مملکتِ سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے توقعات

مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک کی طرح سعودی عرب بھی صدر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے۔ سعودی عرب شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے خلاف امریکی حکومت کا اتحادی ہے لیکن سعودی عرب کا ماننا ہے کہ بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بغیر داعش کا خاتمہ ممکن نہیں۔شاہ عبداللہ کے دورِ حکومت میں بھی شدت پسندی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا گیا اور انکے خلاف سخت سے سخت کارروائیاں انجام دی گئیں اور اب شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورِ حکومت میں بھی ملک میں امن و سلامتی بنائے رکھنے اور شدت پسندی کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ شاہ سلمان کا زیادہ تر رجحان اسلام پسندی کے جانب ہے اس اعتبار سے ملک میں کسی بھی صورت شرعی قوانین و ضوابط کے تحت ہی فیصلے ہونگے اور کسی بھی غیر سماجی و غیر اسلامی سرگرمیوں کو جگہ نہیں دی جائے گی۔
شاہ عبداللہ کے انتقال پر کئی ممالک کے سربراہان و اعلیٰ قائدین سعودی عرب پہنچ کرنئے فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کرکے تعزیت کا اظہار کرچکے ہیں۔ امریکی صدر بارک اوباما کا دورہ بھی اسی سلسلہ میں تھا۔ امریکی صدر کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد اور کئی اہم قائدین و عہدیدار موجود تھے لیکن اس مختصر سے دورہ کا مقصد صرف اظہارِ تعزیت بتایا گیاہے کیونکہ یہ دورہ پہلے سے متعین نہیں تھا۔ اوباما نے ہندوستان میں تاج محل کے دورہ کو ملتوی کرکے سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ 
شاہ سلمان بن عبدالعزیز ایک ایسے وقت مملکتِ سعودی عرب کا اقتدار سنبھالا جبکہ خطہ میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ ویسے شاہ سلمان اپنے والد محترم شاہ عبدالعزیزبن عبدالرحمن السعود اور بھائیوں کی سرپرستی میں وسیع ترتجربہ کے حامل ہیں۔ انہیں شاہ عبدالعزیز نے صرف 19سال کی عمر میں یعنی17؍ مارچ 1954ء کو دارالحکومت ریاض کے امیر(مےئر) کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی۔والد کے انتقال کے بعد بھائی شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 19؍ اپریل1955ء کووزیر کے عہدہ کے برابر درجہ بڑھاکر مےئر بنادیا۔ اس عہدہ پر وہ ڈسمبر 1960ء تک فائز رہے۔شاہ سلمان 31؍ ڈسمبر 1935ء کو پیدا ہوئے انکی تعلیم پرنسس اسکول ریاض میں ہوئی۔ سلمان بن عبدالعزیز 04؍ فروری 1963ء سے 2011 تک یعنی 48سال تک سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے گورنر رہے۔گورنر کی حیثیت سے شہزادہ سلمان نے ریاض کو ایک دیہات سے جدید شہر میں بدل دیا، ریاض کی تعمیر و ترقی ، سیاحوں کی توجہ حاصل کی ، بڑے پراجکٹس اور بیرونی سرمایہ کاری پر توجہ دی ۔ وہ 5؍ نومبر2011ء میں شہزادہ سلطان کی جگہ وزیر دفاغ اور نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے ممبر بنے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی اعلیٰ صلاحیتوں اور ڈپلومیٹک مزاج کی وجہ سے وزیر دفاع اور ڈپٹی پرائم منسٹر بنائے گئے۔ انہیں شاہ عبداللہ بن عبد العزیز خادم الحرمین الشریفین نے 18؍ جون 2012ء کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور وہ 23؍ جنوری 2015کو شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد مملکتِ سعودی عرب کے فرمانروا بن گئے۔گورنر ریاض اور پھر وزیر دفاع و ڈپٹی پرائم منسٹر کی وجہ سے انہیں عالمی قائدین بشمول 2013میں امریکی صدر بارک اوباما اور ڈیوڈکیمرون سے بھی امریکہ و برطانیہ میں ملاقات کی۔ شاہ سلمان سعودی عرب اوردیگر ممالک کے درمیان بہتر سفارتی تعلقات بنائے رکھنے معاشی استحکام کے لئے عالمی سطح پر مقبول ہیں۔ شاہ سلمان سیاسی تبدیلیوں کے بجائے معاشی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں، ماہرین کے مطابق شاہ عبداللہ کے برعکس نئے حکمراں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر سب سے زیادہ تیل نکالنے والے ملک کی پیداوار میں ردوبدل کرسکتے ہیں اور وہ معاشی تبدیلیاں لاکر سعودی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنانے کی طرف زیادہ توجہ دے سکتے ہیں جبکہ خسارہ کم کرنے کے لئے بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر جس طرح شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے مسلمانوں نے توقعات وابستہ رکھیں تھیں اب شاہ سلمان اپنی معاشی پالیسیوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ خام تیل کی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے بھی کئی ممالک کی نظریں ان پر رہیں گی۔
ٹوئٹر پر شاہ سلمان کی مقبولیت
شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز ٹوئٹر (مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ) پر اپنا اکاؤنٹ 23؍ فبروری 2013میں بنایا تھا۔ ابھی انہیں سعودی عرب کے حکمراں بنے چند دن ہوئے ہیں وہ ٹوئٹر پر مقبول ترین شخصیت کے طور پر نمایاں ہوچکے ہیں۔ سوشل میڈیا مانیٹرنگ سائٹ ٹوپسی کے مطابق ٹوئٹر پر فالو کرنے والوں کی تعداد 17لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور جب شاہ سلمان نے اپنے نام ایچ آر ایچ پی سلمان سے کنگ سلمان رکھا تو ایک گھنٹہ بعد انکے فالوورز میں ایک لاکھ تیس ہزارکااضافہ ہوا ہے۔
مغربی یورپ سے 550خواتین جہادی شام و عراق کا رخ کیا
برطانیہ سے جاری اعداد و شمار انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک کی خواتین دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے550خواتین شام اور عراق جاچکی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کی سینئر محقق اور ادارے میں خواتین اور انتہا پسندی کے عنوان سے چلنے والے پروگرام کی روحِ رواں ایرن سالٹ مین کا کہنا ہے کہ یوروپی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں دولت اسلامیہ عراق و شام کے زیر قبضہ علاقوں کا رخ کررہی ہیں اور ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔انکا کہنا ہے کہ ابھی تک خواتین جنگ میں شریک نہیں ہوئیں لیکن یہ صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے اور بہت سی خواتین لڑائی میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے شدت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے کے عمل اور اس سلسلہ میں سوشل میڈیا کے کردار کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اگر خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اس طرح شدت پسند گروپوں میں شامل ہوتی ہیں تو کئی ایک مسائل پیدا ہونگے۔ 
افغان طالبان کا دورۂ چین۰۰۰ پاکستان اور چین کے تعلقات
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان وفد کے دورہ چین کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ تنظیم نے افغان حکومت کے ساتھ چین کی ثالثی کی درخواست نہیں کی ہے۔ افغان ترجمان کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے طالبان اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرانے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق آنا جانا ہوتا ہے جس میں پڑوسی ملک چین بھی شامل ہے۔چین کا موقف ہے کہ طالبان کو اقتدار میں شامل کیا جائے۔ گذشتہ 13سال میں چین کی افغانستان میں زیادہ توجہ اقتصادی امور پر رہی ہے۔چین افغانستان میں نیٹو کے جنگی رول کے خاتمے اور زیادہ تر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے جن میں مذاکرات اور ممکنہ کردار بھی ہوسکتا ہے۔ چین نے گذشتہ سال اپنے ایک قابل اعتبار سفارتکار سن یوشی کو افغانستان کے لئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا۔ پاکستان،چین انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مشاہد حسین سید کے مطابق دیگر ممالک کی نسبت چین افغانستان میں اس لئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ اس ملک کا کبھی افغانستان میں کوئی فوجی کردار نہیں رہا ۔ اس طرح چین افغانستان میں امن و سلامتی کے لئے مؤثر رول ادا کرسکتا ہے لیکن کیا امریکہ اور مغربی یوروپی طاقتیں چین کے اس عمل کو کامیاب ہونے دیں گے ۔ امریکہ جس طرح سوویت یونین کو افغانستان میں اپنی اجارہ داری قائم ہونے نہیں دی اسی طرح چین کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن ان دنوں امریکہ اور ہندوستان کے بڑھتے تعلقات نے پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کے لئے دشواری پیدا کردی ہے ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کا دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جس طرح قربانی دے رہا ہے اس کے پیشِ نظر امریکہ اسے نظر انداز نہ کریں ۔ امریکی صدر بارک اوباما کے دورے یومِ جمہوریہ ہند کے موقع پر بھی پاکستانی میڈیا نے کئی ایک خدشات کا اظہار کیا ہے۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان ، چین سے اپنی دوستی کو مزید مضبوط و مستحکم کرنا چاہ رہا ہے اسے ڈر ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان خوشگوار تعلقات اس کے استحکام کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔امریکہ ایک طرف ہندوستان سے بہتر تعلقات قائم کررہا ہے لیکن وہ پاکستان اور افغانستان کو بھی کسی صورت اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گا کیونکہ عالم اسلام میں اپنی اجارہ داری کے لئے امریکہ ان دونوں ممالک کو کافی اہمیت دیتا ہے۔

«
»

مذہبی رواداری پر اوباما کے دو بیانات

میڈیا قیام عدل وامن و اماں کا ایک موثر ذریعہ۔۔۔لیکن!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے