ہندوستان میں خواتین وبچوں کاشدید استحصال

گزشتہ دنوں کیا گیا ایک سروے مظہر ہے کہ گجرات کے ہندوؤں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا تناسب مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے، اسی طرح جہیز کے لئے خواتین کو زندہ جلادینے یا خود کشی کرنے پر مجبور کردینے کی لعنت بھی مسلمانوں کے برعکس دوسروں میں زیادہ ہے، پھر بھی قومی پریس اور اکثریت کے جارح عناصر اپنے گریباں میں منہ ڈالنے کے بجائے مسلم اقلیت کو ہدف تنقید بنانے سے نہیں چوکتے، اب تو دوران حمل جنس کی شناخت کے طریقہ نے صنفِ نازک کی نسل کشی کو کافی آسان کردیا ہے، جس کی وجہ سے مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے اور جینیوں میں یہ تناسب بہت کم ہوگیا ہے۔ معصوم بچوں کے استحصال کے نت نئے طریقہ بھی تلاش کرلئے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک اس برائی کا سب سے بڑا مرکز بن گیا ہے۔
۲۰۱۱ء کی مرد م شماری کے مطابق ہندوستان کے ڈیڑھ کروڑ نونہال محنت ومشقت کے مختلف کاموں میں لگے ہوئے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی اور ایک لنگوٹی کیلئے دس بارہ گھنٹے مزدوری کرنا پڑتی ہے اور یہ سب اس دیش میں ہورہا ہے جہاں کروڑوں بالغ آج بیروزگار ہیں مگر ان کو کام نہیں ملتا، اس کے بجائے معصوم بچوں کو اس لئے کام پر لگادیا جاتا ہے کہ ان کی اجرت کافی کم ہوتی ہے علاوہ ازیں لیبر قوانین اور ٹریڈ یونین کے دوسرے جھمیلے بھی دامن گیر نہیں ہوتے۔ نہ چھوٹے بچے کام کے اوقات کے بارے میں نخرے کرتے ہیں بلکہ ہر ظلم وستم کو خاموشی سے برداشت کرلینے کا مادہ ان میں زیادہ پایاجاتا ہے۔
مزدور بچوں کی تعلیم وتربیت تو دور رہی انہیں بھٹیوں کے سامنے سخت تپش وآگ میں کام کرنا پڑتا ہے ایسے نازک وخطرناک کام بھی ان سے لئے جاتے ہیں جن سے اکثر بچوں کے اعضاء کو نقصان پہونچ جاتا ہے تو وہ اپاہج بن کر مزید استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں ، حالانکہ بچوں کی مزدوری کے بارے میں قانون پہلے سے موجود ہیں اور دستور میں اس کے خلاف آئینی دفعات بھی رکھی گئی ہیں ان کے باوجود پورے ہندوستان میں بچوں سے محنت ومزدوری کرانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، ایسے بچے کبھی بھی اچھے شہری نہیں بن سکتے جو مشینوں پر کام کرتے ہیں ان میں سے کچھ اچھے میکانک ضرور بن جاتے ہیں یا دست کاری کا کوئی ایسا ہنر سیکھ لیتے ہیں جو زندگی میں ان کے کام آتا ہے مگر تعلیم وتربیت کے نام پر وہ صفر سے آگے نہیں بڑھتے، ایسے بچوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن نہ قومی پریس کو اس کی فکر ہے نہ اکثریت کی سیاسی وسماجی تنظیموں کو اس کا احساس ہے ، انہیں تو مسلم پرسنل لا کو مطعون کرنے کیلئے صرف مسلمان عورتوں کی ہمدردی سے دلچسپی ہے، اگر وہ ملک کی واقعی ترقی چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی پر بھی توجہ دی جائے، ان کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے مسائل ومشکلات دور ہوں،خواہ اس کیلئے ریزرویشن کا طریقہ کیوں نہ اپنانا پڑے۔

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے