یمن ، عراق اور شام کے حالات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں

سعودی قیادت میں اتحادی فضائیہ کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب حوثیوں کی جانب سے ایرانی امداد کے ذریعہ حملے کئے جارہے ہیں ، حوثی باغی بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے گھروں پر حملے کررہے ہیں۔ اس طرح یمن کے عام شہری اتحادی فضائیہ اور حوثی باغیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کا شکار ہورہے ہیں۔ یمن کے متاثرہ عوام کا کہنا ہے کہ یہ جنگ نہیں قربانی ہے جس میں ہر روز پانی، غذا، دوا وغیرہ کا ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بعض علاقوں میں امداد پہنچی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حوثیوں کی جانب سے ہونے والے حملو ں اور سعودی اتحاد کی جانب فضائیہ حملوں میں لوگ زخمی اور ہلاک ہورہے ہیں، ان زخمیوں کے علاج و معالجہ کے لئے بھی دشواری پیش آرہی ہے کیونکہ بعض ڈاکٹرز اور نرسیں اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں ۔سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے طبی سپلائی اور عملہ لے جانے والے جہازوں کو جنگ زدہ علاوہ میں امداد فراہم کرنے کیلئے اترنے کی اجازت دی ہے۔ آئی سی آر سی کی ترجمان کے مطابق عدن میں صورتحال تباہ کن ہے،انکا کہنا ہے کہ عدن میں ہر گلی ہر کونے میں جنگ ہورہی ہے اور بہت سے شہری بھاگ کر کہیں جابھی نہیں سکتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں میں یمن میں جاری لڑائی میں کم سے کم ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک اور دوہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 74بچے شامل ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی جو ان دنوں حوثیوں کی بغاوت اور عدن پر قبضہ کی وجہ سے سعودی عرب فرار ہوچکے ہیں اور ان ہی کی درخواست پر سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک ملکر حوثی باغیوں کی بغاوت کو کچلنے اور ان کی جانب سے قبضہ کئے گئے شہروں کو آزاد کرانے کیلئے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حوثی قبائل جو شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں ایران کی فوجی حمایت حاصل ہے جبکہ ایران اس کی ابتداء ہی سے تردید کرتا رہا ہے۔ حوثی باغیوں کو سابق صد ر علی عبداللہ صالح کی وفادار فوج حمایت کررہی ہے اس طرح حوثی باغیوں کو ایک طرف ایران کی فوجی امداد حاصل ہے تو دوسری جانب سابق صدر کی وفادار فوج کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے انکے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں ، حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ انکا مقصد حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور وہ اس پر بدعنوانی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ سعودی اتحاد اور حوثی قبائل جنہیں ایران کی فوجی امداد حاصل ہے کے درمیان یہ جنگ خطے کے حالات کو مزید بگاڑ سکتی ہے اور یہ مستقبل میں شیعہ ، سنی مسالک کے درمیان جنگ میں بدل سکتی ہے۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر قطیف میں تین پولیس عہدیداروں کو دہشت گردوں نے ہلاک کردیا ، قطیف شہر میں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے اور اس سے پہلے بھی یہاں پر حالات خراب ہوچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت سعودی اوریمن کے سرحدی علاقوں میں واقع تقریباً سو بستیوں کو ختم کرنا چاہ رہی ہے تاکہ ان علاقوں میں کسی قسم کی دہشت گردی نہ ہونے پائے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے اس سرحدی علاقے کے اسکولوں کو چند دن کے لئے تعطیلات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ سعودی حکومت کسی بھی صورت میں مملکت میں کسی قسم کی دہشت گردی کو پنپنے نہیں دینا چاہتی اور ملک کے کسی بھی علاقے میں شدت پسندی یا حکومت کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کو روکنے کے لئے سخت احکامات نافذ کردےئے ہیں۔ یمن کے حالات اسی وقت بہتر ہوسکتے ہیں جبکہ حوثی قبائل ، باغیانہ سرگرمیوں کو ختم کرتے ہوئے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ورنہ یہ جنگ خطے کے لئے کافی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے مطابق ’’امریکہ نے سعودی عرب کی سربراہی میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف برسرِ پیکار اتحاد کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا عمل تیز کردیا ہے۔امریکہ کے اس اقدام کا مقصد سعودی عرب کے اس پیغام کی حمایت کرنا ہے جس کے مطابق سعودی عرب حوثی باغیوں کو باور کروایا ہے کہ یمن کو طاقت کے زور پر حاصل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ 
اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم ۰۰۰ پاکستانی حکومت کے لئے ایک بڑا چیالنج
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس سربراہ کو ایک ایسا حکم دیا ہے جس سے پاکستانی حکومت اور امریکی حکومت کے درمیان سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہائیکورٹ نے پولیس سربراہ کو حکم دیا ہے کہ وہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاکستان میں سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ طاہر عالم سے استفسار کیا کہ سی آئی اے کے کنٹری ڈائریکٹر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے متعلق عدالتی حکم کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔اسلام آباد پولیس سربراہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ میں وزارت خارجہ بھی فریق ہے اور ان کے بقول اگر یہ مقدمہ درج ہوا تو پھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہیں اور اگر کہیں پر کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنا عدالت کا کام ہے۔ عدالت کے مطابق اگر مقدمہ درج نہیں کیا گیا تو عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا انتباہ دیا۔ البتہ اس حکم میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مقدمہ کتنے عرثے میں درج کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ پاکستان میں شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لئے امریکہ نے جو ڈرون حملے کئے ہیں اس میں کئی معصوم شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے اسی لئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میں سی آئی اے کے پاکستانی سربراہ پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان میں مقدمہ درج کرکے رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو یہ اہم بات ہوگی کیونکہ ماضی میں امریکہ نے جو ڈرون حملے کئے ہیں اس کا علم پاکستانی حکومت اور فوج کو تھا۔امریکہ ،پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے لاکھوں امریکی ڈالر امداد کے طور پر دیتا ہے، اس امداد کے حاصل کرنے کے بعد پاکستانی حکومت یا پاکستان فوج امریکی کارروائی کے خلاف جو بھی کہے گی وہ صرف عوام کو دکھانے کے لئے ہوگا اصل میں پاکستانی حکومت اور فوج اندرونی طور پر امریکی حملوں کی تائید و حمایت کرتی ہے کیونکہ پاکستان دہشت گردانہ سرگرمیوں سے آزاد ہو۔ یہ اور بات ہے کہ ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت ہوتی رہی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اسلام آباد پولیس سربراہ عدالتی حکم پر عمل کرتے ہیں یا انکے خلاف عدالتی کارروائی کے لئے تیار رہتے ہیں۰۰۰
عراق کتنے حصوں میں بٹ چکا ہے؟
عراقی حکومت کے مطابق فوج نے شمال مغربی شہر تکریت میں ایک ماہ کے محاصرے کے بعد شدت پسند نظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کو شکست دے دی ہے ۔ عراق کے اس شہر پر عراقی فوج کا دوبارہ قبضہ ہونے کے بعد ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ اب ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل سے داعش کو نکالنے کی تیاری میں دکھائی دیتی ہے۔ تکریت کی جنگ میں تقریباً 3000عراقی فوجی اور ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کے بیس ہزار اہلکار شامل تھے۔ امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد نے داعش کے خلاف فضائی آپریشن جاری رکھا ہوا ہے جو طویل عرصہ تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ عراقی فوج کا قبضہ ہونے کے بعد تکریت میں تقریباً 1700افراد کی اجتماعی قبریں ملنے کی رپورٹ ہے جن کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ان عراقی فوجیوں کی قبریں ہیں جنہیں دولت اسلامیہ نے ہلاک کیا تھا۔ یہ قبریں امریکہ کے سابق فوجی ٹھکانے کیمپ اسپائچر کے قریب ملی ہیں۔ داعش سے تکریت کو آزاد کرانے کے بعد عراق کی فورینسک ٹیم نے بارہ قبروں کی کھدائی کے کام کا آغاز کیا ہے۔ داعش جو شام اور عراق کے سرحدی علاقوں کے علاوہ دیگر قصبوں اور شہروں پر قبضہ کیا ہوا ہے اس نے گذشتہ سال سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے ہلاک کرنے کی ویڈیوز جاری کی تھیں ۔ ہلاک کئے جانے والے عراقی فوجیوں میں اکثریت اہلِ تشیعہ کی بتائی جارہی ہیں۔ عراقی شہر تکریت داعش کے قبضے سے آزاد کرانے میں تعاون کرنے والی شیعہ ملیشیا کو پرتشدد اور لوٹ مار کے واقعات انجام دینے کے باعث تکریت سے بلالیا گیا ہے۔ عراقی عوام کا کہنا ہے کہ شہر کو آزاد کرانے والے اس وقت سے گاڑیاں چوری کررہے تھے اور سرکاری عمارتیں چھان رہے تھے۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے لوٹ مار کرنے والوں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا ۔ اب دیکھنا ہے کہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کو عراقی فوج کس طرح اور کتنی مدت میں داعش سے آزاد کراپاتی ہے جبکہ اسے امریکی اتحادیوں کا تعاون حاصل ہے جو بڑے پیمانے پر فضائی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ مشرقِ وسطی میں موجودہ حالات ، مستقبل کے لئے خطرہ ہے ،سعودی حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں عالم اسلام اور ایران کے درمیان بات چیت کا عمل شروع ہوتا ہے اور ان تمام ممالک کے درمیان شدت پسندی کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا جاتا ہے تو مستقبل کے خطرہ کو ٹالا جاسکتا ہے ورنہ شام، عراق، یمن کے حالات عالمِ اسلام ہی نہیں دنیا کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے