یہ ایسی کسی فلم کے لئے ہوتا تھا کہ جس میں کوئی اصلاحی پیغام دیا گیا ہوتا تھا اور اس میں عریانیت اور مارپیٹ کے سین نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت کم ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ ایسی کسی تقریب میں جو سنیما ہال کے بجائے کسی ایسے ہال میں ہوتی تھی جہاں سیاسی یا سماجی تقاریب ہوتی تھیں اسے دکھایا جاتا تھا اور پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ممبر سب ایک جگہ بیٹھ کر دو گھنٹے میں دیکھ کر رائے قائم کردیتے تھے۔
سیاست کی نگری میں فلم نگری کے قدم اس وقت آئے جب اندرا گاندھی کے دَور میں سنجے گاندھی اور اُن کے کالے بال والے دوست حکومت پر قابض ہوئے سنجے نے پہلی کوشش تو یہ کی کہ سفید بال والوں کو گھروں میں بٹھا دیا جائے اور اگر واقعی اُن کے حلقہ پر اُن کی پکڑ ہوتو اُن کے بیٹوں میں سے کسی کو ٹکٹ دے کر سیاست میں لے آیا جائے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ اُن کی پارٹی اور حکومت میں وہ لوگ نہ ہوں جو کہیں کہ سنجے بابو آپ کو کیا معلوم کہ ہم نے پارٹی کے لئے کیا کیا کیا تھا؟ یا اس علاقہ میں فلاں آدمی کی کیا حیثیت ہے؟ یا اس نے کتنی قربانی دی ہے؟ سنجے بابو سے پہلے اندرا گاندھی اُن کو گھروں میں بٹھا چکی تھیں جو اُن کے پتا پنڈت نہرو کے ساتھ رہ چکے تھے سنجے بابو نے اُن سے پیچھا چھڑایا جنہوں نے اُن کی ماں کے ساتھ کام کیا تھا۔ گورکھ پور کے مسٹر اصطفےٰ حسین ایک بہت پرانے کانگریسی تھے اور اپنے حلقہ میں بیحد مقبول تھے۔ عمر اُن کی 70 کے قریب تھی۔ وہ ٹکٹ کے لئے اندرا گاندھی کے پاس گئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ آپ سنجے سے مل لیجئے۔ پہلا جھٹکا تو انہیں اس وقت لگا جبکہ اندرا گاندھی اُن کے اس فیصلہ کا احسان مانتی تھیں کہ بہوگنا جی سے گہری دوستی کے باوجود وہ کانگریس چھوڑکر جنتا پارٹی میں نہیں گئے تھے۔ بہرحال حاکم کا حکم تھا وہ سنجے کے پاس گئے۔ یہ اُن کا ہی بیان تھا کہ کئی لڑکے تھے مگر سب کے سب آڑے ترچھے پڑے تھے۔ وہ اجازت لے کر جب پہونچے اور کہا کہ میں اصطفےٰ حسین ہوں چالیس برس ایم ایل اے اور کابینہ وزیر رہ چکا ہوں۔ اُن کی بات کاٹ کر سنجے نے کہا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ لکھ کر لائے ہیں؟ اصطفےٰ صاحب نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے ہم سے کہا کہ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور میں اُلٹے پاؤں آگیا۔
جب کانگریس کی لسٹ جاری ہوئی تو اُن کے بیٹے اشفاق حسین کو ٹکٹ دے دیا گیا تھا جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور باپ اپنے بیٹے کی محبت میں یہ کہنے پر مجبور تھے کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں آپ کی اتنی خدمت نہیں کرسکتا جتنی اشفاق کریں گے اور میں تو آپ کو ہر وقت ملوں گا۔ غرض کہ اشفاق جیت گئے۔ سنجے نے ہی صرف ہیم وتی نندن بہوگنا کو ہرانے کے لئے الہ آباد میں امیتابھ بچن کو اُن کے مقابلہ پر کھڑا کیا تھا اور بہوگنا جی کو ہرا دیا تھا۔ کانگریس نے ہی آجکل کے اپنے صوبہ کے گورنر رام نائک صاحب کو جو بہت محترم اور مقبول تھے، ہرانے کے لئے گووندہ کو ٹکٹ دے دیا تھا۔ پھر کانگریس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بی جے پی نے بھی اس وقت کے انتہائی مقبول ہیرو دھرمیندر کو جو ہیما مالنی کے شوہر ہیں اُن کو صرف اس لئے ٹکٹ دیا تھا کہ برے وقت میں ایک ہاتھ اُٹھانے والا مل جائے۔ اس بیماری کا نتیجہ ہیما مالنی ہیں۔ برسوں مقبول ہیروئن ہوتے ہوئے کبھی اُن کی زبان سے سیاسی مسائل میں ایک لفظ نہیں نکلا اُن کو صرف اس لئے ٹکٹ دیا گیا کہ وہ متھرا سے کامیاب ہوجائیں گی۔ اور یہ ان کے غیرسیاسی ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ غلطی اُن کی تھی۔ گاڑی بھی اُن کی بڑی اور بھارتی تھی جس گاڑی سے وہ ٹکرائی وہ آلٹو تھی جاپان کے تعاون سے تیار کی گئی۔ حادثہ میں جو کچھ ہوا اس کی پل پل کی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سب کو معلوم ہورہی تھیں۔ کیسے مذاق کی بات ہے کہ 3 جولائی کو بیان جاری ہوا کہ وہ اب خطرہ سے باہر ہیں اور 4 جولائی کو وہ جے پور سے روانہ بھی ہوگئیں۔ جبکہ کسی کے خطرہ سے باہر ہونے کی خبر آتی ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابھی ملاقات پر پابندی ہے ایک ہفتہ زبردست نگرانی میں رہیں گی۔ پھر ایک ہفتہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں رکھ کر ڈسچارج کرنے کے متعلق سوچا جائے گا۔ لیکن فلمی ہیروئن کی ہر بات فلمی ہونا چاہئے۔ اس لئے ایک دن اعلان ہوا کہ اب خطرہ سے باہر ہیں۔ دوسرے دن اسپتال سے چھٹی کردی گئی۔ راجستھان کی وزیر اعلیٰ اسپتال آئیں تو وہ خطرہ سے باہر والی سے تو مل لیں لیکن اُن کو دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی جن کی دو سال کی بچی ماں باپ کو چھوڑگئی۔ اور چھ سال کے بچہ کے دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں اور باپ اور ماں دونوں زخمی اسی اسپتال میں پڑے ہیں۔
کس قدر غیرانسانی حرکت ہے کہ ہیما مالنی معمولی سی چوٹ کے ٹھیک ہونے کے بعد جب چاہنے والوں کے جلوس میں اسپتال سے رخصت ہونے لگیں تو انہیں یہ بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اُن کی گاڑی سے بری طرح زخمی ہونے والوں سے معافی مانگ کر اور انہیں مدد کا یقین دلاکر رخصت ہوتیں جو شاید ابھی ایک مہینہ سے زیادہ اسی اسپتال میں رہیں گے۔ اب جو اُن کی بیٹی کا بیان آیا ہے اور خود ہیما کا بیان آیا ہے کہ اُن کو بہت دُکھ ہے وہ صرف میڈیا کی لعنت ملامت اور سوشل میڈیا پر اُن کی غیرانسانی حرکت پر مسلسل لعنتوں کی بوچھار کا نتیجہ ہے اور ہم تو مودی صاحب پر بھی انگلی اُٹھائیں گے کہ ہر ٹکٹ انہوں نے ہی دیا تھا اور وہ جو زخمی پڑے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں وہ بھی وہی ہیں جنہوں نے ہر ہر مودی کو ووٹ دیا تھا۔
کانگریس نے سنیل دت یا گووندہ کو ٹکٹ دیا تو سنیل دت نے تو ثابت کردیا کہ ان کا انتخاب ٹھیک تھا۔ گووندہ ایسے ہی رہے جیسے بی جے پی کے دھرمیندر رہے یا اب ریکھا اور سچن تیندولکر راجیہ سبھا میں کررہے ہیں۔ اگر کسی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے کو سیاست سے دلچسپی ہو تو کوئی بھی پارٹی ٹکٹ دے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جیسے تمل ناڈو میں ایک ہیرو نے انا ڈی ایم کے نام کی پارٹی بنالی، وہ وہاں حکومت بھی کرتے رہے۔ اُن کی فلموں کی ہیروئن جیہ للتا اُن کے مرنے کے بعد اُن کی جانشین ہوگئیں۔ اور اب اُن کے اور کروناندھی کے درمیان ایسا ہی میچ ہورہا ہے جیسے اُترپردیش میں اب تک شری ملائم سنگھ اور مس مایاوتی کے درمیان ہوتا رہا ہے۔ اب آنے والے الیکشن میں شاید ایسا نہ ہوسکے جیسا پندرہ سال سے ہورہا ہے اس لئے کہ جواں سال اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ جی جان سے اس پر لگے ہیں کہ 2017 ء میں ہونے والے میچ کی ٹرافی مجھے اپنے ہی پاس رکھنا ہے۔ اس کے لئے وہ ہر وہ کام کررہے ہیں جو عوام کو نظر آئے اور جس کی عوام کو واقعی ضرورت ہے۔(یو این این)
جواب دیں