نکسلی تو خفا تھے ہی قدرت نے بھی منہ پھیر لیا

رائے پو رمیں نیپال کی طرح زلزلہ نہیں آیا صرف آندھی آئی۔ نیپال میں زمین پھٹنے مکان گرنے اور تباہی سے لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔ رائے پور میں صرف ہوا سے 50پولیس والے زخمی ہوگئے جن میں سنا ہے کہ کچھ میری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ بند پنڈال کے اندر بھی تمام کرسیاں اسی طرح گری تھیں جیسے انہیں دشمنوں نے گرایا ہے۔اس کی حالت دیکھ کر وزیر اعظم کا پروگرام اس لئے ملتوی کرنا پڑا کہ اب اتنا وقت نہیں تھا کہ کہیں دوسری جگی پنڈال بنایا جائے اور وہ پنڈال اس طرح تباہ ہوا تھا کہ اسے پندرہ دن میں بھی جلسہ کے قابل نہیں بنایا جا سکتا تھا۔
چھتیس گڑھ میں ہی نکسلیوں کے قبضہ والے علاقہ سے چند کلومیٹر دور مودی کی ایک ریلی کا بھی پروگرام تھا ۔ نکسلیوں نے قریب کے دیہاتوں میں اعلان کر دیا تھا کہ وزیر اعظم کی ریلی کا بائیکاٹ کیا جائیگا۔ تم لوگوں میں کوئی شریک نہ ہو۔ بات وزیر اعظم کی تھی اس لئے ان معصوم دیہاتیوں نے یہ سوچا کہ وہ تو بادشاہ سلامت ہیں ان کی تقریر سننے کے لئے آنے والوں کی حفاظت تو ہو سکتاہے فوج کر رہی ہو۔ اور وہ چل پڑے۔ ریلی کی جگہ سے 4کلومیٹر پہلے گاؤں کے 500مردوں اور عوتوں کو اغوا کر لیا گیا اور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ تماشہ دیکھتے رہے۔ سنا ہے انہوں نے سو کلومیٹر ریل کی پٹری بھی اکھاڑ دی تا کہ ٹرین سے لوگ نہ آسکیں۔ اس طرح انہوں نے دکھا دیا کہ جس وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم کی حمایت حاصل ہے وہ بھی نکسلیوں کے مقابلہ میں بے بس ہیں اور ان کی ا تنی بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ بندی بنائے ہوؤں کو رہا کرا لیں۔
وزیر اعظم کی ریلی ہوئی مجمع بھی کافی تھا لیکن وہ جو مودی، مودی، مودی کا شور ہو ا کرتا تھا وہ اب بھولی بسری کہانی ہو گئی ۔ وزیر اعظم جو ہر جگہ تقریر میں تیور دکھاتے ہیں وہاں انہوں نے دفاعی انداز اختیار کیا اور نکسلیوں سے کہا کہ تشدد مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور معاملات پر بات کریں۔ کہا گیا کہ 30برس میں یہ کسی وزیر اعظم کا ان علاقوں میں آنے کا پہلا موقع تھا ۔ شری مودی جہاں جاتے ہیں وہاں یہ ضرور جتایا جاتا ہے کہ یہاں وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے آنے کی ہمت کی ۔ یا انہوں نے محبت کا پیغام دیا۔ مودی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ جوان کی گولیوں سے ہلاک ہو گئے ہیں وہ اپنی بندوق اتار کر ایک باپ کی طرح ان کے بچوں کے ساتھ ایک ہفتہ رہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کے لئے وہ بندوق پھینک دیں گے۔
سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کسی بھی وزیراعظم کا یہ ایک طرفہ بیان ہے ۔ کسی نکسلی سے نہ ہماری رشتہ داری ہے ،نہ دوستی، نہ جان پہچان لیکن انسان کی حیثیت سے ہم کہہ رہے ہیں کہ ان سے یہ سوچ کر بات کرنا کہ انہوں نے کتوں کے کاٹنے سے پاگل ہو کر بندوق اٹھالی ہے نا انصافی ہے ۔ پورا ملک جانتا ہے کہ چنبل گھاٹی کسی زمانہ میں اسی طرح بندوق برداروں کا علاقہ تھا۔کہانی کے پس پشت یوں تو ہر ڈاکو کی ایک داستان تھی لیکن جتنا آسان سبق پھولن جو دیوی کہی گئی اس کا تھا وہ تو سب ابھی بھولے نہیں ہو نگے ۔ ضرور ت اس بات کی ہے کہ حکومت کی طاقت کے نشے کے بغیر ان سے بات کی جائے جیسے ان سے میڈیا کے لوگ ملتے ہیں۔ اور جیسے وہ سب ملتے ہونگے جو ان کی ضرورت کی وہ چیزیں انہیں پہنچاتے ہیں جو جنگل میں ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں کبھی ملک کا دشمن نہیں کہا گیا ۔ کبھی غدار نہیں کہا گیا۔ جھار کھنڈ کے ایک وزیر اعلیٰ نے بارودی سرنگ سے پولیس والوں کے مرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنے ہی گھر کے بچے ہیں۔ روٹھ کر جنگل میں چلے گئے ہیں۔ ہم انہیں منا کر لے آئینگے۔
کسی مرکزی یا صوبائی حکومت نے ایسی کوشش نہیں کی کہ آچاریہ ونو بابھاوے جیسے کسی بزرگ کو یہ ذمہ داری سونپ دی جاتی کہ وہ جا کر بات کریں ۔ مودی سرکار کے ایک بابا رام دیو ایسے ہو سکتے تھے جنہوں نے پدم وبھوشن کا اعزاز واپس کر دیا کہ وہ سنیاسی ہیں۔ اور جب ہریانہ کی سنگھی سرکار نے انہیں بے وجہ کابینی وزیر کا درجہ دیا تو انہوں نے وہ بھی واپس کر دیا کہ میں بابا ہوں اور بابا ہی رہ کر سیوا کروں گا۔ لیکن ان کے اوپر ایک ایسا سیاہ داغ ہے جو سب سے زیادہ چمکدار ہے کہ انہوں نے پورا ایک سال اور کروڑوں روپئے یہ ثابت کرنے میں پھونک دئے کہ غیر ملکی بینکوں میں 75لاکھ کروڑ کا لادھن والے روپئے جمع ہیں جو سونیا سرکار کے اور ان کے آدمیوں کے ہیں انہیں اس لئے حکومت نہیں لاتی کہ جب حکومت چلی جائے گی تو وہ اس سے عیش کرینگے۔ بابا نے ہر ہندوستانی کو یقین دلادیا کہ اگر یہ روپیہ آجائے تو ملک کا ایک روپیہ ایک ڈالر کی برا بر ہو جائے گا اور ہندوستان کا بچہ بچہ مالا مال ہو جائیگا۔ 125کروڑ ہندوستانیوں کو اس لئے یقین آگیا کہ جو کہہ رہا تھا وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ میں سیاسی آدمی نہیں بابا سنیاسی ہوں ۔ میں نہ پارٹی بناؤں گا اور نہ خود الیکشن لڑونگا۔ نہ وزیر بنو ں گا۔ اور سوکروڑ ہندواور اس طرح اس پر ایمان لائے جیسے 1947میں نوکروڑ مسلمان جناح پر ایمان لے آئے تھے۔ اور ہندوستان میں بھی وہی ہوا کہ کانگریسی حکومت کو ہر ہندو نے بے ایمان مان لیا کیونکہ بابا کہہ رہا تھا ۔ صرف اور صرف اسی بابا نے مودی کی سرکار بنوا دی۔ اگر وہ اتنا بڑا نوٹنکی باز نہ ہوتا تو آج ہم بھی کہتے کہ انہیں نکسلیوں کے پاس بھیجوا ور انہیں قومی دھارے میں لانے کا کام وہ کریں ۔ اب اگر کوئی اور ہو سکتا ہے تو وہ انا ہزارے ہیں جن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور وہ ہر بھٹی میں تپ کر کندن ہی بن کر نکلے اور انہوں نے بابا کی طرح نہ یوگا سے کمایااور نہ دواؤں کی فیکٹری لگا کر کروڑوں کمائے وہ دولت دیکھ کر بھی انّا ہی رہتے ہیں۔
وزیر اعظم کی بچوں کے ساتھ دلچسپی ہر جگہ نظر آتی ہے ۔ اسی ریلی کے بعد وہ بچوں سے بھی ملے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بھگوان نے مجھ سے معلوم کیاکہ تو کیا چاہتا ہے ؟ تو میں کہوں گا مجھے بچہ بنا رہنے دیجئے ۔۔ بے شک یہ بہت پیاری خواہش ہے ۔ ہو سکتا ہے زندوں کو مردہ بنانے اور مردوں کو زندہ کرنے والا اپنے ان بندوں سے سوال کرے جنہیں اس نے حکومت سونپی ہو کہ تم نے کیا کیا؟ انشا ء اللہ حضرت عمر فاروقؓ اپنی پھٹی پوشاک دکھا کر اور کمر پر بوری رکھ کر کہہ دینگے کہ میں نے یہ لباس پہنا اور یرے جس بندے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اور بچے بھوکے ہیں، میں کمر پر بوری رکھ کر ان کے گھر لے گیا۔ اور اگر مودی صاحب سے معلوم کیا کہ میرے حکم سے جب فصلوں کو برباد کر دیا گیا اور کروڑوں بندے آنے والی بھوک کے خوف سے یا مر گئے یا مودی مدد یا مودی مدد کرنے لگے تو تم نے کیا کیا؟ تو وہ اپنی پارلیمنٹ کی تقریروں اور 50فیصدی تباہی کے بعد معاوضہ کے بجائے 33فیصدی معاوضہ کے حکم کی کاپی پیش کر دینگے ۔ پھر اگر یہ معلوم کیا کہ معاوضہ کتنو ں کو ملا ؟ کتنوں کی تم نے نگرانی کی کتنے کے گھر تم خود معاوضہ کی رقم لے کر گئے یا تمہارے بینکوں نے انہیں کتنا قرض دیا تو کیا ہوگا؟ اور اگر اس سوٹ کے بارے میں سوال کر لیا جو سوا چارکروڑ روپئے میں نیلام ہوا تھا تو کیا جواب دینگے؟ مودی جی! وہ صرف یہ نہیں معلوم کریں گے کہ بچہ بننا چاہتے ہو یا بادشاہ یہ اس وقت سوال ہوگا جب ہر سوال کا صحیح جواب دے دیا جائیگا۔ اور صحیح جواب کیا ہوگا ؟ پہلے مودی یہ تو معلوم کریں۔

«
»

ہارن آہستہ بجائیں ۔ قوم سو رہی ہے

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز معروف شاعرجناب شمس الغنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے