجو اور تلاش نہیں بلکہ اسی کی عطا و بخشش ہے۔ بہترے ڈھونڈنے والے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک نہیں پایا اور بہت سے پانے والے ایسے ہیں جنہوں نے بغیر تلاش و جستجو کے پا لیا۔ جہاں تک تلاش کرنے کا تعلق ہے، سب برابر ہیں مگر پانے میں فرق ہے۔ بتوں کے پجاری اس کو بت کے اندر ڈھونڈنتے ہیں اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اور یہودی حضرت عزیز علیہ السلام سے اس کو مانگتے ہیں۔‘‘
قصر دل میں جب کسی دن آپ کا آنا ہوا
یہ ہوئی رفعت کہ بامِ عرش تہہ خانہ ہوا

آتش عشق:
دردِ دل کتنا پسند آیا اسے
میں نے جب کی آہ، اس نے واہ کی

سوزِ دل، محبت سے حاصل ہوتا ہے اور اس کی تصوف میں خاص اہمیت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جس سے قدسیانِ معصوم بھی محروم ہیں۔ اس کی لذت سے صرف انسانی قلب ہی محظوظ ہو سکتا ہے۔ صوفیہ نے اس پر بہت کچھ کہا ہے اور بہت کچھ لکھا ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’…دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگاؤ نہیں ہے کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں۔ فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقہ پر چل رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ ان تک محبت کا گذر نہیں ہوا ہے اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے اس لیے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔ یحبہم و یحبونہ۔ (وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے) تو جس کے دماغ میں ذرا بھی اس کی محبت کی بو پہنچتی ہے اس سے کہہ دو کہ سلامتی سے اپنا دل اٹھا لے اور اپنی ہستی کو خیر باد کہہ دے۔ المحبۃ لاتبقی ولا تذر۔ (محبت کچھ باقی نہیں رکھتی اور کچھ بھی نہیں چھوڑتی)۔‘‘ (۴۶واں مکتوب)
یعنی
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
تصوف کا بنیادی مقصد محبت الٰہی ہے۔ یہاں عبادت و ریاضت، مجاہدہ و تزکیہ نفس سب کا بس ایک مقصد ہے، محبت۔ شمع پر نثار ہونے والے پروانے کو دیکھ کر دنیا اس کی بے عقلی پر افسوس کرتی ہے مگر سوز جگر کے لطف کو تو بس پروانہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ مخدوم رقم طراز ہیں:
’’ایک فقیر اس کے راستے میں چلتے چلتے مجبور ہو گیا تھا۔ ایک زمانہ تک اس کی جستجو اور رنج و مصیبت میں رہا اور عرصہ تک اپنی جان سے بے زاری کا اظہار کرتا رہا۔ آخر جب مر گیا تو اس کے سینے پر لکھا ہوا دیکھا گیا ’’یہ اللہ کی محبت کا مارا ہے۔‘‘ (ایضاً)
خالق کی تلاش میں سرگرداں لوگ اسے اپنے اپنے انداز میں ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی اس کی اطاعت میں اسے تلاش کرتا ہے تو کوئی خود کو رنج و الم میں ڈال دیتا ہے۔ کوئی دیوانوں کی طرح صحرانوردی کرتا ہے تو کوئی بیابانوں کی خاک چھانتا ہے۔ اس کی تلاش میں…
’’ایک قوم مٹی کے ڈھیلوں کی پجاری بن گئی اور ایک گروہ نے پتھر کی پرستش شروع کی۔ ایک قوم ساری توجہ مشرق کی طرف کر کے سورج کو بھگوان سمجھنے لگی تو ایک گروہ نے مغرب کی طرف منہ پھیرا۔ کوئی ہر وقت اس کے لیے دوڑ لگاتا ہے تو کوئی اس کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہے اور خدا وند کریم اس سے کہیں برتر و غالب ہے اور راستہ دشوار و لمبا ہے اور اس کی نزدیکی بہت دور ہے اور اس کا وصال ہجر ہے اور مخلوق کے ہاتھ میں صرف قیل و قال ہے۔‘‘ (ایضاً)
محبت میں بس جستجو ہے۔ سب محبوبِ حقیقی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ذرے ذرے میں اس کے انوار کی کرنیں ہیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ جب تقاضہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو لن ترانی کہہ کر وصال کی تڑپ کو بڑھا دیا جاتا ہے اور وعدۂ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
’’اصحاب تحقیق نے کہا ہے یہ جہاں اور وہ جہاں دونوں کے دونوں طلب کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ وہ جہانِ طلب کے لیے نہیں بنا ہے تو یہ محال ہے۔ یہ درست ہے کہ نماز اور روزہ باقی نہیں رہے گا مگر یہ بھی تو طلب کا ایک جزو ہے۔ قیامت کے بعد ہر ایک شریعت مٹا دی جائے گی لیکن یہ دو چیزیں ہمیشہ ہمیش قائم رہیں گی۔ الحب للہ والحمد للہ (اللہ کے لیے محبت اور اللہ کی حمد و ثنا)۔ کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے حج، جہاد، روزہ، نماز کے احکام منسوخ کر دئیے جائیں مگر محبت کا پیمان منسوخ نہیں کیا جا سکتا اور بہشت میں روزانہ جس جس کی شکل تیرے سامنے آئے خداوند تعالیٰ کی معرفت کا ایک عالم تجھ کو نظر آئے گا کہ اس سے پہلے تو نے کبھی دیکھا نہ ہوگا۔ یہ ایسا کام ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور خدا نہ کرے کہ ختم ہو۔‘‘ (ایضاً)

قرار جز دلِ عاشق کجا حسیناں را
وہ آخر آئے مرے دل میں جابجا ہو کر
دنیا میں صرف محبت کا دم بھرا جا سکتا ہے۔ وصال کی آرزو کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ خواہش دنیا میں پوری نہیں ہوگی۔ اس کے لیے آخرت کا سفر ضروری
ہے۔
اڑ کے جانا بامِ جاناں تک مگر درکار تھا
مرغ دل کو بازوئے مرغِ نظر درکار تھا
’’حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس کی بندگی ہی میں اسے آرام حاصل ہو اور اس کو بوجھ نہ سمجھے اور نہ اس کی تھکن محسوس ہو۔ جیسا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا ہے، جو کام محبت کے لیے ہو اس میں سستی اور غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ یعنی اس کا جسم تو تھک جائے مگر اس کا دل نہ تھکے۔‘‘ (۴۷واں مکتوب)
یہ تو ایک نشانی محبت کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے دعویٰ محبت آسان ہے مگر تقاضہ محبت کی تکمیل مشکل ہے۔ محبت قربانی چاہتی ہے، محبت تیاگ چاہتی ہے، محبت سوائے محبوب کے سب سے انقطاع کا تقاضہ کرتی ہے۔ جس دل میں محبوب کا مسکن ہو اس میں کسی اور کو جگہ دینا محبت میں شرک ہے۔ لہٰذا اس گلی میں وہ قدم بھی نہ رکھے جسے جان و دل عزیز ہوں کیونکہ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم ہے رکھنا۔ یہاں جان و دل کی خیر نہیں۔
یہ گھر کبیرا پریم کا، خالہ کا گھر ناہیں
جو شیش بھوئیں دھرے، سو پیٹھے گھر ما ہیں
دل والوں کا دل:
انسان کے لیے نہیں دولت سوائے دل
در در پھرو جہان میں ہو کر گدائے دل
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دل کو انسانی جسم کی اصلاح و فساد کا مرکز بتایا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ گوشت کا یہ لوتھڑا انسان کی پوری زندگی پر حاوی رہتا ہے۔ اسی لیے تصوف میں اس کے اصلاح پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ تمام صوفیہ اپنے مریدین کو دل کے اصلاح کی وصیت کرتے رہے ہیں اور صوفی لٹریچر کا ایک بڑا حصہ اس موضوع پر ملتا ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین منیری نے بھی اس پر توجہ کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’دل ایک شاہی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے مگر غور سے دیکھو کہ اس خزانے میں تم کیا رکھتے ہو؟ اگر اس میں جواہرات بھرے ہیں تو بے شک یہ خزانہ کہا جا سکتا ہے اور اگر اس میں کوڑا کرکٹ ہے تو یہ گھاس پھوس کا انبار ہے۔ یہیں سے بزرگوں نے کہا ہے کہ ایک خزانہ تو بہشت میں ہے جس کو نعمت کہتے ہیں اور ایک خزانہ عارفوں کے دل میں ہے اس کا نام محبت ہے۔ رب العزت کی قسم کہ ہزاروں ہزار بہشت محبت کے خزانے کے ایک موتی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتے۔ بہشت کے خزانے کامحافظ ایک فرشتہ ہے جس کا نام رضوان ہے اور محبت کے خزانے کا نگہبان خود حضرت خداوند جل و علا ہے۔‘‘ (۸۰واں مکتوب)
سوگند بے دلوں کی تجھے اے خدائے دل
دینا ہو کچھ مجھے تو نہ دینا سوائے دل
وہ دل جو خدا اور محبوبِ خدا کی محبت سے آشنا ہو اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ ایسے ہی دل کے متعلق مندرجہ بالا اقتباس میں بتایا گیا کہ محبت کے جواہرات سے پُر دل جنت اور اس کی نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ کیونکہ جنت کی نگہبانی ایک فرشتہ کرتا ہے اور دل کی نگہبانی خالق جنت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں کسی کو دولت عطا فرماتا ہے تو کسی کو جاہ و حشمت، کسی کو نیک نامی دیتا ہے تو کسی کو شہرت، کسی کو رعب و دبدبہ تو کسی کو سلطنت۔ مگر قابل رشک ہے وہ بندہ جسے وہ اپنی محبت عطا فرما دے۔ دل کی قیمت بھی اسی محبت کے سبب بڑھتی ہے۔ مخدوم علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اب تم اپنے دل کے خزانے کو دیکھ کر خود سمجھ لو کہ تمہاری کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ لیکن جو دل خدا کے ساتھ اٹکا ہوا ہے اپنی قیمت کے تحت نہیں آتا۔‘‘ (ایضاً)
انسان کی قدر و قیمت اس کے دل سے طے ہوتی ہے۔ اگر اس کے دل میں حرص و ہوس، بغض و حسد کی غلاظت ہے تو وہ ایک بے وقعت انسان ہے اور اگر اس کے دل میں محبت الٰہی کے موتی ہیں تو وہ ایک انمول دل کا مالک ہے جس کی قیمت دونوں جہاں کی دولتیں بھی نہیں بن سکتیں۔ آدمی اپنی قیمت کا
ندازہ خود اپنے دل میں جھانک کر کر سکتا ہے۔ اسے کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس کا دل خود اس کی شخصیت کا آئینہ ہے۔

شریعت و طریقت:
عوام الناس میں شریعت و طریقت کے مفہوم کو لے کر کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ طریقت، شریعت سے الگ کوئی راستہ ہے اور بعض شریعت و طریقت سے ناواقف عناصر صوفی کا لبادہ پہن کر ان غلط فہمیوں میں اضافہ کرتے پھرتے ہیں۔ اس طرح کی غلط فہمیاں ماضی میں بھی رہی ہیں اور اہل علم و صوفیہ نے انھیں دور کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے اپنے ایک مکتوب میں شریعت و طریقت کے لطیف فرق کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’طریقت کی راہ بھی شریعت ہی سے نکلی ہے۔ شریعت و طریقت میں جو فرق ہے اس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ تم اسی سے سمجھتے جاؤ۔ شریعت میں توحید، طہارت، نماز، روزہ، حج، جہاد، زکوٰۃ اور دوسرے احکامِ شرایع و معاملاتِ ضروری کا بیان ہے۔ طریقت کہتی ہے کہ ان معاملات کی حقیقت دریافت کرو، ان مشروعات کی تہہ تک پہنچو، اعمال کو قلبی صفائی سے آراستہ کرو، اخلاق کو نفسانی کدورتوں سے پاک کرو جیسے ریاکاری ہے، ہوائے نفسانی ہے، ظلم و جفا ہے، شرک و کفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (۲۵واں مکتوب)
شریعت کے احکام پورا کرنا شریعت پر عمل ہے مگر دل کے اخلاص کے ساتھ شرعی حکم کو بجا لانا طریقت ہے۔ قلبی صفائی اور اخلاقی بلندی کے ساتھ احکام شریعت پر عمل آوری ہی طریقت ہے۔ اس مسئلے کو مزید آسان زبان میں سمجھاتے ہیں مخدوم علیہ الرحمہ:
’’اچھا، اس طرح نہ سمجھے ہو تو یوں سمجھو۔ ظاہری طہارت، ظاہری تہذیب سے جس امر کو تعلق ہے وہ شریعت ہے۔ تزکیہ باطن تصفیہ قلب سے جس کو لگاؤ ہے وہ طریقت ہے۔ کپڑے دھو کر ایسا پاک بنا لینا کہ اس کو پہن کر نماز پڑھ سکیں، یہ فعل شریعت ہے اور دل کو پاک رکھنا کدورت بشری سے یہ فعل طریقت ہے۔ ہرنماز کے لیے وضو کرنے کو شریعت کا ایک کام سمجھو اور ہمیشہ باوضو رہنے کو طریقت کا دستورالعمل تصور کرو۔ نماز میں قبلہ رو کھڑا ہونا شریعت ہے اور دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہو جانا طریقت ہے۔ حواسِ ظاہری سے جن معاملاتِ دینی کا تعلق ہے اس کی رعایت ملحوظ رکھنا شریعت ہے اور جن معاملاتِ دینی کو قلب و روح سے تعلق ہے اس کی رعایت کرنا طریقت ہے۔‘‘ (ایضاً)
مندرجہ بالا اقتباس سے شریعت و طریقت کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے اور ایک معمولی فہم و فراست والے شخص کے لیے بھی اسے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے مگر اسے فہم سے قریب تر کرنے کے لیے حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے مزید روشنی ڈالی ہے اور طریقت پر عمل کو انبیاء کی سنت پر عمل قرار دیا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام کا یہی معمول رہا کہ دین کا جو کام خود کرتے ہیں وہی امت کو بھی حکم دیتے مگر بعض اخلاق و اعمال ایسے مہتم بالشان و کوہِ وقار ہیں کہ اگر امت پر ان کا بوجھ ڈال دیا جائے تو ضعیف الحال امت پس جائے۔ اس لیے آسانی کے خیال سے امت کو ان کی تکلیف نہیں دیتے، اپنا وردِ خاص بنا لیتے ہیں اور معمول کر لیتے ہیں۔ جیسے تہجد کی نماز، صدقہ نہ لینا، سیر ہو کر نہ کھانا، دنیا سے اعراض کرنا، جس سے زندگی باقی رہے اتنے ہی کھانے پر قناعت کرنا، مکان و لباس بھی محض بقدرِ ضرورت رکھنا، وغیرہ وغیرہ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جس امر کے لیے امت کو مکلف بنایا جائے وہ شریعت ہے اور جو کام ایسا ہے کہ تخفیف امت کے لیے انبیاء علیہم السلام اپنی ذات کو اس کا پابند کریں اور لازمہ احوال بنا لیں وہ طریقت ہے۔‘‘ (ایضاً)
گویا شریعت کی روح تک پہنچنا اور شریعت میں دی گئی رعایت کو بھی ترک کر دینا طریقت ہے۔ وہ عمل جس کی بجا آوری لازمی نہیں، اختیاری ہے اس کو اپنے لیے لازم کر لینا طریقت ہے۔ جو اعمال انبیاء نے اپنے اوپر لازم کر رکھے تھے مگر امت کی آسانی کے لیے اس کا حکم نہ فرمایا انھیں اپنا لینا طریقت ہے۔
طریقت جہاں ایک طرف انسان کو معرفت حق کو دعوت دیتی ہے وہیں دوسری طرف اسے خلوص و للہیت کا پیکر بننے پر بھی ابھارتی ہے۔ یہاں صرف ظاہری عمل کافی نہیں ہوتا بلکہ باطنی پاکیزگی بھی لازمی ہوتی ہے۔

امراضِ باطن:
انسان جسم و روح سے مرکب ہے۔ لہٰذا اس کے مسائل جس طرح جسم سے متعلق ہیں اسی طرح روح سے بھی متعلق ہیں۔ صوفیہ کا کام جسم کی اصلاح نہیں، روح کی اصلاح ہے۔ وہ اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسان روحانی اعتبار سے صحت مند رہے کیونکہ روحانی صحت کا اثر نہ صرف اس کی زندگی بلکہ آخرت پر بھی پڑتا ہے۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے اس موضوع پر انتہائی حسین پیرایے میں گفتگو کی ہے:
’’…انسان دو جوہر مختلف سے پیدا ہوا ہے۔ ایک علوی، دوسرا سفلی۔ جس طرح جوہر سفلی، یعنی یہ جسم جو آب و آتش، خاک و باد سے بنا ہے اس کو مرض قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح جوہر علوی، یعنی ارواح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جس طرح امراض سفلی کے لیے اطباء ہیں کہ ان کے علاج سے مرض دور ہو جاتا ہے صحت حاصل ہوتی ہے او رہلاکت سے آدمی بچ جاتا ہے، اسی طرح امراض علوی کے لیے بھی اطبا ہیں جن کے علاج سے جملہ امراض باطنی اگرچہ وہ محسوس نہیں ہوتے اور عقل میں نہیں آتے مگر سب کے سب دفع ہو جاتے ہیں اور ہلاکت کے محل سے نجات ہوتی ہے۔ جوہر سفلی کے امراض و علل کے طبیب تو حکماء ہیں او رجوہر علوی کے امراض و علت کے طبیب انبیاء ہیں، ان کے بعد مشائخ ہیں، کیونکہ یہی لوگ انبیاء کے خلیفہ ہیں۔‘‘ (۱۹واں مکتوب)
انبیاء کرام دنیا میں انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے آتے رہے۔ انھوں نے بندگانِ خدا کو خالق و مالک تک پہنچنے کا راستہ بتایا مگر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا۔ حالانکہ جب دنیا میں انسان ہے تو اس کی اصلاح کی ضرورت بھی پڑے گی،لہٰذا اس کی ذمہ داری خالق کائنات نے اپنے کچھ نیک بندوں کو سونپ رکھی ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ ظاہر ہے علماء صرف علمی وارث نہیں بلکہ عملی وارث بھی ہیں۔ جو عمل اللہ نے انبیاء کے ذمے کر رکھا تھا اب وہ علماء کے سپرد ہے۔ یہی علماء، طریقت کے امام بن کر لوگوں کے باطنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اسی لیے اہل تصوف کا قول ہے کہ الشیخ فی قومہ کا النبی فی امتہٖ۔ (اپنی قوم میں شیخ کی وہی حیثیت ہے جو نبی کی اپنی امت میں)۔ ظاہر ہے جس طرح انبیاء اپنی امت میں اصلاح کا کام کرتے ہیں، ہدایت و رہنمائی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، اسی طرح شیوخ بھی انسانیت کی فلاح و صلاح کے لیے تن ،من ،دھن سے کوشش کرتے ہیں اور ان کے طفیل لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح ہوتی ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ طبیب انسان کے جسمانی امراض کا علاج کر کے اسے تندرست کرتا ہے اسی طرح مشائخ اس کی باطنی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہیں اور پھر روحانی نسخوں سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ حضرت مخدوم نے اس تعلق سے تحریر فرمایا ہے:
’’…جس طرح طبیب نبض دیکھ کر بیمار کے علت و مرض سے واقف ہو کر مختلف ادویہ اور شربت بیمار کی قوت کا اندازہ کر کے بتاتا ہے اور کسی دوا سے دو ماشہ اور کسی سے تین ماشہ اور کسی سے چار ماشہ لے کر معجون تیار کرتا ہے اور بعض چیز کا استعمال جائز اور بعض کا استعمال خطرناک کہتا ہے، تاکہ طبیعت مریض کی اعتدال پر آ جائے اور مائل بہ صحت ہو جائے اور ہلاکت سے محفوظ رہے۔اسی طرح پیغمبر وقت یانائب پیغمبر کو جب وقوف ہو جاتا ہے کہ اس شخص کے اعتقاد میں کیا کیا مرض لاحق ہے تو احکام شریعت سے ایک ایسا نسخہ تجویز کر دیتا ہے کہ وہ بیمارِ باطن استعمال کر سکے اور اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ کبھی دو رکعت، کبھی تین رکعت، کبھی چار رکعت سے ایک معجون مرکب تیار ہوتی ہے اور کوئی چیز حلال اور کوئی چیز حرام کر دی جاتی ہے تاکہ عقیدت کی تشویشیں، خواہشات کے اختلافات اور امراض کی رنگا رنگی، شریعت کے ساتھ اعتدال پذیر ہو اور صحت عاجل ہو، خطرۂ ہلاکت سے نجات ملے۔‘‘ (ایضاً)
جہاں مرض جسمانی ہوتا ہے وہاں دوائیں بھی مادی ہوتی ہیں اور جہاں مرض روحانی ہوتا ہے وہاں علاج بھی روحانی دواؤں سے ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی ماہر ادویہ نے ایسی کوئی دوا تیار نہیں کی جس سے کبر و نخوت، بغض و حسد، بداخلاقی و بے مروتی، نفرت و دشمنی جیسے امراض کا علاج کیا جا سکے۔ ان بیماریوں کا علاج تو صرف روحانی اطباء یعنی انبیاء اور ان کے جانشیں مشائخ ہی کر سکتے ہیں۔ صوفیہ راہ سلوک پر چلنے والوں کو مختلف مجاہدوں سے گذارتے ہیں۔ برسوں عبادت و ریاضت کراتے ہیں۔ اوراد و وظائف میں مشغول رکھتے ہیں۔ اس کا مقصد ان روحانی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ کشمیر کے ایک مشہور صوفی شیخ العالم شیخ حمزہ رینہ کا معمول تھا کہ اگر کوئی آپ کی خدمت میں راہ سلوک پر چلنے کے ارادے سے آتا تو اسے مجاہدے کے دوران نہ صرف عبادت و ریاضت کا حکم دیتے بلکہ اس سے باورچی خانے اور اصطبل کی خدمات بھی لیتے۔ بڑے بڑے علماء اور حکومت کے عہدیداروں سے یہ خدمات لی جاتیں۔ یہاں تک کہ انھیں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانے کو بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ معمولی قسم کے کام اگر لوگوں کے سامنے کئے جائیں گے تو دل کے اندر سے تکبر کا مرض نکل جائے گا اور جو شخص خود کو عالیمرتبت تصور کرتا تھا اس کے اندر انکساری پیدا ہو جائے گی وہ خود کو خدا کا ایک معمولی بندہ سمجھنے لگے گا۔
خاک جب خاکسار ہوتی ہے
کس قدر باوقار ہوتی ہے
مشائخ دراصل روحانی طبیب ہیں۔ یہ انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ اگر جسمانی مرض لاحق ہو جائے تو یہ کم خطرناک ہوتا ہے جب کہ روحانی مرض نہ صرف سماج، زندگی بلکہ آخرت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

معراجِ عشق:
حدیث شریف میں نماز کو مومنین کی معراج قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی شب خالق کائنات کی طرف سے عطا فرمایا گیا۔ اس تحفے سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا جو مقامِ قاب قوسین سے رب کائنات نے اپنے بندوں کے لیے بھیجا ہے۔ عام بندوں کے لیے معراج جسمانی ممکن نہیں تھی نہ انھیں وہ حشمت حاصل ہو سکتی تھی کہ براق برق خرام دروازے پر آئے۔ لہٰذا مومنین کے لیے نماز کو ہی معراج بنا دیا گیا۔ نماز آخر کس طرح مومنین کے لیے معراج ہے؟ اس سوال کو بڑی خوبی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے:
’’دیکھو تمہیں کس طرح معراج نصیب ہوتی ہے۔ پہلے تم نے طہارت کی، پاک و صاف کپڑا پہنا، اس کے بعد خراماں خراماں مسجد آسماں رفعت میں داخل ہوئے۔ وہاں اول اول مومنانِ ملک صفت کے ساتھ بندگانہ و عاجزانہ کھڑے ہو گئے۔ پھر اس وقت تک واپس نہ ہوئے جب تک اچھی طرح خلوتِ راز میں نشست نہ ٹھہری۔ سبحان اللہ و بحمدہٖ۔‘‘ (۳۲واں مکتوب)
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہو گیا کہ نماز مومنین کی معراج کس طرح سے ہے۔ دراصل نمازی خود آسمان کے پاکیزہ ماحول میں داخل نہیں ہوتا بلکہ مسجدیں اپنی پاکیزگی اور رفعت شان میں آسمان کے مماثل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح فرشتوں کی صفوں میں شامل ہونے وہ آسمان پر نہیں جاتا بلکہ نمازیوں کی صفوں کو ملکوتی صفات کا حامل بنا دیا جاتا ہے۔ یہ صفیں روحانیت اور پاکیزگی کے اعتبار سے فرشتوں کی صفوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ پھر نمازی دورانِ نماز رب العالمین کے ساتھ راز و نیاز میں رہتا ہے۔ جب نماز میں استغراق کی کیفیت پیدا ہو جائے اور نمازی کے سامنے خود معبود کا جلوۂ جہاں آرا ہو تو اس سے بڑھ کر معراج کیا ہے اور اگر نماز کے بعد بھی نمازی کے سامنے یہ جلوہ ہو تو ہر وقت اس کے لیے معراج کا سماں ہے۔ صوفیہ ایسی ہی نماز کی تلقین کرتے ہیں۔ محض ارکان نماز کو ادا کر لینا شریعت کی رو سے نماز ہو سکتی ہے مگر طریقت اسے بے روح کا جسم تصور کرتی ہے۔ حضرت مخدوم تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک عزیز کا قول ہے کہ وجود صخرہ و کعبہ سے پہلے محبانِ ازلی کا قبلہ بارگاہِ حضرت لم یزل تھا اور جو لوگ احاطہ قدس کے رہنے والے تھے اور فضائے انس کے باشندے تھے، ان مشتاقوں کا قبلہ بھی وہی تھا، جو حی و قیوم لایزل ہے۔ اس فنا کی جگہ اور رنج و غم کے محل میں صخرہ و کعبہ کو جو قبلہ بنایا گیا صرف تسکین و تسلی کے لیے تاکہ طالبان و سالکانِ راہ کے دل مطمئن رہیں۔‘‘ (ایضاً)
قدس و کعبہ کو قبلہ علامتی طور پر بنایا گیا۔ جس عابد کا دل خالق قدس و کعبہ میں لگا ہوا ہو وہ کعبہ و صخرہ کی طرف کب متوجہ ہوتا ہے اور یہی نماز عشق ہے۔ یہی معراج مومنین ہے۔ نماز میں استغراق ہوگا تب ہی وہ معراج کے مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نماز میں تھے، آپ کے جسم سے تیر کھینچ لیا گیا مگر احساس نہیں ہوا۔ اس کا سبب یہی تھا کہ آپ مشاہدۂ محبوب میں مشغول تھے اور جس کے سامنے خالق کا جلوہ ہو وہ خلقت میں کب محو ہو سکتا ہے۔ یہی کیفیت وقت شہادت شہید کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ محبوب ہوتا ہے۔ لہٰذا جسم کے کٹنے کا اسے احساس نہیں ہوتا۔
کچھ خبر کوچۂ جاناں کی بھی ہے اے واعظ
عشق بازوں کی ہے جنت تری جنت کے سوا

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے