صحابہ کرام ؓ کا قرآن سے تعلق

یہ حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اُنہیں قرآن ہی سنایا کر تے، اِ سی کی تعلیم دیتے، اِسی تلاوت و تعلیم کے حوالے سے ایک حکیمانہ طرزِ بلاغ کا درس اور اِسی حکمت کے حوالے سے اُن کا تزکیہ فرماتے رہے تھے۔سورۂ آل عمران (۳) میں نہایت صاف الفاظ ہیں :’’ یقیناًاللہ نے احسان کا معاملہ فرمایا ایمان والوں پر(اور وہ اِس طرح) کہ اُن میں اُن ہی کی نسل سے ایک رسولؐ کو مبعوث فرمایا،( جن کی شان یہ ہے کہ ) وہ اُن پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، اور اُنہیں الکتاب سے حکمت کی تعلیم دے کر اُن کا تزکیہ کرتے ہیں….. ‘‘ (۱۶۴)۔
اِن حقائق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن سے صحابہؓ کے تعلق کا کیا عالم تھا اور قرآن سے ہمارے تعلق اور صحابہؓ کے تعلق کے درمیان وہ جوہری فرق کیا تھا، جس کی بنا پر وہ اِنسانیت کا ایک ایسامعزز و محترم گروہ قرار پائے،جسے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا،سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے ۔اور اب صحابہؓ جیسے نفوسِ قدسیہ کو قیامت تک دنیا کبھی نہ دیکھ پائے گی۔ پھر یہ تعلق یک طرفہ بھی نہیں تھا، بلکہ خود قرآن بھی اِن کے اوصافِ حمیدہ کا واضح الفاظ میں قدردان تھا اور قیامت تک رہے گا ، سورۂ الفتح (۴۸) کی یہ آیت اِس حقیقت پر شاہد ہے: ’’ محمدصلی اللہ علیہ و سلم ۔۔۔اللہ کے رسول ہیں اور وہ (صحابہؓ)جو اُن کی معیّت میں(کھڑے) ہیں وہ اہلیانِ کفرپر شدید (طور پر سخت واقع ہوئے)ہیں(مگر)باہم دِگرنرم خُو ہیں، تم اُنہیں(ہمہ دم) محورکوع ومصروف سجدہ پاؤگے، انہیں(ہر لمحہ)دنیوی فضلِ خداوندی اور اکل حلال کے حصول میں مصروفِ عمل پاؤگے اور وہ(ہر لحظہ) اپنی آخرت کے لئے رضائے اِلٰہی کے متلاشی نظر آئیں گے۔اُن کی (عبادت گزاریوں کی) علامت اُن کے چہروں پر موجود اثراتِ سجود سے (صاف) عیاں ہوگی اور(اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ وہ صفات ہیں)جن کی مثال تورات میں(بیان ہو چکی ہے) اور( ایسی ہی مثال) اِنجیل میں بھی (درج ہے)۔(اور وہ مثال یہ ہے کہ )جیسے کوئی کھیتی ہو،(جہاں زیرِ زمین بیج بوئے گئے ہوں اور ہر ایک بیج ) اپنی ایک سُوئی سطح زمین پر نمودار کرے ، پھر اِسے قوت ملی، پھر یہ( سوئی جسامت میں) بڑی ہونے لگی،پھر وہ اپنی جڑ(کے بل) پر کھڑی ہوگئی۔جیسے( لہلہاتی فصل کا)یہ( خوبصورت منظر)کسان کوبھلا معلوم ہوتا ہے ٹھیک ویسے ہی کفار چیں بجبیں ہوتے ہیں اِن(صحابہؓ) پر، ان اہلِ ایمان پر اوراِن میں سے اُن پر جو صاحبینِ عملِ صالح ہیں، اُن سے اللہ کا’’ مغفرت اور اجرِ عظیم‘‘ کا وعدہ(طے) ہے ۔‘‘(۲۹)۔
اِس آیت میں صحابہؓ کے جواوصاف گنائے گئے ہیں اور مثال کے ذریعہ جس طرح اِن کی تشریح خود ربِّ ذو الجلال نے کی ہے، اُس کی مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔سورۂ آل عمران(۳) میں بھی اُن کی جانفشانیوں کا اعتراف خود رب تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’جن لوگوں نے باوجود زخم خوردگی کے اللہ اور رسولؐ کے حکم پر لبیک کہا ،ان(ہی زخم خوردہ لوگوں)میں سے احسن(و نکو کار) اور صاحبینِ تقویٰ کے لیے اجرِ عظیم(مختص) ہے۔۔۔ایسے ایمان کے پہاڑ صحابہؓ کو جب لوگوں نے یہ اطلاع دی کہ تمہارے خلاف(دشمن )لوگوں نے (ایک فوجی لشکر)مجتمع کر لیا ہے، پس(مصلحت کا تقاضہ یہی ہے کہ) ان سے خشیت اِختیار کریں تو(اِس مشورے سے)ان کا ایمان فزوں ترہوا،اور(جواباً) انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارے لیے اللہ(کی ذات) کافی ہے اورکیا ہی اچھاکارساز ہے( وہ)۔‘‘ (۱۷۳،۲ ۱۷)۔سورۂ الفتح(۴۸) میں اللہ نے حضورؐ کے نطق مبارک سے یہ خوشخبری دی کے صحابہؓ سے وہ راضی ہو گیا ہے: ’’Indeed اللہ راضی ہوامومنین سے جب وہ آپ سے ایک شجر کے نیچے بیعت کررہے تھے۔اللہ کو پتہ تھا کہ کیا کچھ اُن کے دلوں کے جذبات تھے۔ تو اُس نے(اُن کی تسلی کا سامان)’’ سکینت‘‘(کی صورت میں)نازل کیا اوراُنہیں بدلہ میں ایک فتحِ قریب عطا کر دی ۔‘‘ (۱۸)۔سورۂ التوبہ(۹)میں بھی اِن کی حضورؐ سے وفاداریوں کا اعتراف موجود ہے: ’’ Indeed اللہ نے نبیؐ پر،انصار پر اور مہاجرین پر توجہ فرمائی ،وہ جنہوں نے ساعتِ عُسرت میں بھی (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی) اِتباعِ کی، اِس( بحران )کے بعدکہ اُن کے ایک فریق(گروپ) کے قلوب پھر جانے کے قریب تھے،پھر(ایسے میں اللہ) اِن کی جانب متوجہ ہوا، بے شک وہ رؤف و رحیم ہے۔‘‘(۱۱۷)۔
۶؍سن نبوی میں پیش آنے والاحضرت عمر ؓ کے قبولِ اِسلام کا واقعہ بھی سراسر قرآنی اعجازِ تاثیر کا پس منظر رکھتا ہے۔اُنہوں نے پہلے تو خانہ کعبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سورۃ الحاقہ(۶۹) کی تلاوت سنی، جس کی آیتیں تھیں:’’بے شک یہ( قرآن)،ضرور ایک فرشتۂ کریم (کے ذریعے لایاہوا)قولِ (وحی) ہے ۔۔۔ نیز(یہ کہ) یہ کسی شاعر(کے منہ سے نکلا ہوا کوئی شاعرانہ)قول بھی نہیں،پھر تم میں سے بہت قلیل لوگ مانیں گے۔اور یہ کوئی قولِ کاہن بھی نہیں،لیکن تم میں بہت کم لوگ نصیحت قبول کرتے ہو۔(حقیقت یہ ہے کہ)یہ( قرآن) تو رب العٰلمین کی تنزیل ہے،اور گرہمارے(نام) پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعض دیگر اقوال (کی آمیزش کے ساتھ کچھ ) بنا لاتے(اور کہتے کہ یہ قرآن ہے)،تو ہم یقیناًاُنکا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ،پھرضرورہم اُن کی رگِ گردن قطع کر دیتے۔اور تم میں سے کوئی بھی اُنہیں بچا نہیں پاتا، اور بیشک اس میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے نصیحت موجود ہے ۔اوربے شک ہمیں اچھی طرح پتہ ہے کہ تم جھٹلانے والے ہو۔اور بے شک یہ کافروں کے لیے ضرور حسرت(کامعاملہ ہے)،اور یہ ( قرآن) ضرور حق الیقین (کادرجہ رکھتا) ہے،پس تم (اپنی کم مائیگی کو تسلیم کرتے ہوئے)اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح بیان کر نے میں مصروف ہوجاؤ۔‘‘(۵۲)۔
پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن اور بہنوئی حضرت خبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خبر لینے کی غرض سے اُن کے گھر کا رخ کیا، اور وہاں کافی مکالمات کے بعداُن سے سورۂ طہٰ لی اور خود مطالعہ فرمایا۔محض یہ دوواقعات ایک حق پرست کی زندگی میں۔۔۔وقتی طور پر نہیں تا حیات۔۔۔ اِنقلاب برپا کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئے ۔سوال یہ ہے کہ کیاقرآن کی وہ تاثیر اب ختم ہوگئی، جس نے حضرت عمرؓ جیسی شخصیت کو ہلا کے رکھ دیا تھا، درآں حال یہ کہ قبولیتِ دینِ حق ان کا آخری آپشن بن گیاتھا؟۔۔۔ہمارا ایمان تویہ ہے کہ آج بھی ضمیروں کو جھنجوڑنے کی یہ تاثیر صرف قرآن شریف میں ہی باقی ہے۔ الغرض قرآن ہی ایک ایسی طاقت ہے ، جس کی اولین پیش کش پر ہی ایک انسان اپنے تمام تر مشرکانہ عقائد سے کنارہ کش ہو سکتا ہے اور اُسے توہمات کی دُنیا سے یکسر آزادی نصیب ہو سکتی ہے، اوروہ دائرہِ ایمان میں چھلانگ لگا سکتا ہے، جس کا تذکرہ اللہ نے اپنی آخری کتاب کی سورۂ البینۃ(۹۸) کی اس آیت میں کیا ہے:’’اہلِ کتاب کے نافرمان اور مشرکین (اپنی نافرمانی اوراپنے شرک سے اس وقت تک)باز نہیں آنے والے، جب تک کہ اُن کے سامنے اللہ کی واضح آیتیں نہ آجائیں، ایک رسول (پیغام رساں)جواُن پر پاکیزہ صحیفے کی تلاوت کرے، جس میں پچھلی تمام کتابوں کا نچوڑ موجود ہے۔‘‘
صحابہؓ کے ایمان اور جاں نثاری کا راز صرف اور صرف یہی تھا کہ وہ قرآن شریف کے احکامات کو خالص طور پر اپنی ذات پر لاگو کرنے کا جذبۂ بے پناہ رکھتے تھے۔ جب وہ نطقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے صدائے وحی سنتے توسرتاپا گوش بر آواز ہوجاتے ، پھراِسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں فرماتے،اُن کا یہ جذبۂ فداکاری اُنہیں مضطرب کردیتا کہ اللہ کے کلام کو قرآن سے بے خبر بندوں تک کس قدر جلد اور کیسے پہنچا دیاجائے !!
صحابہؓ کے فریضۂ بلاغ کو نبھانے کی داستان بھی بڑی ایمان افروز داستان ہے۔جب صحابہؓنے خطبہ عرفات میں پیغامِ حدیث’’ بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ ۔۔۔
’’پہنچادو،میری طرف سے ،اگر ایک ہی آیت کیوں نہ سنی ہو۔‘‘کو سنا تو اُنہیں ایک لمحہ بھی خاموش بیٹھناگوارا نہیں ہوا۔ جس وقت ’’پیغام حکمِ بلاغ‘‘ نطقِ رسولؐ سے نشر ہو رہا تھا ، تو اِسے سننے والے صحابہ کی تعدا د سو پچاس یا ہزار دو ہزار کی تعداد نہیں تھی، بلکہ بلامبالغہ اِن کی تعدادایک لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔اللہ کے کلام کو ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچانے کی یا ’’ بلاغ‘‘کے حکم رسولؐ کی پابجائی کی اپنی اِس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے نہ جانے دُنیا کے کن کن خطوں میں صحابہؓ کی ہزاروں کی تعداد سارے عالم کے مختلف مقامات کی جانب نکل گئی اور پھر پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ بیس سال کے اندر اندر ہی صحابہؓ قرآن کو لے کرعظیم فراعنہ کے عظیم مصرتک پہنچے۔ پورے براعظم افریقہ براعظم ایشیا میں ایشاء کوچک اور ماوراء النہرتک گئے۔عظیم فارس کی سمت کوچ کیا، سندھ سے ہوتے ہوئے چین پہنچے، ترکمانستان کا بڑا علاقہ Cover کیا، یوروپ کے مختلف خطوں کے دور دراز مقامات اوریوروپی سواحل تک بھی اِن کی رسائی ہوئی،ادھر ہندوستان کے جنوب میں کیرالاکے علاقے اِن کی آمد سے فیض یاب ہوئے، مغربی سری لنکا، مالدیپ جیسے چھوٹے بڑے جزائر تک قرآن شریف پہنچا دیا۔کسی کو رپورٹ دینے کے لیے وہ واپس نہیں لوٹے ، نہ اِس کی ضرورت ہی محسوس کی ،نہ کسی نے اِس کا تقاضہ ہی کیا،بلکہ جہاں جہاں گئے وہیں کے ہو رہے، اور اللہ کی خوشنودی پر اپنی نگاہیں مرکوز رکھیں۔المختصر ،اِس زمانے میں آباد دنیا کے بلامبالغہ اسّی فیصد علاقوں تک صحا بہؓ اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے پہنچے ۔
تاریخ دانوں کی یہ بڑی بد بختی تھی کہ اُنہوں نے اِن غریب الوطن صحابہؓ اور اِن کی دعوتی مساعی کے سلسلے میں ناقابلِ معافی غفلت کا مظاہرہ کیا اور اِن مبلغ صحابہؓ کی دعوتی سرگرمیوں کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں کیا۔ خوں ریز جنگوں اور زمین کے خطوں میں دُنیاوی جاہ و حشمت کی لڑائیوں اورملک گیر ی کی لالچی اقوام کی برپا کردہ خونی محاذ آرائیوں کی باریک سے باریک تفصیل توضرور ریکارڈ کی، لیکن قرآنِ کریم کے پیغامِ امن کے اِن ہزاروں سفیروں کی مہاجرت اور دورانِ مہاجرت اِن کی مصروفیات و مقامات کا کوئی ذکر تک نہیں کیا،کجا کہ وہ اِن کی دعوتی فتوحات کا کوئی نوٹس لیتے۔ تاریخ کے اِس باب میں ہمیں کورے اوراق ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ مسلمانوں کا نقصان ہی نہیں تھا بلکہ ساری اِنسانی نسل اِس نقصان میں برابر کی شریک تھی اور ہے۔
اُدھر ’’اصحابِ بلاغ‘‘ صحابہؓ کا یہ حال تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اور کسی تاریخ کا حصہ بننے سے اُنہیں کوئی سروکار بھی نہ تھا۔ وہ اِن تمام چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنا فرضِ منصبی نبھاتے رہے۔ کیوں کہ وہ اِس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ:
۱)۔۔۔ وہ کوئی تاریخ مرتب کرنے نہیں جارہے تھے کہ اُن کے قصیدوں کو بعدکی نسلیں’’ اسلامی تاریخ ‘‘ کا نام دے کر تفاخرِ بے جا کے مظاہرے کرتی پھریں، جیسا کہ فی زمانہ دیکھنے کو مل رہا ہے، کہ اِسلامی تاریخ کے حوالے سے وہ اپنے آباء کے کارناموں کا سارا کریڈٹ اپنے نام کر لیتے ہیں ، لیکن کبھی اپنی زندگی کا ڈھب نہیں بدلتے ۔دراصل صحابہؓ فلسفۂ تاریخِ اِسلام کے اُس نظریۂ تاریخ سے خوب واقف تھے جس کی رُو سے’’ اِسلامی تاریخ ‘‘گزشتہ چودہ یا پندرہ صدیوں کی تاریخ کا نام نہیں بلکہ اِس کا آغاز تو اُس وقت سے ہوتا ہے جب اللہ کے سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے۔کیونکہ وہ جس دین کے ساتھ تشریف لائے تھے وہ اِسلام ہی تو تھا۔۔۔! جسے اُن کے بعد آنے والے انبیاء نے اپنے اپنے دور میں پیش کیا۔اور انسان اسے قبول کرکے دائرۂ ایمان میں آتے رہے اور اسلام قبول کرتے رہے۔آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک چلنے والی ہر اِسلامی سرگرمی،’’اِسلامی تاریخ‘‘کا حصہ تھی اور رہے گی۔اِن حقائق کے باوجود یہی کہنا پڑے گاکہ مسلم تاریخ نگاروں سے بڑی کوتاہی یہ ہوئی کہ اُنہوں نے صحابہؓ کی قرآنی دعوت کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے کے معاملے میں پہلو تہی کی۔ ورنہ دعوتی رُخ سے آج مسلمانوں کے حالات وہ نہ ہوتے جو آج دکھائی دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر صحابہؓ کا منشاء کیا تھا کہ انہوں اپنے وطن کو خیر باد کہا اور کارِ’’ بلاغ ‘‘ کو انجام دینے کے لیے اپنے وطنوں سے نکل پڑے؟ اور کسی تاریخ کا حصہ بننے کی طرف کبھی اُن کی توجہ نہیں گئی۔
۲)۔۔۔دراصل وہ زندگی کے اصل قرآنی نظریۂ زندگی کے تربیت یافتہ تھے، اور وہ نظریہ،یہ تھا کہ وہ اپنی ذات کو روزِ محشر کی پکڑسے بچانا چاہتے تھے۔ اور اِسی مقصد کے لیے سرگرداں رہے۔وہ اپنی آخرت کی خاطر اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچا نا، خود اپنے ذاتی مفاد میں سمجھتے تھے ، کہ کسی طرح ہم خدا کے حضور سرخ رو ہو جائیں، چاہے ہم سے اپنا وطن ہی کیوں نہ چھوٹ جائے، چاہے ہمارے حصے میں گمنامی ہی کیوں نہ آتی ہو۔
۳)۔۔۔پھر اُنہوں نے اپنے مدعو کودورانِ کارِ ’’بلاغ‘‘ کبھی حریف نہیں سمجھا، نہ اِ ن سے کوئی عداوت کی۔ وہ محض اُن کی نجات کو لے کر فکر مند رہتے کہ اگر اِن تک پیغام نہیں پہنچا یا گیا تو کہیں وہ اُس راستے کے راہی نہ بن جائیں جس کی منزل جہنم ہے۔اِسی تڑپ کو لے کر وہ ساری دنیا میں پہنچے۔
۴)۔۔۔پھردنیائے اِنسانیت سے ہمدردی کی یہ بلند سطح اِس لیے بھی تھی کہ وہ علی وجہ البصیرت سمجھتے تھے کہ’’ اِسلام کو پھیلانا‘‘ ان کا نصب العین نہیں ہے، جیسا کہ آج کل وسیع پیمانے پر سمجھا جارہا ہے۔اپنی قوم کی تعداد بڑھانے کا چکرعیسائی راہبوں کو تو راس آ سکتا ہے ، لیکن قرآنی فکر کے حاملین کے لیے بڑا نقصاں دہ ثابت ہو سکتا ہے، بلکہ ہوا ہے۔جب ہم اِسلام کو پھیلانے کی بات کرتے ہیں تو بلاغ کی راہ میں خواہ مخواہ رکاوٹ بن جاتے ہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی قوم کی تعدادمیں اِضافے کے چکر چلارہے ہیں اورہمارا یہی وہ خطرناک مفاد ہے جو دیگر اقوام میں خوف کی نفسیات Psyche کوپیدا کر نے کا باعث بنتا ہے اور بنتا جارہا ہے۔ایسے میں’’دین کو پھیلانے ‘‘کی بات سے ہم اپنے نقصان کے اسباب پیدا کر لیتے ہیں ۔ کسی ذہن و دل کو متوجہ کرنے کا وہی طریقہ سود مند ہے جو’’ بلاغ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے۔کسی بھی حق پسندقوم یا فرد میں قرآن کی طرف لپکنے کا Potential اگرچہ کہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے، لیکن بہر حا ل اُس کی مذہبی، جذباتی اورتہذیبی وابستگیوں کی نزاکتیں اُسے کسی اور مذہب کی طرف راغب ہونے سے مسلسل روکتی رہتی ہیں۔جیسا کہ حضرت عمرؓ اور مکہ کی کئی اہم شخصیات اِن ہی نزاکتوں کے پیش نظر رُکے رہے تھے اور آج بھی ہمارے کئی کٹر قسم کے غیر مسلم حضرات ، خوئے حق پرستی کے باوجود محض اِس لیے رُکے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی مذہبی وابستگی کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اور ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم میں کوئی صاحبِ بلاغ اِن تک پہنچنے والا ہے بھی نہیں۔ کیونکہ ، جیسا کہ کہا گیا، اِس صورتحال کا علاج صرف قرآن کی پیش کش میں تھا اور آج بھی غیرمسلموں کے اِ س جھجک کا علاج اِس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت میں مغفرت کی فکراور عذاب کے ڈر کا قرآنی پیغام اِنہیں ہرقسم کی مذہبی نزاکتوں سے اوپراُٹھا سکتا ہے اور اِس طرح قرآن شریف کا یہ پیغام براہِ راست اُن کے دلوں میں اتر کر رہتا ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں دعوت اور نصیحت کوبذریعہ قرآن ہی پیش کرنے کے احکامات باربارحضور صلی اللہ علیہ وسلم کودیے جاتے رہے ہیں، جیسے سورۂ ق (۵۰) کی آخری آیت میں یہ حکم نازل ہوا: ….. فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ۔’’ اے نبیؐ! ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ نافرمان آپ پر کس طرح سے جملے کس رہے ہیں، لیکن آپؐ کو ان پر زور زبردستی نہیں کرنا ہے، آپؐ تو صرف اس قرآن سے نصیحت کئے جانا ہے ہر اس(حق پرست ) کو جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔‘‘
آج ایک داعی کے لیے ایک دشواری یہ ضرورپیش آتی ہے کہ کس طرح مد عو کو پورا کا پورا قرآن شریف پڑھایا جائے؟دارصل معاملے پر اِس طرح سوچا جانا نہیں چاہیے،کیونکہ ہم جس کتاب کی بات کر رہے ہیں وہ ساتویں آسمان سے پرے جبریل علیہ السلام کے ذریعے ہم تک لایا گیا ہے جو، اللہ رب ذولجلال والاکرام کا کلام ہے،نیزیہ کہ یہ بڑے معجزات کا حامل کلام ہے،جسے ساری دنیا میں پھیلایا جاچکا ہے۔ مذکورہ دشواری کا حل صرف یہی ہے کہ اِسے یوں سمجھا جائے، کہ صحابہ کرامؓ کا قرآن شریف سے جو تعلق اور اپروچ تھا، ویساہی اپروچ ہمارا بھی ہو جائے ۔اصل سوال یہ ہے کہ، کیا ہم اپروچ کے اس صحابیانہ معیار کے کم از کم آس پاس بھی جانے کو تیار ہیں؟ اگر واقعی ہم چاہتے کہ اِس پوزیشن میں آجائیں تو ہمارا رب آج بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے، جوحضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آیا۔اِس کا آغاز اِس طرح ہوسکتا ہے اور ہزاروں لوگو ں کا آزمودہ نسخہ اور تجربہ بھی یہی ہے کہ اگر اِس کی روزانہ کی بنیاد پر کثرت سے تلاوت ہو تو دل میں ہمہ وقت قرآن شریف کا ایک نہ دکھائی دینے والا مرکزضرور قائم ہوجائے گا۔ یہ پہلو نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائی کلام کے ذریعہ صحابہ کرامؓ کی جس طرح تربیت فرمائی تھی ،اِس سے اُن کا یہ یقین،یقین کامل میں بدل گیا تھا کہ پورا قرآن شریف اگر نہ بھی پیش کیا جائے اور اِس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی کیوں نہ پیش کیا جائے، تو اِتنا ہی حصہ، بلکہ ایک آیت بھی اِس قدر قوتِ تاثیر کی حامل ہوتی ہے کہ جس سے کسی بھی اِنسان کے دل کی دنیا زیر وزبر ہو جائے۔چنانچہ حدیث کی کتب میں کئی روایتیں ملتی ہیں کہ بعض قبیلوں میں صحابہؓ گئے۔ ظاہر ہے ہر صحابیؓ کو پورا قرآن یاد ہونا ضروری نہیں تھانہ یہ ممکن ہی تھا،چونکہ صحابہؓ کو طرزِ نبویؐ سے کما حقہ‘ واقفیت تھی کہ قرآن شریف کی چند آ یتیں بھی نووارد کے کان میں اتریں گی تو انشاء اللہ اثر کرکے رہیں گی۔
یہ المیہ ہے کہ ہم جیسی ناشکری قوم کے پاس پورا قرآن شریف موجود ہونے کے باوجود ہم کبھی اِس کے بلاغ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔کیوں کہ ہمارے اطراف ایسے شریفوں کی کمی نہیں جو اِس ضرورت کو محسوس کرنے دیں۔!!! ہم کروڑوں کی تعداد میں ہیں،ہمارے خود ساختہ داعیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ دعوت کے نام پر قدم قدم پر سرگر میاں ہیں اور اگر کچھ نہیں ہے تو بس یہ کہ کوئی دائرۂ اِسلام میں داخل ہونے کو تیار نہیں،اِسی لیے دنیا کے پانچ سو کروڑ غیر مسلم اقوام میں ایک دو اِدھر اُدھر کی قبولِ اِسلام کی خبریں ہمارے لیے عجوبہ بن جاتی ہیں اور اِس کے مبالغہ آراء چرچے اخباروں کی سرخیاں بن کر ہمارے ذوقِ دعوت کی تسکین کا جھوٹا سامان فراہم کرتے رہتے ہیں۔
کئی لوگ اِس حقیقت کو جہالت کی حد تک نہیں جانتے کہ، کتاب کے ساتھ، کتاب کو ایک پیش کرنے والا بھی کھڑا ہو جائے،جس کے اخلاق وکردار پر مدعو کا بھروسہ ہو، جس کی دیانت داری اور اخلاص قابلِ یقین ہو۔ وہ مدعوئین کے سامنے ان کے رب کی وحی کو اس کے اصل الفاظ میں جستہ جستہ پیش کرتارہے ۔۔۔ ترجمہ نہیں۔۔۔کیوں کہ ترجمے مدعو کی بک شیلف کی ہی زینت بن کر رہ جاتے ہیں، اور دل میں کبھی نہیں اُترتے۔ 
کہنے کا منشاء صرف یہ ہے کہ ہماری حکمت عملی وہی ہوجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی تھی، جو ایک ساتھ چلنے والے تین قرآنی اجزاء پر مشتل تھی ۔۔۔یعنی
۔۔۔۱)یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰایٰتِہِ:’’وہ اُن پر ان کے رب کی آیات کی تلاوت کرے‘‘۔۔۔۲) وَ یُزَ کِِّیْہِمْ :’’اور وہ اُن کا تزکیہ کرے‘‘ ۔۔۔۳) وَ یُعَلِِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ:’’اور وہ اُنہیں الکتاب اور الحکمہ کی تعلیم دے ۔‘‘ بلاغ کی ادائیگی میں جب تک یہ تین اُمورنہ ہوں ، تب تک ’’قرآن‘‘ کی کاپیاں یا اِس کے ترجمے مدعو کی الماری کی زینت بڑھاتے رہیں گے ،اور خدائی پیغام کے دل میں اُترنے کا مرحلہ کبھی نہیں آئے گا۔ضرورت ہے کہ داعی خود کھڑا ہو اور اپنے مدعو کے سامنے اِس کی تلاوت کرے ،خود اِس کی تعلیم دے اور اِسے بلاغ کی حکمت سکھائے اورساتھ ساتھ اِس کے نفس کا تزکیہ کرتا جائے۔یہی طریقہ اِس آیت کا منشاء بھی ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ بھی رہا۔ اِن ہی معنوں میں صحابہؓ نے بھی بلاغ کی ذمہ داری ادا کی،نہ کہ’’دین کو پھیلانے ‘‘کا کام کیا، جو آقائے نامدار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے تفویض کی گئی تھی۔سچی بات تویہ ہے ،کہ صحابہؓ اِس حقیقت سے خوب باخبر تھے کہ قرآن شریف میں’’ دین کو پھیلانے‘‘ کا حکم کہیں کسی آیت میں نہیں ملتا۔اِس کے بجائے جو الفاظ یا فقرے ملتے ہیں وہ یہ ہیں:(سورۂ احقاف میں) بلاغ فھل یہلک الا القوم الفاسقون ۔۔۔( نیز دیگر مقامات پر یہ الفاظ)۔۔۔ ان علیک الا البلاغ۔۔۔ علیک البلاغ و علینا الحساب۔ صحابہؓ نے جو کچھ کیا وہ صرف اور صرف خود احتسابی سے عبارت تھا۔اُنہیں احتسابِ کائنات کی فکر سے زیادہ احتسابِ ذات کی فکر تھی جبکہ احتسابِ کائنات کے حوالے سے وہ عبرت حاصل کرتے تھے۔ انہیں اپنے فرائض معلوم رہتے تھے۔ کائنات کا احتساب ان کے خواب و خیال سے پرے کی شئ تھی۔حقیقت یہ ہے کہ دُنیا کی فکر میں اِجتماعیت کے گرفتار لوگ اکثر اپنی ذات کی اِصلاح سے غافل رہ جاتے ہیں:
اپنی اپنی ذات کی اِصلاح سے غافل رہے
لوگ جتنے اجتماعی زندگی کے ساتھ تھے۔۔۔(عزیز بلگامی)
۵)۔۔۔ پھر صحابہؓ اِس حقیقت کو شدت سے محسوس کرتے اور اِس پر بجا طور پر یقین رکھتے تھے کہ نزولِ قرآن کی اِبتداء ہی میں’’ اہلِ کتاب‘‘ کی جس اصطلاح کو اِن کے سامنے پیش کیا گیا تھا اُس کے دائرے میں صرف یہودو نصاریٰ ہی نہیں آتے ، بلکہ وہ خود بھی نزول قرآن کے ساتھ ہی اہلِ کتاب کے زمرے میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کے بارے میں قرآن شریف کی پیش کردہ ہر وعید پروہ کانپ اُٹھتے کہ کہیں اِن وعیدوں کا ہدف ہم تو نہیں ؟ چنانچہ وہ ہمیشہ اپنی اصلاح پر نظریں جمائے رکھتے اور تادمِ حیات خوفِ اِلٰہی کے ایمان افروز مظاہرے ان کی ذات میں نمایاں دکھائی دیتے۔اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم عملاً’’اہلِ کتاب‘‘ اور اُن کی خرابیوں کے نتائج سے خود کو مستثنیٰ قرار دیتے رہتے ہیں ۔
۶)۔۔۔منافقین کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کو پڑھ کر اُن پر خشیت اِلٰہی کا غلبہ اتنا زیادہ ہو جاتاکہ وہ سوچنے لگتے کہ مبادا کہیں وہ گروہِ منافقین میں تو شمار نہیں کیے جا رہے ہیں! اِس مزاجِ تقویٰ کے ساتھ صحابہؓ جب دُنیا میں پھیلے تو دعوتی فتوحات ۔۔۔نہ کہ زمینی فتوحات ۔۔۔سے ایسے نوازے گئے کہ آج بھی اِنڈونیشیااور اطراف کے ساحلوں تک اِن کی سرگرمیوں کی گو نج سنائی دیتی ہے ۔ زمینی فتوحات سے توانہیں سروکار بھی نہیں تھا، نہ ان کے پھلوں کو وہ کبھی چکھ ہی پائے تھے، اورنہ ہی یہ اِن کی سرگرمیوں کا ہدف تھیں۔
۷)۔۔۔جہاں تک اُن صحابہ کی بات ہے، جو مرکزِ اِسلام میں قیام پذیر رہے، تو وہ ازروئے قرآن ،اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے ہی مقیم رہے۔ مثلاً اُن کے کندھوں پراقتدار و حکومت ،سیاسی و اِنتظامی اُمور اور قرآنی احکامات و حدود کے نفاذ کی بڑی بھاری ذمہ داری تھی اور اِن ہی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے لیے اُن کا مرکزمیں قیام ازروئے قرآن نا گزیر تھا۔جس کاسورۂ نساء(۴) میں ہمیں یہ جواز ملتا ہے : ’’اے ایمان (کی دولت سے مالامال ہونے)والے اِنسانو۔۔۔! اللہ کی اطاعت کرواوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرواورتم میں جواولی الامر(یا صاحبینِ اِمورہیں اِن ) کی اِطاعت کرو۔ پھر اگر کسی شئے میں تم کسی تنازعہ کا شکار ہو جاؤ تو، اگرتم اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو تواِس(تنازعہ) کو اللہ اور رسول کی طرف رجوع کردویہی ( احسن تاویل کے ساتھ ایک) بہتر(طریقہ کاربھی)ہے۔‘‘(۵۹)
۸)۔۔۔پھر صحابہؓ نے اِسی قرآن سے سمجھا تھا کہ بخشش اور نجات کا دارومدار پیدائش پر نہیں بلکہ چند شرائط پر اِس کا انحصار ہے۔اگر وہ پورے نہ کیے جائیں تو حشر کے خطرات اُ ن پر منڈلاتے رہیں گے، جس طرح دوسروں پر منڈلاتے ہیں۔جیسا کہ سورۂ البقرہ(۲) میں کہا گیا ہے: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے (ہوؤں میں شامل ہیں) اورجو یہودی کہلائے جاتے ہیں اورجو نصاریٰ ہوئے ہیں اور صابی ہوئے ہیں،( اِن چار قسم کے گروہوں میں سے)جواللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لاتا ہے،اورنیک عمل کرتاہے تو ان کے لیے ان کا اجر۔۔۔ان کے رب کے پاس(محفوظ) ہے،اوراِن پر نہ کوئی خوف ہوگا،اور نہ وہ حزن ( و ملال سے دوچار )ہوں گے۔‘‘(۶۲)۔
’اللہ پر ایمان۔۔۔یومِ آخرت پر ایمان۔۔۔اور عملِ صالح‘‘۔۔۔ یہ تین شرائط ایسی ہیں ، جو اللہ کے اجر کا مستحق بناتی ہیں اور خوف اور حزن سے نجات دلاتی ہیں۔یہی پیغام لے کر وہ یہودیوں کے پاس بھی گئے، نصاریٰ کے پاس بھی گئے، صابیوں کے پاس بھی پہنچے۔اوراِس وسیع الظرف پیغا م کو پیش کیا اور ہر قوم کے افراد کا دل جیتا۔جہاں پہنچے ، قرآن کے اصل الفاظ کے ساتھ ساتھ خود مدعو کی زبان میں قرآن سمجھایا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مقامی زبانوں میں قرآن کو پہنچانے کی داغ بیل بھی صحابہؓ نے ہی ڈالی۔ ظاہر ہے وہ جہاں بھی پہنچے ہوں گے، وہاں کی زبان عربی نہیں ہوگی،اس لئے مقامی زبانوں کا اُنہوں نے بھرپور استعمال کیا ہوگا، تاکہ بلاغ کا حق ادا ہو جائے اور یہی قرآن شریف کا مطلوب بھی ہے، افسو س کہ آج ہم ایک طرف اپنی اِصلاح سے غافل ہیں، دوسری طرف مدعو اقوام کی دشمنیوں میں مبتلا ہیں، تیسری طرف، شب و روزایک بے فیض دعوت دئے چلے جارہے ہیں اور صفر فی صد نتیجے سے ہمیں تکلیف بھی نہیں ہوتی۔
۹)۔۔۔انہیں قرآن شریف ہی کے ذریعہ سے معلوم تھا کہ اللہ رب العزت نے انہیں دعوتی کاموں میں کس کس کو نمونہ بنانے کا حکم دیا ہے۔مثلاًسورہ الصف(۶۱) کی آخری آیت میں ہے:’’اے ایمان والو ، اللہ کی طرف انسانیت کو دعوت دو حضرت عیسیٰ اِبنِ مریم ؑ کے حواریوں کی طرح، جب حضرت عیسیٰ ؑ نے آواز لگائی کہ کون ہے میر ا ساتھ دینے والا، اللہ کی طرف انسانیت کو بلانے میں؟ حواری(دفعتاً) پکار اُٹھے تھے کہ’’ ہم ہیں انصار اللہ‘‘۔ بنی اِسرائیل سے(تعلق رکھنے والا )ایک گروہ تو(دولتِ) ایما ن سے سرفراز ہوا، تاہم(اِن ہی کے ایک)گروہ نے کفر (کو ترجیح دینا پسند) کیا،(پھر جب اِن کے درمیان معرکہ برپا ہو ا )تو ہم نے،ان کے دشمنوں پر(غلبے کے لیے) صاحبینِ ایمان کی مدد کی اور اِس طرح ،وہ(اپنے دشمنوں پر) غالب آگئے۔‘‘(۱۴)۔
انسانوں کی خدمت اور اعلیٰ اخلاق کے اِن مظاہروں کے ساتھ دعوت الی اللہ کے جو اثرات متر تیب ہو تے ہیں ،اس کا مشاہدہ چشمِ فلک نے پہلے بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے حوارین کے دَور میں کیا تھا اور یہی دَور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہؓ کے دور میں بھی پلٹ آیاتھا،اِس لیے کہ صحابہؓ نے قرآن کی شبنم سے دلوں کی سر زمین کو قابل فصل بنا دیا تھا۔اور یہی سبب تھا کہ حضرت عمرؓ اور ان کی سیاسی قوت اِسی Ground Work کی بدولت وہاں پہنچی جہاں عام حالات میں اِس کا وہاں تک پہنچنا دشوار ہو سکتا تھا۔حضرت عیسیٰ ؑ کے حوارین نے بھی ’’بلاغ‘‘ کے لیے ایسی ہی بے لوث خدمات پیش کیں اوریہی ہمارے سر پر ایستادہ آسمان گواہ ہے کہ صرف چالیس سال کی مدت میں آدھی دنیاحضرت عیسیٰ ؑ کے دین کو قبول کرچکی تھی اور وہ دین اسلام کے سوا کوئی اور دین نہیں تھا۔ اس کے اثرات آج بھی دکھائی دیتے ہیں کہ زمین پرعیسائیت کا غلبہ ہے اوراِس کے ماننے والوں کی کثرت ہے۔ صحابہؓ کے دین میں بھی نہ اقتدار کی وہ چمک دمک تھی نہ وہ جھلک، جو آج کل دیکھنے کو ملتی ہے، نہ ہی وہ کسی فرمائشی پروگرام کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے۔انتہائی سادہ اور عین فطرت سے تال میل رکھنے والے ا صول ان کے پاس تھے۔کیوں کہ ان کی دعوت دنیا وی مفادات کے حصول کے لئے ہر گز نہیں تھی۔حوارین اور صحابہؓ جیسا وہ قرآنی کردار ہم میں کہاں سے آئے گا جو ہمارے مدعو کو متاثر کر سکے۔تصنع ،بناوٹ اورتکلفات سے پاک ایک طرف اُن کی سادہ مزاجی تھی، دوسری طرف قرآنی آیات کی پر کاری تھی، تیسری طرف اِس کے مضامین و نصائح پر اِن کاخالص عمل تھا ۔ایک سادہ سی دعوت۔۔۔ تین بنیادی باتوں کی تکمیل کی دعوت۔۔۔اولاً خالص توحید ، ثانیاً ہر چھوٹے بڑے عمل یا گفتگو یا سوچ میں آخرت کی جواب دہی کے احساس کی روح۔۔۔ ثالثاً، عظیم نبیؐ کے عظیم کردار اورسُنّتوں کا اتباع۔ ایک سادہ سا دین، اتنا ہی مختصر تھا جتنا اُنہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملا اور جو قرآن شریف کی ایک ایک سطرمیں آج بھی پوری صحت و سلامتی کے ساتھ موجود ہے۔ جس میں نہ کسی کو مسلمان بنانے کے رسم ورواج تھے، نہ دیگر قباحتوں یا حرام و حلال کی کوئی غیر قرآنی لسٹ تھی، نہ مباحات ومکروہات کے مکڑی کے جال تھے،نہ مؤکدہ غیر مؤکدہ جیسی بھول بھلیاں تھیں، نہ اپنے تشخص کے حصول جیسی کوئی اجنبی چیزتھی ، نہ حقوق طلبی کی کوئی لڑائی ہی برپاتھی،غرض کہ نہ تو کوئی ہنگامہ آرائی تھی نہ کوئی ہائے ہُو۔۔۔ اِن کی داعیانہ زندگی صرف اور صرف قربانیوں سے عبارت رہی، وطن سے ہجرت اُن کی قربانیوں کی سب سے بلند چوٹی تھی۔ اِس کے برعکس، اِن نفوسِ قدسیہ کی تعریف و توصیف میں مصرو ف رہنے والے ہم مسلمان، ایک ایسی دینداری کے قائل بن کر رہ گئے ہیں،کہ جہاں رسم و رواج کی قباحتوں،بے جا تفاخر کی لڑائیوں کا دور دورہ ہے ،جہاں بے معنی ہنگامہ آرائیوں نے ہمیں دبوچ رکھا ہے ،جہاں نفس کی بندگیوں کے درمیان قومی و سیاسی نبرد آزمائیا ں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔یعنی، نہ دین سلامت ہے نہ ہم ہی سلامت ہیں ۔پھر بھی نعرۂ تکبیر۔۔۔ اللہ اکبر کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔کاش کہ ہم قرآن سے ویسا ہی درس لیتے ، جیسا کہ صحابہؓ نے لیاتھا اورجس کی تفصیل ہم نے گزشتہ سطروں میں پیش کردی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ان کی دعوتی فتوحات ہماری تلوارکی دھار سے زیادہ تیز ثابت ہوئیں۔ 
یہ ایک المیہ ہے کہ مسلم تاریخ نویس بھی صحابہ کی عظیم الشان خدمات کا نوٹس نہیں لے سکے، الا ماشاء اللہ ۔ اُمت نے انکی قدر نہ جانی۔ ثبوت کے لیے آپ کسی بھی بڑے سے بڑے دیندار مسلمان سے استفسار کرکے دیکھ لیں کہ وہ کتنے صحابہؓ کا نام جانتا ہے، توجواباً یا تووہ گنے چنے چند صحابہؓ کے نام ہی بتا پائے گا،یازیادہ سے زیادہ پچاس یا ساٹھ نام،اور اُن میں سے بھی جو مدینہ طیبہ، بغداد اور دمشق کے مطلع پر نمودار ہوئے تھے۔ اِس بے خبری کا سبب کیا ہے؟ اِس کا سبب یہی تو ہے کہ اِن کے بارے میں کوئی معلوما ت محفوظ نہیں کی گئی، اور وہ ہزاروں صحابہؓ جو ساری دنیا میں داعیانہ خدمات کے لئے پھیل گئے، انکے ذکر سے خالی ہمارے تاریخ دانوں کی مرتب کردہ تاریخ صرف اِظہار تفاخر کی کھیتی تو بن سکی، دعوت کی فصل کبھی نہیں اُگاسکی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی وفاداریوں کا قلادہ اپنے گلے میں باقی رکھنے کے کیا ہم آج قابل بھی رہ گئے ہیں

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے