تکریت سے عراق میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکنے والی ہے

تکریت سمیت عراقی سر زمین کے ایک ایک انچ سے قبضہ چھڑانا عراقی فورسز کا قومی فریضہ ہے۔ بلاشبہ اسی صورت میں ریاستی عمداری کا اظہار ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر تکریت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر اور اپنے سیاسی اتحادوں کی مدد سے داعش کے قبضے سے چھڑانا مقصود ہے تو یہ فتح عارضی ہو گی۔ خدشہ ہے کہ داعش دوبارہ مقامی حمایت کی بنیاد پردوبارہ تکریت پر قابض ہو جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ میلیشیا کی وجہ سے عراق میں جاری لڑائی اب نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ ہو چکی ہے۔ مقامی باشندوں کو میلشیا کے ذریعے دھمکایا جا رہا ہے۔
فوجی انٹیلیجنس کے ذریعے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ محض شیعہ سنی لڑائی نظر آ رہی ہے، داعش سے قبضہ چھڑانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں لگ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی ان علاقوں کو داعش سے چھڑوانے کے بعد فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ بدقسمتی سے عراق کے سنی وزیر اعظم سے ناراض ہیں، اگرچہ وہ حیدر العبادی کے انتخاب سے خوش تھے کیونکہ انہوں نے اپنے انتخابی وعدے میں مصالحت اور امن کا یقین دلایا تھا۔ لیکن اب سنی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد یہ کمزور ثابت ہوئے ہیں۔

شام سے مماثلت
سنیوں کو خوف ہے کہ صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی اور انہیں اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جیسے حالات شام میں لوگ برداشت کر رہے ہیں۔ شام میں علویوں اور سنیوں کے درمیان تصادم ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود شامی رجیم اس سے انکاری ہے۔ لیکن یہ اب سامنے کی بات ہے ۔ خصوصا حزب اللہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے ملوث ہو جانے سے جو کچھ تکریت اور صوبہ صلاح الدین میں ہورہا ہے یہ شام میں ہونے والے واقعات کا ہی عکس لگتا ہے۔
امریکیوں کو اس لڑائی کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے۔ وہ داعش کی سنگین مجرممانہ کارروائیوں اور نوری المالکی کی حکومت کے آخری دنوں میں پیدا ہونے والے خطرات کی وجہ سے خود کو پھر سے عراق میں کھیچتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ مالکی کی انتظامیہ نے مسلسل شکست کھائی تھی۔ اس کی وجہ سے انتہا پسندوں کو اہم مقامات پر قبضے اور دارالحکومت کی طرف آنکھ اٹھانے کا موقع میسر آیا۔
اگرچہ امریکیوں نے نوری الماکی کے مستعفی ہونے میں ایک فعال کردار ادا کیا تھا اور بعد ازاں اس امر کو بھی تسلیم کیا تھا کہ عراق میں جاری تباہی میں نوری الماکی کی پالیسیوں کا ہی دخل ہے۔ اب وہ ایک خندق میں لڑی جانے والی لڑائی کی طرح اس کے کیمپ کے لیے لڑ رہے ہیں اور فرقہ وارانہ گروپوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ممکن ہے وہ عراق کے تمام علاقوں کو آزاد کرانے اور داعش کو صاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن اس جنگ کے بعد شام کی طرح فرقہ وارانہ جنگ کا خطرہ ہے۔ اس لیے اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی عمل کے بغیر عراقی فورسز کی حمایت کرنے سے امریکا کو کیا حاصل ہو گا؟
مغربی دنیا کا کردار
امریکیوں کو خیال کرنا چاہیے کہ وہ خطے میں فرقہ وارانہ جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ شام میں علویوں کی جانب سے اور عراق میں شیعوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکا شیعہ ایرن کے سے جوہری معاملے پر مذاکرات بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ تینوں پہلو سنیوں کے خلاف ہیں۔ اگر خلاف نہیں تو کم از کم نظر ایسے ہی آتے ہیں۔ امریکیوں نے خود کو ایک ایسے خطرناک راستے پر ڈال لیا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔
ہمیں امید تھی اور اب بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکا، بشار الاسد، شامی رجیم اور اس کی فرقہ پسندی کو تنہا کرنے میں مدد دے گا۔ اس کے مقابلے میں ایسی اعتدال پسند حزب اختلاف کی حمایت کرے گا جس میں تمام مذاہب اور نسلی گروہوں کی نمائندگی پائی جاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی امید تھی کہ امریکا عراقی حکومت کی اس وقت تک حمایت نہیں کرے گا جب تک وہ خود کو تمام عراقیوں کی نمائندہ بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرے گی۔
خطے میں فرقہ وارانہ جنگ کو پھیلانا مغرب کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ القاعدہ، داعش، النصرہ فرنٹ، حزب اللہ اور اہل حق و دیگر اسی طرح کی اندھی جنگوں کا ثمر ہیں۔ مغرب کو چاہیے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے میں اعتدال پسند سول اداروں کی سرپرستی کرے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس جنگ میں فتوحات عارضی ثابت ہوں گی

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے