ذہنوں کی بدلتی کیفیات

کچھ مرد بیویوں کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دینے کی کیفیت اپنے اندر رکھتے ہیں جبکہ کچھ اس برعکس ہوتے ہیں،کچھ بیوی کو ماں باپ پر ترجیح دیتے ہیں تو کچھ ماں باپ کو بیوی پر،کچھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا پسند کرتے ہیں تو کچھ صرف نقص نکالنے کو،غرض انسانی زندگی میں ذہنوں کی ان کیفیات کا لامتناہی سلسلہ رواں ہے۔ان کیفیات کے بدلنے سے ہی مختلف واقعات وحادثات رونما ہوتے ہیں۔
ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے گھر کاماحول خوشگوار ہو۔اس کیلئے مدمقابل کی ذہنی کیفیت سے واقفیت ضروری ہے پھر چاہے وہ بیوی ہو یا والدین۔ویسے یہ نہایت آسان کام ہے،جس شخص سے آپ کو انسیت ہو ظاہر ہے اُس کے اچھے برے موڈ کا علم بھی ہوتا ہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی ذہنی کیفیات کا غیر معمولی خیال رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد اپنی ذہنی کیفیات سے متعلق چاہتوں کو سامنے والے کی چاہت پر ترجیح دیتے ہیں جس سے نا اتفاقی کی شروعات ہوتی ہے اور جنم لیتی ہے ایک چھوٹی سی ’’خلش‘‘ جو اس رشتے کو ختم کرکے ہی دم لیتی ہے۔دوسری جانب کہیں والدین کی ذہنی کیفیات کو فراموش کر اپنی خواہشات کی تکمیل کیذریعے گناہ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔انسانی زندگی میں ان بدلتی کیفیات سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ہر ایک کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بس جیت اُس کی ہی ہوتی ہے جو اپنی بدلتی کیفیت کو برداشت کرکے دوسروں کی خوشی کا باعث بن جائے۔اللہ نے ہمیں عقل سلیم عطاء کی ہے ،اس کا فائدہ اٹھائیں اور حکمت سے ہر مسئلے کا حل تلاش کرلیں۔اگر آپ اُداس ہیں تو کسی پر یہ ظاہر نہ کریں شاید آپ کی اداسی کسی اور کو اداس کردے۔ہوسکتا ہے آپ کی بناوٹی خوشی کسی کو سچی خوشی دے دے۔

اکثرمسلم بستیوں کی شروعات گندگی سے،ذمہ دار کون؟

’’پاکی نصف ایمان‘‘فراموش کر’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘کیلئے ہاتھ میں جھاڑو

کسی نئے علاقے میں اگر ہمیں مسلم علاقے کی تلاش کرنی ہو تو یہ کچھ مشکل نہیں۔ہمارا یہ نظریہ کہ جہاں گندگی کی شروعات نظر آجائے وہیں سے مسلم علاقے شروع ہوجاتے ہیں کچھ حد تک درست بھی ہے۔جہاں مذہب اسلام نے صفائی اور پاکی کو نصف ایمان قرار دیا ہے وہیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے فراموش کر رکھا ہے۔مسلمانوں میں اس تعلق سے جہاں بیداری میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے وہیں کچھ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔’’ہم ایسے ہی جئیں گے‘‘ کے مصداق انکی زندگی کا سفر گامزن ہے۔یہ ہیں اولین ذمہ دار،جنہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمیں کیا کہتا ہے ۔گھر کا کوڑا کرکٹ چند قدم کے فاصلے پر لے جا کر پھینکنے کے بجائے پڑوسی کے دروازے کے سامنے ڈالنے سے جو مردانگی ظاہر کریں انہیں آپ کیا کہیں گے؟ اپنے بچے کو پڑوسی کے دروازے کے پاس بیت الخلاء کیلئے بٹھانے کی روایت بھی عام ہے ۔ سڑکوں پر بکھرے کوڑا کرکٹ کواٹھانے اور اس کا مناسب نظم کرنے کیلئے انتطامیہ کا دوگلا رویہ بھی قابل شرم ہے کیونکہ اس گندگی کی اگلی اور سب سے اہم ذمہ داری انتظامیہ کے سر جاتی ہے۔اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں کھلم کھلا دشمنی کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ ہیں ۔مدد کا دکھاوا اور عمل ندارد۔یہ ہر جگہ کا رونا ہے۔صفائی انتظامیہ کا جانبدارانہ قدم،مسلم علاقوں کی صفائی میں کوتاہی اور دوسرے علاقوں میں حد سے زیادہ کام کا مظاہرہ اور چستی یہ عام بات ہے۔بھری ہوئی گٹریں،اور ان سے نکل سڑکوں پر رس رہے گندے پانی کی دھاریوں سے بچ کر نکلنے والی عوام بھلا کیا کر سکتی ہے؟ ان گندگیوں کے سبب مچھروں اور چراثیم سے ہونے والی بیماریاں ،اور ان سے متاثرہونے والے افرادکیا کرسکتے ہیں؟ کسے مورد الزام ٹھہرائیں؟ماحول کی بھی اس تعلق سے بہت اہمیت ہے۔کئی خاندان جہاں اس گندگی کو ناپسند کرتے ہیں وہیں مجبور بھی ہیں اسی میں زندگی گذارنے پر،پھر چاہے وہ بڑا شہر ہو یا چھوٹا،گاؤں ہو یا کوئی بستی۔قابل ستائش ہیں وہ افراد جو اس گندگی کے بیچ رہ کر بھی اوروں سے الگ صفائی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ہر چیز کا سلیقہ انکے یہاں دیکھنے کو ملے گا۔گھر کا آنگن،اندرونی اور بیرونی ماحول وغیرہاسلام نے جس چیز پر ہمیں عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے وہ اب غیر ہمیں سکھا رہے ہیں اور ہم ہاتھ میں جھاڑو لئے’’سوچھ بھارت‘‘ کا نعرہ لگانے کو تیار ،رسائل وجریدوں میں اپنی تصاویر پیش کررہے ہیں۔

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے