اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

جیل میں اب تک 1860 ء کے بنے ہوئے قوانین پر عمل ہورہا تھا جس کے تحت مسلمان روزہ رکھنے والوں کو ایک چھوٹا گھڑا دو مٹی کی رکابیاں، شام کو دونوں وقت کا کھانا ایک ساتھ صبح کا ناشتہ اور 2 چھٹانک گڑ دیا جاتا تھا۔
انگریز تو ہمارے دشمن تھے وہ جیل میں جتنی بھی سزا دے سکتے تھے دیتے تھے۔ لیکن ان کو کس نام سے پکاریں جو انگریزوں سے لڑکر ملک کے حکمراں بنے اور وہ اتنا نہ کرسکے کہ آزاد ملک کا آزاد شہری روزوں میں اور برت میں جو کھاتا ہو اُس کا انتظام کردیں۔ جیل میں جو ناشتہ کے نام سے دیا جاتا ہے وہ ایک دن بھنے چنے جس میں کھانے کے قابل 50 فیصدی باقی پھینکنے کے قابل۔ ایک دن اُبلے چنے اور ایک دن دلیہ۔ کیا کسی ہندو بھائی نے اپنے مسلمان دوست کو بھنے چنے سے افطار کرتے دیکھا ہے یا سنا ہے؟ جب ہم غلام تھے تو من سیر چھٹانک چلتا تھا۔ یاد نہیں کتنے برس ہوگئے جب سے کوئنٹل، کلو اور گرام چل رہا ہے لیکن جیل میں دو چھٹانک ہی گڑ دیا جاتا ہے جسے اکھلیش بابو نے 15 گرام شکر میں تبدیل کردیا۔
جیل میں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ جب 1977 ء میں ہندوستان کی سابق ملکہ اندرا گاندھی کو گرفتار کرنے کا ڈرامہ کیا گیا اور خود اندراجی نے کہا کہ میرے ہتھکڑی لگاؤ تب میں جاؤں گی ایسے نہیں جاؤں گی۔ اور جب اُن کے خزانہ کی تلاش میں ان کا سارا گھر الٹ پلٹ کردیا گیا اور باورچی خانہ تک کھود ڈالا تو ان حادثات کے خلاف احتجاج کرنے کی کانگریسیوں میں ہوڑ لگ گئی۔ ہر بڑا چھوٹا کانگریسی جیل بھرو تحریک میں اس لئے جیل جارہا تھا کہ اندرا گاندھی کے غلاموں میں اس کا نام جیل کے رجسٹر میں درج ہوجائے۔ یہی ثابت کرنے کے لئے نرائن دت تیواری بھی تقریباً 100 ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوکر جیل گئے تھے۔
جیسے اندرا گاندھی سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے تیواری جی گئے تھے اسی طرح تیواری جی سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے اُترپردیش کے کانگریسی ان سے جیل میں ملنے کے لئے لکھنؤ آرہے تھے۔ مراد آباد کے ایک سابق وزیر اور وفادار کانگریسی حافظ محمد صدیق صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ آئے اور ہم سے اصرار کیا کہ جیل میں ساتھ چل کر تیواری جی سے ملاقات کرادو۔ ہم انہیں لے کر چلے گئے اور وہاں پہونچا دیا جہاں تیواری جی کو رکھا گیا تھا۔ وہیں ایک دوست عمار رضوی صاحب مل گئے۔ وہ کہنے لگے چلئے اور لوگوں سے بھی مل لیا جائے۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ پیچھے سے ایک ڈنڈے میں لٹکا ہوا سبزی کا ڈرم قریب سے گذرا۔ عمار صاحب نے جلدی سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیا اور کہا کہ یہ کیسے کھایا جاتا ہوگا؟ اس سے تو اچھا ہے کہ آلو اُبال کر نمک مرچ ملاکر دے دیں اسے کم از کم انسان کھا تو لیں گے۔
مجھے موقع مل گیا۔ میں نے کہا جناب برسوں وزیر رہنے والے عمار صاحب جب آپ کی حکومت تھی اس وقت بھی سبزی یہی تھی ڈرم بھی یہی تھا اور لانے والے بھی اتنے ہی گندے کپڑوں میں تھے۔ اور اسے کھانے والوں میں آپ کا یہ بھائی حفیظ بھی تھا۔ اور اب جب بھی پھر آپ کی حکومت آئے گی اس وقت بھی یہی سب ہوگا۔ بس ناک پر رومال رکھنے والے سابق وزیر ہوں گے۔ تیر ایسا نشانہ پر لگا کہ ان کی بولتی بند ہوگئی۔ اور جب 1980 ء میں پھر حکومت آئی اور عمار رضوی صاحب بھی وزیر ہوئے تب بھی یہی سب رہا کیونکہ مینول وہی تھا۔ اور آج بھی وہی ہے۔ آج جو لیموں کا شربت، پاؤ روٹی، شکر اور دودھ کا تحفہ دیا گیا ہے وہ اس وقت تک ضرور رہے گا جب تک سائیکل کی حکومت رہے گی۔ پھر جس دن یہ بدلی تو جیل کی سحری بھی بدل جائے گی اور افطاری بھی۔
جیل میں سب سے ہم مسئلہ وہاں کے افسروں اور ماتحتوں کی چوری کا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جن چیزوں کا اعلان کیا ہے وہ بس ایسی ہیں کہ اس میں جتنی بے ایمانی ہوسکتی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ جیل میں دودھ اب بھی دیا جاتا ہے لیکن وہ پانی ملا ہوا نہیں ہوتا بلکہ دودھ ملا ہوا سفید پانی ہوتا ہے۔ اسے ہم نے 9 مہینے رہ کر خوب خوب دیکھا ہے اور اس سے کُلّی کرنا بھی کبھی پسند نہیں کیا۔ ہم جب جیل میں تھے اس وقت مسٹر پانڈے جیلر تھے۔ رمضان شریف آئے تو ہم نے ان سے دودھ کے انتظام کے لئے کہا کہ جو جیل میں لاتا ہے ہم اسے قیمت دے کر لے لیا کریں؟ اب آپ اس دودھ کی تعریف جیلر صاحب کے منھ سے سنئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس کلّو مارکہ دودھ کا کیا کریں گے؟ (کلّو دودھ کا ٹھیکیدار تھا) اس میں سے پہلے تو کریم نکالی جاتی ہے اس کے بعد پوری فراوانی سے پانی ملایا جاتا ہے پھر اسٹاف کے لوگ اپنا اپنا حصہ لے لیتے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اس میں مزید پانی ملا دیا جاتا ہے۔ اب آپ ہی سوچئے اس مہنگائی کے زمانہ میں چھ میل دور سے دودھ لانے والا 62 پیسے کلو کے حساب سے جب دودھ دے گا تو کیسے دے گا؟ آپ گھر سے دودھ منگوا لیں لیکن وہ گورنمنٹ کی ڈیری کی مہربند بوتل میں ہو۔ اس لئے کہ کھلی ہوئی کھانے پینے کی چیز نہیں لائی جاسکتی۔
اب ذرا سوچئے کہ لیموں کا شربت، پاؤ روٹی، شکر اور دودھ میں کتنا اسٹاف میں تقسیم ہوجائے گا اور کتنا بیچارے روزے داروں کو ملے گا؟ ہم 1966 ء کے رمضان میں جیل میں تھے اس وقت 62 پیسے کلو دودھ ٹھیکیدار سے لیا جاتا تھا۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیر اعلیٰ سحری اور افطار کا سامان اپنے اسٹاف سے منگواکر تقسیم کرائیں۔ کریں گے وہی جو کرتے آئے ہیں۔ گیہوں میں 40 فیصدی کوڑا کرکٹ سبزی میں نہ جانے کونسی سبزی؟ کوئی ماہر نباتات بھی نہیں بتا سکتا ہے جسے سبزی کہا جاتا ہے اس میں کس کس درخت کے کچے پکے پھل یا پتے ہیں۔ جیل کی عنایتیں سر آنکھوں پر پچاس برس پہلے ہم تین آدمیوں کا اپنا خرچ دو ہزار روپئے مہینے سے زیادہ ہوتا تھا اور رمضان شریف میں تو شاید پانچ ہزار ہوا ہوگا۔ جیلر کی اجازت سے ہر سامان گھر سے آتا تھا۔
جیل میں آج بھی بھائی چارہ مثالی ہونا چاہئے۔ ہم جس بیرک میں تھے اس میں 22 روزے دار تھے جن میں ہمارے علاوہ دس اور خوشحال گھرانے کے تھے ہم سب مل کر جو انتظام کرتے تھے اس کے لئے کوشش کرتے تھے کہ سب مل کر افطار کریں اور سب ساتھ میں سحری کھائیں۔ یہ ماحول ہم نے بنایا تھا۔ ایسا یا ملتا جلتا ہر جگہ ہوتا ہوگا اس لئے کہ جو روزہ رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دوسرے کو روزہ افطار کرانا اور سحری میں شریک کرنا کتنے ثواب کا سودا ہے؟
ہر ضلع میں جیل وزیٹر بنائے جاتے ہیں اُن کے بارے میں سنا تو بہت کچھ ہے لیکن ہم 9 مہینے رہے ہمارے سامنے نہ کوئی آیا اور نہ کسی کا نام معلوم ہوسکا کہ کون کون ہے؟ ان میں جو حضرات بھی ہوں اگر وہ اتنا کام کریں کہ رمضان میں جیل میں دی جانے والی نعمتوں کو جاکر دیکھ لیں تو اسٹاف شاید اپنی بے ایمانی میں کچھ کمی کردے۔ اب افطار پارٹیوں کا اتنا رواج ہوگیا ہے کہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ غریب سے غریب مسلمان بھی کس کس چیز سے افطار کرتے ہیں؟ جیل میں آج کل جب سات بجے کے بعد فطار ہورہا ہے تو ممکن نہیں کہ کوئی جیل میں بند حوالاتیوں کے ساتھ افطار کرسکے کیونکہ بیرکیں بند ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس سامان کا معائنہ تو ہوسکتا ہے جو وزیر اعلیٰ کے حکم سے دیا جانا ہے۔
جیل کا محکمہ پولیس جیسا ہی ہوتا ہے وہ پولیس کے متعلق سنتے ہیں کہ انہیں کس کسی ڈیوٹی میں کتنی کتنی اوپر کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا سابقہ ان سے ہوتا ہے جن کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں۔ رہے جیل کے بندی تو پہلے تو سب تھانے میں رکھوا لیا جاتا ہے۔ پھر جیل میں کپڑے اتارکر تلاشی لی جاتی ہے۔ ملاقات کے لئے آنے والے آکر دے جاتے ہیں تو اس میں سے وارڈ لے لیتے ہیں اب کیا بچا جو رشوت دی جائے اس لئے جیل کے اسٹاف کو اگر کچھ کہا جاسکتا ہے تو اس کا ٹکیہ چور کے علاوہ دوسرا نام نہیں ہے۔ بس دعا کیجئے کہ اگر روزہ رکھنے والے مسلمانوں کو جیل میں رہنا پڑے تو پروردگار اُن کے ایک مہینے کے روزوں کو ایک سال کا بنا دے اس لئے کہ ان کے لئے اور آپ صرف دعا کرسکتے ہیں۔

«
»

اسامہ بن لادن کے قید و بند کا ڈرامہ

ہم چراغوں کوڈراتے ہو،یہ کیا کرتے ہو؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے