کیا واقعی ملک میں ایمرجنسی کے امکانات پیداہورہے ہیں

انڈین ایکسپریس کو دیئے انٹرویو میں اڈوانی نے کہا ہیکہ مستقبل میں شہری آزادی کی سلبی کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ایمرجنسی کو اندرا گاندھی اور ان کی حکومت کا جرم بتاتے ہوئے اڈوانی نے کہاکہ یہ پھر ہو سکتا ہے بھلے ہی ملک کو آئینی تحفظ حاصل ہیمگر۵۱۰۲ء4 میں بھی کافی حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ایمرجنسی کے دور کے بعد ایسا کچھ کیا گیا ہو جس سے مجھے یہ یقین ہو سکے کہ شہری ا?زادی سے پھرکبھی چھیڑنہیں کی جاسکتی حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کوئی ا?سانی سے نہیں کر سکتا لیکن یہ پھر بھی یہ ناممکن نہیں ہے ،میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اصل حقوق اورشہری ا?زادی میں پھر سے کاٹ کر دی گئی ہے۔اگرچہ اڈوانی نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ ایک ایمرجنسی ہندوستان کو دوسرے ایمرجنسی سے بچا سکتا ہے جرمنی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہٹلر کی حکومت کی وجہ سے آج جرمنی میں شاید برطانیہ سے بھی زیادہ جمہوری حقوق کے تئیں بیداری ہے۔ ہندوستان میں ایمرجنسی کے بعد انتخاب ہوا اور اس میں جس پارٹی نے ایمرجنسی تھوپی تھی اس بری طرح سے ہار ہوئی اور یہ مستقبل کے حکمرانوں کے لئے ڈرانے والا ثابت ہوا کہ اسے بار بار گیا تو منہ کی کھانی پڑے گی۔ میڈیا انتہائی طاقتور بتاتیہوئے کہاکہ یہ جمہوریت اور شہری حقوق کی حفاظت اوربحالی کیلئے بھی پر عزم ہے اس کا مجھے پتہ نہیں اس لئے اس کی جانچ ہونی چاہئے۔
لال کرشن اڈوانی کیذریعہ اپنے انٹرومیں ظاہر کئے گئے خدشات کے بعد سوشل میڈیا اورسیاسی حلقوں میں گرماگرم بچت شروع ہوگئی ہے۔بی جے پی کے ترجمان ایم جے اکبرنے اڈوانی کے بیان پر ردعمل کا ظہارکرتیہوئے کہاکہ’ اڈوانی کسی شخص کا نہیں بلکہ اداروں کی بات کر رہے تھے۔وہ کسی ادارے کی طرف اشارہ کر رہے تھے ان کا اشارہ کسی شخص کی طرف نہیں تھا ،میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں ایمرجنسی جیسی کسی صورت کا کوئی امکان ہے۔
لیکن مخالف جماعتیں بی جے پی کی صفائی سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اڈوانی کے انٹرویو کو مودی اور ان کی حکومت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں جوحقیقت ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکیجریوال اڈوانی کے بیان کی حمایت کرتیہوئے دہلی حکومت اورمرکزکے ٹکراؤکوایمرجنسی کی ابتداسے تعبیرکیاہے جبکہ عام ا?دمی پارٹی کیترجمان ا?شوتوش نے کہا ہے کہ اڈوانی کا انٹرویو مودی کی سیاست پر پہلا کلنک ہے ،وہ یہ کہہ رہے ہیں مودی کی قیادت میں جمہوریت محفوظ نہیں ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی زیادہ دور نہیں ہے۔ ایک ٹویٹ میں آشوتوش نے کہا ہے کہ جب مودی کو وزیر اعظم امیدواربنایا جا رہا تھا تو اڈوانی نے اپنے بلاگ میں مسولن اور ہٹلر کا ذکر کیا تھا۔ اڈوانی نے اس وقت کہا تھا کہ بی جے پی مکھرجی، اٹل، دین دیال اپادھیائے کے ا?درشوں سے دور ہٹ گئی ہے۔جبکہ نتیش کمار نے کہاہے کہ اڈوانی ملک کے سب سے سینئر رہنماؤں میں سے ایک ہیں اگر انہوں نے اس سنگین خدشہ کااظہارکیاہے تو سب کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ہم لوگ تو جھیل ہی رہے ہیں اورکے سی تیاگی ملک میں ایمرجنسی کے امکانات موجودہونے کا دعویٰ کرتیہوئے کہاکہ جن وجوہات کی بنا پر ایمرجنسی لگا تھا وہ اب بھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال جمہوری پیمانے پرکھرانہیں اتررہاہے۔شخصی ا?زادی کی پامالی کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کی اجتماعی قوت کو بے دردی کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بے گناہوں کے خون سے دامن رنگنے والے افرادعدالت سے رہاہوہیہیں اورانہیں عہدہ پر براجمان کیاجارہاہے۔ ملک کے کسانوں کوخدااورکارپوریٹ سیکٹرکے حوالے کیاجارہاہے۔مذہب کی بنیادپر کھینچی جانے والی نفرت کی لکیرکی اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کونوکری دینے سے بھی اعلانیہ گریزکیاجانے لگاہے۔کیایہ وہی عوامل نہیں ہیں جس کی بنیادپرکسی ملک کی جمہوریت کمزورہوجاتی ہے وہاں ایمرجنسی جیسے حالات پیداہوجاتیہیں۔
ملک کی اقتدارپرنریندرمودی کے قابض ہوتیہی جیسے گنگاجمنی تہذیب کونظربدلگ گئی۔بی جے پی کے چھوٹے بڑے نیتا بے لگام ہوئے پھربیان بازی کا ایساسلسلہ ?دارزشروع ہواکہ ہندوستانی جمہوریت کا اثاثہ سمجھی جانے والی کثرت میں وحدت کی تاریخ دھندلی پڑنے لگی۔مسجدوچرچ پر حملے ہونے لگے اوران کی بے حرمتی کی جانے لگی۔یوپی اے کے دوراقتدارمیں بدعنوانی سے پریشان عوام کے اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھے تھے لیکن یہ کیا اقتدارکاچسکالگتے ہی ملکی ترقی ،جمہوری اقداراورعوامی فلاح وبہبودکی بجائے مودی کی حکومت کی پوری ٹیم کی توجہ عوام کے جمہوری حقوق کوسلب کرنیاورایک مخصوص نظریات کوتھوپنے کی تحریک گامزن ہوگئی۔بی جے پی کیایم پی یوگی ناتھ آدتیہ ،شاکشی مہاراج اور سادھوی پراچی سمیت دیگرلیڈروں کے زہرمیں بجھے ہوئے بیانات ابھی عوام کے ذہن سے محونہیں ہوئے ہوں گے۔کل تلک کانگریس کے دوراقتدارمیں عوامی حقوق کوغصب کرنے اور ملکی مفاد سے سمجھوتہ سمیت کسانوں کی بھلائی کیلئے کچھ نہ کرنے کا سنگین الزام لگاکراقتدارکی کرسی پربراجمان ہونے والی این ڈی اے حکومت کی ایک سالہ کارگردگی کا جائزہ لینے کے بعد مایوسی کی افسوسناک تصویرسامنے آتی ہے۔ دومرتبہ تحویل اراضی بل لاکرکسانوں کی زمین کوکارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کرنے کاجوکھیل کھیلاجارہاہے اسے ماہرین نے کسانوں کوخودکشی پرمجبورکرنے والا اقدام قراردیاہے خودمودی حکومت کے لیڈران بھی کچھ دبے لفظوں اورتوکچھ نے واضح طورپراس کی مخالفت کرنے کی جرآت کی ہے لیکن اسے مودی حکومت کیپس پردہ کام کرنے والی لابی نے نقارخانے میں طوطی کی آاز ثابت کردیااس کے پردہ عوام کے بارے میں ماہرین کئی سنگین خدشات کا عندیہ ظاہرکررہیہیں۔ مودی حکومت اوران کے وزراء4 کویہ نہیں بھولنی چاہئے کہ ہندوستان ایک کثیرالمذاہب والی ا?بادی کاملک ہے اورکثرت میں وحدت ہی اس کی اصل خوبصورتی ہے۔اگراسے نقصان پہنچاتوہندوستان میں جوکچھ بچے گا اس میں صرف نفرت ،عداوت اوررشہ کشی ہوگی پھر اس کا لازمی نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں سامنے ا?ئے گا۔وزیراعظم نریندرمودی کوہرحال میں یہ یادرکھنا ہوگاکہ وہ آرایس ایس کے پرچارک بعدمیں ہیں پہلے ہندوستان کے وزیراعظم ہیں اس لئے انہیں ملکی اقدارکی حفاظت ،شہری آزادی اور عوامی حقوق کاتحفظ بہرحال مقدم رکھنا ہوگا۔دورہ? ہندوستان کے موقع پر امریکی صدرباراک اوبامہ کے ذریعہ دی گئی نصیحت کومستردکرنا ہندوستان کی جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔(یو این این)

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے