کیا عوام کو راہول گاندھی کی قیادت قبول ہے؟

بد قسمتی سے ابھی تک کانگریس کو ایسا کوئی ہاتھ نہیں لگا ہے۔ان حالات میں راہول گاندھی اپنی قیادت کو ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔مگر انھیں کوئی خاص کامیابی نہیں مل رہی ہے۔وہ کسی کے بھی جھونپڑی میں جاکر روٹی کھار ہے ہیں، تو کسی کے سر کا بوجھ وہ خود کے کاندھے پر اُٹھا رہے ہیں۔کبھی ممبئی کے لوکل میں سفر کرتے ہیں تو کبھی ٹرین کے جنرل کمپارٹمنٹ میں نظر آتے ہیں۔میں عوام کا مخلص خادم ہوں، میں صبرو استقلال کے ساتھ سیاست کرتا ہوں، یہ ثابت کرنے کیلئے وہ اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر عوام کو ابھی تک ان کی قیادت پر نہ اعتماد ہے اور نہ ہی عوام ان کی قیادت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔

عوام ان کی قیاد ت کو تسلیم کیسے کرسکتی ہے ، گزشتہ دس سال کی بات نہیں ہے کانگریس کے دور اقتدارکے 54سال کے عرصہ میں کسانوں کا کیا بھلا ہوا ، کسانوں کی کیا ترقی ہوئی ۔ اقلیتوں کا کیا بھلا ہوا ۔ اب مودی حکومت کو اقتدار میں آنے کیلئے ایک سال کا عرصہ مشکل سے ہوا اور راہول جی اس میں عیب نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔پودالگاتے ہیں پیڑ پر پھل نہیں آتے اس کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے جو شاید راہول گاندھی کو معلوم نہیں ہے، ان کے مشہیرحضرات نے انھیں باخبر کرنے کی ضرورت ہے۔مگر راہول گاندھی اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کے کسان اب تک نریندر مودی کی قیادت سے مایوس نہیں ہیں۔ان کے دلوں میں آج بھی امید کی بیشمار کرنیں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے راہول گاندھی کی یہ سادگی اور یہ نیا انداز سیاست کار آمد ثابت نہیں ہوسکتا۔راہول گاندھی کی یہ جدوجہد ان کے اندر موجودجذبۂ قیادت کو ثابت کرنے کیلئے ہے۔ان کے نام کے ساتھ ’گاندھی‘ فیملی کا نام جُڑا ہوا ہے مگر ان کی کارکردگی کیا ہے ، ان کی سوچ و فکر کا معیار کیا ہے، ان کے مشہیر انھیں کس قسم کا مشورہ کن حالات میں دیتے ہیں، یہ تما م باتیں اپنی جگہ ایک اہم مقام رکھتی ہے۔راہول گاندھی نے اپنے طریقے سے سیاست کرنی چاہیے ، لوگوں میں گھلنا ملنا ان کے بس کی بات نہیں ہے(ان کے والد محترم راجیو گاندھی کس شان سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے، ان کے چہرے پر تمازت تھی، ان کے انداز گفتگو میں ایک وزن تھا ، وہ اپنے فیصلے خود کرتے تھے) راہول گاندھی نے اس سے سبق لینا چاہیے۔

لوگ میں گھل مل جانا ان کے مزاج سے بھلے میل کھاتا ہو، مگر اپنے سیکوریٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگوں میں گھل مل جانا ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔اسلئے انھوں نے لوگوں گھل مل جانے کے بجائے لوگوں کے مسائل کو لوگوں کے توقعات کو ، لوگوں کی امیدوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسے کے مطابق اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا چاہیے۔کیونکہ جب وہ اقتدار میں تھے تو لوگوں کیمسائل کو ، لوگوں کے توقعات کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔اب وہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہی بات ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کسانوں کے مسائل کو وہ کہاں تک سمجھ سکیں گے؟اگر وہ سمجھ بھی لیں گے تو کیا کرسکتے ہیں، جب وہ اقتدار میں تھے اس وقت انھوں نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ کرنے کی کوشش کی پھر اب تو وہ اقتدار میں نہیں ہے پھر کیا کرسکتے ہیں۔یہ بھی ایک سوال ہے، اسلئے راہول گاندھی نے جو ان کیلئے مناسب یا موزوں ہو اس طرح کی ہی سیاست کرنی چاہیے۔ بھلے وہ کتنا بھی عوام میں گھلنے ملنے کی کوشش کریں مگر عوام کو ان پر اعتماد کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے، جس کیلئے کانگریس کی سیاست ذمہ دار ہے۔
راہول گاندھی کو عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہ مقبولیت حاصل کرنے کیلئے راہول کی کوشش جنگی پیمانے پر جاری ہے، جب وہ واقعی عوام کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہوں گے ، عوام میں مقبول ہوں گے وہ دن کانگریس کے لیے ایک بہترین دن ہوگا!!

«
»

بس کر الٰہی

عہد شاہجہانی میں علم و ادب کی بے نظیر ترقیات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے