دَولت کی شکست، اِنصاف کی فتح

یہی وجہ ہے کہ شہروں کے فٹ پاتھ کبھی اتنے آباد ہوجاتے ہیں کہ سونے کو جگہ نہیں ملتی اور کبھی اتنے خالی ہوجاتے ہیں کہ بڑے سے بڑے فٹ پاتھ پر دو چار ہی نظر آتے ہیں۔
ممبئی میں بالی وُڈ کی اپنی الگ دنیا ہے۔ اُن کے درمیان آپس میں چاہے جتنی کشیدگی ہو لیکن جب کوئی اس دنیا سے باہر اکیلا پھنس جاتا ہے تو سب زنجیر کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سنجے دت آجکل جیل میں ہیں۔ اُن کو جب سزا سنائی گئی تھی تو سب نے زمین آسمان ایک کردیئے تھے اور ہر کسی کی کوشش یہ تھی کہ اُن کی سزا معاف کردی جائے۔ سنجے دت کا کیس سلمان خاں کے مقابلہ میں اس اعتبار سے ہلکا تھا کہ اس میں نہ کسی کی اُن کے ہاتھ سے موت ہوئی تھی اور نہ کوئی زخمی ہوا تھا۔ اور عدالت کا برتاؤ بھی بہت لچکدار تھا۔ لیکن جرم ثابت ہوجانے کے بعد سزا نہ دینا انصاف کا خون کرنا ہے۔
سلمان خاں کی گاڑی سے ایک کی موت اور چار کا زخمی ہونا پوری طرح ثابت ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ گاڑی وہی چلا رہے تھے۔ اُن کا شراب پینا اور ڈرائیونگ لائسنس اس وقت اُن کے پاس نہ ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ انہیں نہ کسی نے دشمنی میں پھنسایا ہے اور نہ ان پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اس کے بعد بھی بالی وُڈ کی برادری میں کسی ایک کے منھ سے بھی یہ نہ نکلنا کہ سلمان خاں کی گاڑی سے جس کی موت ہوئی ہے اس کے وارثوں کو سلمان خاں سے اتنا دلوا دیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کھا، پی کر گذار سکیں۔ سلمان خاں نے 13 برس میں اپنے کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے کوئی نہیں بتا سکتا کہ کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ روپئے برباد کئے ہیں؟ یہ سارا روپیہ اُن وکیلوں کے اکاؤنٹ میں گیا جن کا پیشہ ہی یہ ہے کہ قاتل کو بے گناہ اور مقتول کو خطاکار ثابت کرکے اپنی دولت کی گٹھری کے ساتھ گناہوں کی گٹھری بھی بھاری کرلیں۔ 2002 ء میں یہ حادثہ ہوا تھا سلمان خاں اس وقت 35 برس کے تھے اس عمر کے لڑکوں کو لونڈا نہیں کہا جاتا بلکہ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس کے بعد بڑی بڑی اور اہم ذمہ داریاں اُن کے سپرد کی جاتی ہیں اور وہ اگر باصلاحیت ہوں تو اُن کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگتے ہیں۔
رضامراد اس دنیا کے بزرگوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی سلمان خاں کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد کہا کہ وہ کروڑوں روپئے ٹیکس دیتے ہیں۔ وہ کوئی غدار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایک ذمہ دار شہری ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو حکومت کو ٹیکس دیتا ہو، جو ملک کا غدار نہ ہو ذمہ دار شہری ہو وہ کچھ بھی کرے اُسے سزا نہیں دینا چاہئے؟ یہ بات وہ اس ملک میں کہہ رہے ہیں جس ملک میں اُن ہی سلمان خاں کے خلاف اس کا مقدمہ چل رہا ہے کہ انہوں نے کالے ہرن کا شکار کیا تھا۔ وہ ہرن جو جانور ہے جس کے بال بچوں اور بوڑھے ماں باپ کو پالنے کی ذمہ داری اس کی نہیں ہے۔ اس جانور کو مارنے کی بھی سزا ہوسکتی ہے۔ اور جس مقدمہ میں سزا ہوئی ہے وہ تو انسان کی موت کا مقدمہ ہے۔ اور ایک گلوکار کے متعلق معلوم ہوا کہ انہوں نے سڑک پر سونے والوں کو ہی بے وقوف قرار دے دیا جن کا جینا مرنا لائق توجہ نہیں ہے۔
سلمان خاں کے والد بھی بالی وُڈ کے پرانے باسی ہیں وہ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ میں کیسے کہوں کہ میرے اوپر اثر نہیں ہے۔ ایک حساس باپ کو یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ جو اُن کے بیٹے کی غلطی کی وجہ سے مرگیا اس کا بھی بوڑھا باپ ہوگا یا وہ بھی کسی کا باپ ہوگا۔ اسی وقت انہوں نے اپنے پیارے ’’دبنگ خان‘‘ سے یہ کیوں نہیں کہا کہ چلو اُس کے گھر والوں سے معافی مانگو اور وہ جتنے روپئے مانگیں اُن کے قدموں میں رکھ دو اور ان سے کہو کہ زندگی میں جب کوئی پریشانی ہو میرے پاس آنا اور پیسے لے جانا۔ کتنی گھٹیا بات ہے کہ وہ گھرانہ جس کی فلم بازار میں آتی ہے تو سو کروڑ روپئے ایک ہفتہ میں یا دو سو کروڑ روپئے ایک ہفتہ میں اس کی آمدنی ہوتی ہے اس کی گاڑی ایک غریب مرجائے تو اسے کروڑ دو کروڑ روپئے دینے کے بجائے اپنے کو بے گناہ ثابت کرنے اور اسے بے وقوف ثابت کرنے پر مٹادیئے جائیں۔
ہمارے ملک میں بڑے آدمی اور چھوٹے آدمی کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ برسوں پرانی بات ہے جب جھنڈے والے پارک کے پاس سڑک پر بچے اپنے کورس کی کتابیں فروخت کرکے اگلے کلاس کی خرید لیا کرتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہر سال کورس بدلا نہیں جاتا تھا۔ میرے ایک دوست کا چھوٹا بھائی اپنی کتابیں بیچ رہا تھا کہ دو چار پولیس والے آئے اور کئی لڑکوں کو تھانے لے گئے کہ چوری کی کتابیں بیچ رہے ہو۔ میرے دوست نے کہا ذرا تھانے چلو۔ وہ اپنے باپ کی کار لے آیا۔ ہم دونوں تھانے پہونچ گئے تھانہ انچارج کہیں گئے تھے۔ ایک سپاہی نے انہیں فون کیا کہ فلاں لڑکے کے بھائی اور چچاکار میں آئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اپنی کتابیں بیچ رہا تھا۔ داروغہ جی نے کہا اسے فوراً چھوڑ دو۔ بات ہماری نہیں تھی کار کی تھی جس سے داروغہ جی مرعوب ہوگئے۔
سلمان خاں کے اس واقعہ کو 13 برس ہوگئے جبکہ یہ مقدمہ ایسا تھا کہ سال دو سال میں اس کا فیصلہ ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن بات ایک ایسے غریب کی تھی جو سڑک پر سونے پر مجبور تھا اور ایک ایسے امیر کی تھی جس کی صورت دیکھنے کے لئے ہزاروں چھوٹے اور بڑے ٹوٹ پڑتے ہیں اور آج جس کی آمدنی اور شہرت دلیپ کمار سے بھی زیادہ ہے اور امیتابھ بچن سے بھی زیادہ۔ اس لئے صرف پہلی عدالت کو فیصلہ کرنے میں 13 برس لگ گئے۔ اس لئے کہ وہ چوٹی کے وکیل جو ایک دن کی پیشی کے لاکھوں روپئے لیتے ہیں وہ پینترے دکھا رہے تھے اور سلمان کو یقین دلا رہے تھے کہ آپ کو باعزت بری کرائیں گے۔
فیصلہ کے بعد اُن سے ہمدردی کرنے والوں میں سنجے دت کی بہن بھی ہیں اور شاہ رُخ خاں بھی اُن کے گھر دیر تک رہے اور اُن کے وہ وکیل بھی جو اب برسوں ہائی کورٹ میں فٹ بال کھیلیں گے۔ پھر اُن کے سپرد کردیا جائے گا جو سپریم کورٹ میں ایک پیشی کے بارہ لاکھ روپئے لے کر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ نہ سلمان گاڑی چلا رہے تھے نہ انہوں نے شراب پی تھی۔ سلمان اور اُن کے والد سلیم خاں کیا ہیں؟ یہ وہ جانیں لیکن سب انہیں مسلمان کہتے ہیں۔ کاش وہ اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت اس طرح دیتے کہ مرنے والے کے وارثوں کو جان کی منھ مانگی قیمت دے دیتے تاکہ ہر ایک کی زبان سے نکلتا کہ ایسے ہوتے ہیں مسلمان! رہا مقدمہ تو وہ اپنی جگہ ہے اور اپنے ملک کے قانون کے تحت ہی چلتا لیکن وہ اتنا کمزور ہوجاتا کہ شاید صرف جرمانہ کردیا جاتا سزا نہ دی جاتی اور اگر تھوڑی سزا بھی دے دی جاتی تو قیامت کے بعد ملنے والی سزا برائے نام رہ جاتی۔

«
»

اسامہ بن لادن کی مخبری کس نے کی؟

بڑوں کے نقشِ قدم نشانِ منزل ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے